تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری اوگرا نے حکمرانوں کو حکم نامہ بھیج دیا ہے کہ تیل کی قیمتیں سابقہ مہینوں کی طرح بڑھائی جائیںیہ بات ثابت شدہ ہے کہ ایک روپیہ قیمت بڑھانے سے متعلقہ وزارت و بیورو کریسی و اوگرا کو 30ارب روپوں سے زائد کی بچت ہوتی ہے ہر ماہ وزارت اور اوگرا کرپشنوں کے حمام میں اکٹھے الف ننگے نہا تے ہیں کیا کوئی پوچھ سکتا ہے ؟ہر گز نہیں مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ؟کی طرح تیل و ڈیزل وغیرہ کی قیمتیں ذراسی بڑھانے سے ان کے گھروں میں گھی کے چرا غ جلنے لگتے ہیں اب بھی یکم کی صبح خونخوار اژدھا عوام کو ڈس رہا ہو گا۔
سرکاری مارکیٹ کمیٹیوں کے انتظامی بیورو کریٹس اور انتظامی و پولیس افسران حرام کی تنخواہیں لے رہے ہیں کہ ہر چوری ڈکیتی میں تھانے کا حصہ ہونے کی طرح یہاں بھی نوزائیدہ سود خور سرمایہ پرستوں سے باقاعدہ منتھلیاں لیتے ہیں وگرنہ قانون کی خلاف ورزی کسی کا باپ بھی نہیں کرسکتاجب سرکاری سطح پر روزانہ ہر سبزی فروٹ کی قیمتیں مقرر کرکے ان کا چارٹ ہر دوکاندار تک اور فروٹ و سبز منڈیوں میں پہنچا دیا جاتا ہے پھر ان کی خلاف ورزی کیسے ہو سکتی ہے؟گھر گھر میں سیاپا مچا ہوا ہے جان لیوا مہنگائی ان کا خون چوس رہی ہے ۔
اُدھر بجلی کی قیمتیںک م کرنے کی بجائے بڑھائی جاچکی ہیں اور اس پرٹیلی فون کے بلوں کی طرح نصف درجن مزید ٹیکس بھی عائد ہیں صرف واپڈائی ملازمین اربوں روپوں کی بجلی مفت استعمال کرتے ہیں کہ انہیں اس کی اوپر والوں نے کیسے اجازت دے رکھی ہے کیا وہ پاکستانی نہیں بلکہ مریخ سے اتری ہوئی کوئی علیحدہ مخلوق ہیں؟ پھر یہ خود نہیں بلکہ چاروں اطراف میں موجود بیسیوں گھروں کو تاریں سپلائی کرکے ان سے “مختصر سا ہدیہ “لیتے رہنے کا ماہانہ معاہدہ کرلیتے ہیں اب وہ خود ساختہ بجلی کے چور جتنے بھی ائیر کنڈیشنڈ یا ہیٹرز چلاتے رہیںانہیں کون پوچھ سکتا ہے؟کہ بجلی کی”سرکار” نے تو خود مہربانی کر رکھی ہوتی ہے اس طرح سفید ہاتھی واپڈا کے ملازمین دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں کسی کو زائد بل ڈال کر ،پھر اس کی درستگی پر “نذرانہ ” وصول کرتے اور کسی سے مفت بجلی سپلائی کرکے رقوم اینٹھتے ہیں اس محکمہ کے وزیر سیکریٹری دیگر بیورو کریٹ کیوں بولیں گے؟ کہ انہیں ہر متعلقہ ایس ڈی او باقاعدگی سے حصہ بقدر جثہ پہنچانے کا پابند ہوتا ہے بجلی اور گیس کی مہنگائی کی وجہ سے صنعتیں تباہ ہو چکی ہیں کہ انہیں اپنی پراڈکٹس بجلی گیس کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مہنگی کرنی پڑتی ہیںاور اس طرح برآمد اور بیرون ممالک میں ہماری مصنوعات کی مارکیٹ کم ہوتی جارہی ہے ایسی تمام اشیاء کی مہنگائی کا ملبہ غریب عوام کے سر پر ہی ہتھوڑے برساتا ہے پہلے بجلی کی کمی کا رونا تھا۔
