پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی لازوال، دونوں برادر اسلامی ملک ، دونوں کے دشمنوں کی تعداد بھی زیادہ،دشمن ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور انہیں ذرا سی بھی ڈھیل ملے تو برادر اسلامی ممالک کے خلاف پروپیگنڈہ کا طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے لیکن پھر انہیں اپنے مذموم مقاصد میں ناکامی ہوتی ہے،کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا جس میں انہوں نے او آئی سی کے کردار کا ذکر کیا، اس بیان کے بعد سعودی عرب کے خلاف ایسی باتیں ہوئیں جو نہیں ہونی چاہئے تھی، پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ایسے نہیں کہ پروپیگنڈوں سے ختم ہو جائیں، سعودی عرب اور پاکستان دونوں مشکل کے ساتھی ہیں، سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی مدد کی ، وزیراعظم عمران خان جب اقتدار میں آئے اور معیشت کا رونا روتے رہے اس وقت سعودی عرب ہی تھا جس نے پاکستان کا ہاتھ تھاما، پاکستان کو تین ارب ڈالر کی امداد دی، سعودی عرب ہی تھا جس نے پاکستان کو تیل ادھار پر دیا، سعودی عرب ہی تھا جس نے سعودی عرب سے امریکہ جانے کے لئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو اپنا ذاتی جیٹ دے دیا تھا، سعودی عرب ہی تھا جو بھارت کے ساتھ تنازعہ کے موقع پر سب سے پہلے پاکستان پہنچا تھا اور سعودی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی،اور قیام امن کی کوشش کی تھی،بات اوآئی سی کی ہوئی، او آئی سی مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے جس کاصدر دفتر سعودی عرب میں ہے، او آئی سی نے ہمیشہ کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائی ،پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس بات کی خود تائید کر چکے ہین، پاکستان کے وزیراعظم بھی کئی بات تائید کر چکے ہیں، سوال یہ ہے کہ کشمیر پر ہمارے وزیر اپنی ناکامیوں کا بوجھ او آئی سی پر کیوں ڈالنا چاہتے ہیں ؟
کشمیر پر وزارت خارجہ کی کارکردگی پر اپوزیشن جماعتیں تو سوال اٹھا ہی رہی تھیں کہ ٹویٹ کرنے، ایک دن دھوپ میں کھڑا ہونے سے کشمیر یوں کو مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ اب تو وہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا، اپوزیشن کو تو رہنے دیں،اس کا کام ہی حکومت پر تنقید کرنا ہے، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری جو تحریک انصاف کی بھی مرکزی رہنما ہیں نے کشمیر پر وزارت خارجہ کی کارکردگی پر انتہائی گہرے سوال اٹھائے ہیں اور وزارت خارجہ کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے،شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارت کاری میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔دفتر خارجہ اور دیگر اداروں نے وزیراعظم کی کوشش اور کشمیریوں کی جدوجہد کو ناکام بنایا۔ وزیراعظم نے اپنی تقاریر اور بیانات سے تنِ تنہا کشمیر کا بیانیہ بدل کر دکھایا مگردفتر خارجہ اور دیگر اداروں نے وزیراعظم کی کوششوں اور کشمیریوں کی جدوجہد کو ناکام بنایا۔ اگر ہمارا دفترخارجہ وزیراعظم کے بیانیے کو لے کر چلتا تو حالات مختلف ہوتے ، چاہے عالمی سیاست جو بھی ہو دفتر خارجہ کام کرتا تو دنیاکشمیر پرہماری بات ضرور سنتی، مگر ہمارے سفارتکار آرام، تھری پیس سوٹس اور کلف لگے کپڑے پہننے اور ٹیلی فون کرنے کے سوا کچھ کرنے پر تیار نہیں۔ کیا پاکستان برکینافاسو جتنا سفارتی وزن بھی نہیں رکھتا جس نے امریکا کیخلاف قرارداد منظور کرالی؟ سارا زور کپڑوں کو کلف لگا کر ٹو پیس پہن کر سفیروں کو فون کرنے پر ہے، وزیراعظم عمران خان نے جتنا زورلگا کرکشمیرکا بیانیہ اٹھایا تھا اسے تباہ کردیا گیا۔ کشمیر کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے ہمیں روایتی سفارت کاری سے نکلنا ہوگا اور اس کے لیے ہمیں جدید طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔شیریں مزاری نے جو سوالات اٹھائے کم از کم ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے مریدوں کے جھرمٹ سے نکلیں اور جواب دیں کہ سوائے ٹھنڈے دفتر میں بیٹھ کر فون کرنے کے انہوں نے کشمیر کے لئے کیا کیا ہے؟
