تحریر : اشفاق راجہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے سربراہ اجلاس میں فلسطین اور کشمیر کے عوام کی اصولی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے زور دیا گیا ہے کہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت ملنا چاہئے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے اور کشمیر کا مسئلہ عوام کی خواہش کے مطابق حل کیا جائے۔
او آئی سی کی طرف سے انسداد دہشتگردی کے سلسلے میں سعودی عرب اور رکن ممالک کی کوششوں کی تائید کی گئی اور دہشتگردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد کے لئے حمایت کا اظہار کرتے ہوئے تمام رکن ممالک کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر کشمیر پر او آئی سی کے رابطہ گروپ کا اجلاس بھی استنبول میں ہوا رابطہ گروپ نے بھی کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کیا رابطہ گروپ اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت سرتاج عزیز نے کی اعلامیہ میں او آئی سی کے رکن ممالک نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے بے رحمانہ استعمال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ تمام رکن ممالک کے لئے سب سے بڑی ترجیح ہے۔
اسلامی سربراہی کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت مزاحمت اور دہشتگردی میں فرق کرے۔ اجلاس میں فلسطینی عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے اور 1967سے فلسطینی اراضی پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لئے طریق کار وضع کرنے پر زور دیا گیا۔ فلسطین اور کشمیر کے مسائل کم و بیش ایک ہی زمانے میں پیدا ہوئے اور اب تک لاینحل چلے آ رہے ہیں۔ فلسطین کی مقدس سر زمین پر یہودیوں کا قبضہ ایک منصوبے کے تحت کیا گیا اور پھر اس خطے میں یہودیوں کے عالمی سرپرستوں نے اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کر دی جب سے یہ ریاست قائم ہوئی ہے توسیع پسندانہ عزائم پر عمل پیرا ہے اور اپنی سرحدیں مسلسل وسیع کرتی چلی آ رہی ہے، مختلف جنگوں میں ہمسایہ عرب ملکوں کے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا گیا تھا وہ اسرائیل کا حصہ بنا لئے گئے۔
Israeli Occupation Of Palestine
سوائے مصر کے، کوئی عرب ملک اپنے علاقے اسرائیل سے خالی کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا، مصر نے بھی اپنے ان علاقوں کو خالی کرانے کی قیمت ”اسرائیل نواز” پالیسی کی صورت میں ادا کی اور اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں فلسطین سے دور اور اسرائیل سے قریب تر ہو گیا، اس وقت جس محدود علاقے میں فلسطینی عوام مقیم ہیں وہاں بھی ایک منصوبے کے تحت یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں اور فلسطینیوں کو محدود سے محدود تر کیا جا رہا ہے ان پر یہودی ظلم و ستم کی داستان الگ ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں فلسطینی دوسرے عرب ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور جو فلسطینی اپنی سر زمین پر رہتے ہیں ان کی زندگی یہودی فوجیوں نے اجیرن کر رکھی ہے۔
اسرائیل نے اپنے عالمی مربیوں کی سرپرستی کے نتیجے میں ایک بڑی فوجی قوت کا روپ دھار لیا ہے۔اسرائیل کے پاس ایٹمی ہھیاربھی ہیں ، جن سے مغربی ملکوں نے مسلسل صرفِ نظرکررکھا ہے، خطے کے تمام عرب ممالک اس کی فوجی قوت سے خوفزدہ رہتے ہیں اسی خوف کی وجہ سے کوئی بڑا عرب ملک فلسطینی عوام کی حمایت میں سامنے نہیں آتا امریکہ سمیت بعض مغربی ملکوں نے فلسطین میں الگ فلسطینی ریاست قائم کرنے کا جو نظریہ پیش کیا وہ مان لیا جائے تو اگرچہ فلسطین کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم کرنے پر منتج ہو گا لیکن اسرائیل کو یہ تجویز بھی قبول نہیں۔وہ فلسطین کے جائز وارثوں کے لئے تو ایک ننھی سی ریاست قائم کرنے کے بھی خلاف ہے لیکن اپنی ناجائز ریاست کی توسیع پسندی پر ہر لمحے عمل پیرا ہے۔
پورے خطے میں و احد اسلامی ملک ایران ہے جو اسرائیل کی نگاہ میں ہر وقت کھٹکتا رہتا ہے سال ہا سال اسرائیل نے امریکہ کو اس بات پر اکسایا کہ ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کے لئے اس پر باقاعدہ فوجی حملہ کر دیا جائے، لیکن اسرائیل کی تمام تر بوالعجبیوں کے باوجود امریکی قیادت اس احمقانہ مشورے کے جال میں نہ پھنسی ورنہ امریکہ جو پہلے ہی عراق اور افغانستان میں الجھا ہوا تھا اورلیبیا میں بھی اس کے لئے مشکلات پید اہو گئی تھیں ایران میں بھی مشکلات سے دو چار ہوتا۔ امریکہ نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا ایرانی قیادت نے بھی دانشمندی کا ثبوت دیا۔