اب حکمرانوں نے کچھ کمی پوری کی ہے تو اس کے لیے مہنگے پلانٹس لگے ہوں گے اب ان کا”چندہ ” غریبوں کو ہی دینا پڑے گا یعنی” آگے دریا پیچھے کھائی غریبو تمہاری شامت آئی”عوام چیختی چلاتی تھی کہ بجلی نہیں آتی مگر”ہن ہور چوپو “آگئی ہے مگر اس کی قیمتیں تمہاری کھال ادھیڑ کر لے جائیں گی ۔رہا معاملہ گھریلو گیس کا تو جن گھروں میں سفارشوں سے سرکاری طور پر اس کی تنصیب ہے وہ بھی دونوں ہاتھ سر پر رکھے دہاڑیں مار رہے ہیں کہ اس کا پریشر ہی خصوصاً رات و دیگر کام کے اوقات میں اتنا کم ہوتا ہے کہ روٹی چپاتی پکتے پکتے ہی سوکھ کر لکڑی ہوجاتی ہے پھر بزرگ بوڑھے تو اسے چبا ہی نہیں سکتے مزید برآں75فیصد سے زائد آبادی مائع گیس کے سلنڈر استعمال کرتی ہے جس کی ہیٹ ویسے ہی بہت کم ہوتی ہے سال 1999میں یہی سلنڈر200کا تھا مگر اب 1200سے زائد روپوں کا ملتا ہے اس میں کتنی گیس ہے یہ دوکانداروں کے دین ایمان پر ہے کہ کرپشنوں میں ڈوبا ہوا معاشرہ اوراس کے کاروباری حضرات کیونکر گیس سلنڈروں میں پوری بھر کر آپ کو سپلائی کرسکتے ہیں۔
جب “آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو ہر جگہ ہی کرپشنی ماسی مصیبتے “ہی کی حکمرانی کا ڈنڈا چلے گا۔سردیوں کے شروع سے ہی لنڈا بازار میں بھی مہنگائی کا طوفان بدتمیزی وارد ہو چکا ہے خدا خیر کرے! سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے بعد تقریباً سبھی اوپر کی سطح کے ذمہ داران ہمیں “یہودی سامراج” کی شہ پر کرپٹ ہی نصیب ہوئے ہیں ڈکٹیٹر ضیا ء الحق نے جب ممبران سمبلی کو بقول اس کے ” کلہ مضبوط” کرنے کے لیے کروڑوں روپے کی رقوم براہ راست ان کے ذاتی اکائونٹس میں ٹرانسفر کرنے کا رواج عام کیا تو سبھی ممبران کے وارے نیارے ہو گئے اس کی جعلی اور غیر آئینی بنائی گئی اسمبلیوں کے ممبران نو دولتیے سو د خور اور کرپشن میں نہائے ہوئے نام نہاد سیاستدانوں کا نیا ٹولہ قرار پاگئے با اصول و باضمیر سیاستدان گھروں میں دبک گئے اور “جی حضوریوں “کی مالا جپنے والے ہی مقتدر قرار پا سکے حکومتی چل چلائو کے وقت تمام لاکڑی ڈھیروں مال متال سمیٹنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ پھر حرام سرمایہ کے زور پر ووٹروںکو ورغلاء کر دوبارہ بدستور گردنوں پر سوار رہیں “جیدھے گھر دانے اودھے کملے وی سیانے”کے مصداق جس انتخابی امیدوار نے زائد مال ووٹروں کو لگا یا وہی جیتے گایا پھر خود کشیاں ،خود سوزیاں کرتے مفلوک الحال پسے ہوئے طبقات کے بھوک سے بلکتے بے یار و مدد گار عوام دیہاتوں غلیظ اور کیچڑ بھری بدبودار گلیوں کوچوں سے “اللہ اکبر اللہ اکبر “کی صدائیں بلند کرتے اور” لبیک یا رسول اللہ “کہتے ہوئے تحریک کی صورت میں نکلیں اور ان سب کا بذریعہ ووٹ دھڑن تختہ کر ڈالیںایسی اللہ اکبر تحریک کو کامیاب بنا کر اگر اسلامی جمہوری فلاحی مملکت نہ بنا ڈالا گیاتو”وگرنہ بابا یہ سب کہانیاں ہیں”بدبودار کرپٹ ظالم وڈیرے جاگیردار ،ڈھیروں حرام منافع کمانے والے صنعتکاروں کا ٹولہ ہی دوبارہ جیتے گا کہ سبھی موجودہ بڑی سیاسی جماعتوں میں گھس بیٹھئے بن کر قابض ہوچکے ہیں ان کا سیاسی نام تبدیل ہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جیسے سانپوں کی سینکڑوں قسمیں مگر سبھی زہریلے ۔امید پر دنیا قائم ہے اور دین میں مایوسی کفر ہے اس لیے سیاہ رات کوکھ سے صبح نو ضرور جنم لے گی۔