یہ تو واضح ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دونوں ممالک کے مابین برادرانہ تعلقات اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔ یہ تعلقات دیرینہ دوستی اور سٹریٹجی پر قائم ہیں اور دونوں ملک بیشتر علاقائی اور بین الاقوامی امور خصوصاً امت مسلمہ کے امور پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان مسلم اتحاد کے نظریے اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے کردار کو برقرار رکھنے پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کو ایک کامیاب اور مستحکم ملک دیکھنا چاہتا ہے، دونوں ملکوں کے مابین برادرانہ تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہوئیں لیکن ناکامی ہوئی،ملائشیا سمٹ کے موقع پر بھی ایسا ہی طوفان برپا کیا گیا تھا حالانکہ اس وقت پاکستا ن نے اپنا واضح موقف دے دیا تھا،اب بھی بات اتنی نہیں ہے جتنی بڑھا چڑھا کر پیش کی جا رہی ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں، انکا دورہ مکمل ہونے کے بعد سب پر واضح ہو جائے گا کہ پاک سعودی تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں ڈالی جا سکتی،دونوں اسلامی ممالک آئرن برادر ہیں۔
پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی جنہوںنے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا ہے اب بھی متحرک ہیں اور انہو ں نے نہ صر ف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بلکہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمان، راجہ ظفر الحق، ساجد میر،چودھری شجاعت حسین، وزیراعلیٰ پنجاب، گورنر پنجاب، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں اور وہ پاکستانی قوم کو پیغام دے رہے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے سعودی عرب کے بارے بیان سے وزیر خارجہ کی ہی جگ ہنسائی ہوئی ہے،ہم مدد سعودی عرب سے لیتے ہیں اور گیت ان کے دشمنوں کے گاتے ہیں۔ پاکستان سعودی عرب کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ سعودی عرب اور پاکستان لازم وملزوم ہیں۔ سعودی عرب سے تعلقات کی خرابی میں ایک مخصوص ٹولا ہے جو وزیر اعظم کے ارد گرد جمع رہتا ہے۔ وزیر خارجہ کے بیان پر وزیر اعظم کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ سعودی عرب صرف ہمارا دوست نہیں بلکہ ہماری مجبوری بھی ہے۔ دانائی کا تقاضا تھا کہ مخالفت اور عداوت کے ماحول میں اپنا مفاد دیکھا جاتا۔ہمیں سعودی عرب میں موجود اپنے 25لاکھ ورکرز پر توجہ دینی چاہیے۔ سعودی عرب سے ملنے والے ادھار تیل اور تین ارب ڈالرز کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔وزارت خارجہ نے سفارتی حماقت کی انتہا کردی ہے۔ ماضی میں سعودی عرب ہر مصیبت کے وقت وہ کام آیا۔ ایٹمی دھماکوں کے وقت جب دنیا پاکستان کے اقتصادی بائیکاٹ کی دھمکیاں لگا رہی تھی۔ہمارے ساتھ تنہا سعودی عرب کھڑا تھا۔ سعودی عرب نے خزانوں اور تیل کے منہ کھول دیے تھے۔
زلزلہ ہو یاسیلاب ہو، ہندوستان کے خلاف جنگ ہو۔ ہر موقع پر اس نے ہمارا ساتھ دیا۔مگر ہماری وزارت خارجہ نے سعودی عرب کے ان تمام احسانات کو پس پشت ڈال دیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی او آئی سی کے وزراء خارجہ کا اجلاس نہ بلانے کی بات دراصل ایک بہانہ ہے۔ اصل میں ان کے پیش نظر سعودی عرب کو نشانہ بنانا تھا۔ اس معاملے کی تحقیق ہونی چاہیے کہ اس بیان کے پیچھے کون ہے؟ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے دیگر مسلم ممالک کو ناراض کرے۔ سفارتی دنیا میں ہر ملک اپنے مفاد کی بنیاد پر تعلقات بناتا ہے۔ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ دیگر اسلامی ممالک کے باہمی تناؤ میں پاکستان کو نقصان پہنچائیں۔ مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب کی مطلوب حمایت کے لیے ان سے بیٹھ کر بات کی جاسکتی ہے۔ اپنے موقف کا ہمنوا بنانے کے لیے سفارتی کوششو ں سے آپ کو کس نے روکا ہے؟ وزرات خارجہ کا کام ناراض دوستوں کو قریب لانا ہوتا ہے نہ کہ دھمکیاں دے کر انہیں ناراض کرنا۔پاکستان اور سعودی عرب ایک تھے، ہیں اور رہیں گے، دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں دراڑیں ڈالنے والے عناصر کو ہمیشہ کی طرح منہ کی کھانا پڑے گی۔