مکالمے کا میدان منتخب کیا اور طویل مذاکرات کے بعد ایران اورامریکہ کے درمیان نیوکلیئر معاہدہ طے پایا جس میں پانچ دوسرے مغربی ملک بھی شریک تھے۔ اس نیوکلیئر معاہدے پر اب عملدرآمد ہو رہا ہے اور ایران پر تجارتی پابندیاں ختم ہو رہی ہیں اسرائیل اس معاہدے کے نہ صرف خلاف تھا بلکہ امریکی صدر اوباما کی بڑھ چڑھ کر مخالفت بھی کر رہا تھا، یہاں تک کہ اسرائیل کی حمایت میں امریکی سینیٹروں نے معاہدے سے پہلے ایک خط بھی ایرانی صدر کو لکھ دیا جس میں کہا گیا کہ اوباما کے بعد جو صدر آئیگا وہ یہ معاہدہ منسوخ کر دے گا، لیکن صدر اوباما نے جر?ت مندی سے یہ معاہدہ کیا اور اسرائیلی مخالفت کی پروا نہیں کی، ان حالات میں او آئی سی کی قرار داد کے نتیجے میں اسرائیل پر تو کوئی خاص اثر نہیں ہو گا اور نہ وہ کوئی بات ماننے کے لئے تیار ہو گا۔البتہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی تجویز کو ہی عملی جامہ پہنا دیا جائے تو غنیمت ہو گا لیکن اسرائیلی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں مغربی ممالک بھی زیادہ سرگرمی سے اس تجویز پر غور نہیں کرتے۔
Kashmir Issue
کشمیر کا مسئلہ بھی فلسطین جتنا پرانا ہے جو بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیدا ہوا،بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے اور پوری دنیا کے مندوبین کے سامنے عالمی ادارے میں وعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائیگا اور اس مقصد کے لئے ریاست میں ریفرنڈم کرایا جائیگا لیکن جب کشمیر میں قبائلی مجاہدین نے اپنی سرگرمیاں ختم کر دیں اور نتیجے کے طور پر بھارت دباؤ سے نکل گیا تو وہ تدریجاً اپنے اس وعدے سے مکرتا چلا گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا مقبوضہ کشمیر کے عوام آج تک اپنے حق خود ارادیت سے محروم چلے آ رہے ہیں،اس مقصد کے لئے انہوں نے نہ صرف طویل جدوجہد کی ہے بلکہ قربانیوں کی ایک نئی تاریخ بھی رقم کی۔
پاکستان مسلسل بھارت پر زور دیتا رہا ہے کہ کشمیر سمیت تمام حل طلب امور پر مذاکرات کئے جائیں لیکن اب تک بھارت کے ساتھ مذاکرات کے جتنے بھی ادوار ہوئے ہیں وہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکے، مذاکرات جب بھی شروع ہوتے ہیں کسی نہ کسی واقعہ کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں، اب بھی طے شدہ مذاکرات ہونے والے تھے کہ پٹھان کوٹ ائیربیس میں تخریب کاری کا واقعہ ہو گیا جس کی وجہ سے مذاکرات غیر معینہ مدت تک ملتوی ہو گئے اور اب دوبارہ شروع ہونے کے لئے کوششیں جاری ہیں ، بھارت کا رویہ اس سلسلے میں وقت گزاری کا ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے، خطے کے اربوں عوام کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہو بلکہ دونوں ملکوں میں بھی تمام تنازعات ختم کر کے خطے کی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔
اوآئی سی کے مشترکہ اعلامیے میں ایران پر دہشتگردی کو سپورٹ کرنے کا جو الزام لگایا گیا ہے اس کی وجہ سے ایرانی صدر حسن روحانی اور ایرانی وزیر خارجہ نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا، اعلامیے میں ایران کا اس طرح ذکر حکمت عملی کے خلاف ہے اگر دوسرے ملکوں کو ایران کے طرز عمل سے کوئی شکایت تھی تو ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سے مل کر اسے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی اب عالمی برادری یہ تاثر قائم کر سکتی ہے کہ اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد نہیں ایران کو پہلے فوجی اتحاد سے باہر رکھا گیا اور اب اس پر براہ راست دہشتگردی کو سپورٹ کرنے کا الزام لگا کر اسے او آئی سی سے الگ تھلگ کر دیا گیا مستقبل میں اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور جن سفارتکاروں نے کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کا مسودہ تیار کیا ہے انہوں نے سفارتکاری کا کوئی اچھا مظاہرہ نہیں کیا، بہتر تھا کہ ایران کا ذکر اس انداز میں نہ کیا جاتا اور ایران کے ساتھ یہ معاملہ مل کر حل کر لیا جاتا۔