تیل مافیا کی گردن زدنی کب اور کیسے ہو گی

Petrol

Petrol

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
عرصہ دراز سے پٹرول اور ہمہ قسم دوسرے آئلز مٹی کا تیل، ہائی اوکٹین، لائٹ ڈیزل اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ میں انتہائی کم سطح پر گر چکیں مگر پاکستان کا تیل مافیا ہمیں مسلسل لوٹ رہا ہے۔

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا) جو کہ ہر حکمرانوں کی طرف سے ہی نامزد اداراہ ہے جو تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھائو پر نظر رکھتے ہوئے اور اس کے مطابق قیمتیں کم یا زیادہ کرنے کے لیے سمری وزیر اعظم کو ارسال کرتا ہے اس طرح ہر ماہ ایک دو روپوں اور چند پیسوں کی کمی بیشی کرکے پاکستان کے اندر قیمتوں کا تعین کردیا جاتا ہے جو کہ عموماً پٹرول کے لیے65روپے کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے۔

اب بین الاقوامی مارکیٹ میں تو ریٹ تمام خرچے ڈال کر28روپے لیٹر پڑتا ہے تو پھر یہ 37روپے درمیانی رقم کیسے اور کون لوٹ کھا رہا ہے۔یہی ملٹی ملین سوال ہر ماہ خلق خدا کا منہ چڑاتا رہتا ہے۔اتنی بڑی دھاندلی کہ تقریباً 25ارب روپے درمیان سے ہی اڑنچھو ہو جاتے ہیںشاہ فیصل نے جب عرب ممالک کے تیل کویہود و نصاریٰ سامراجیوں کے خلاف استعمال کرنا چاہا تو انھیں اس کا سبق سکھانے کے لیے قتل کرواڈالا گیا۔یہاں تک کہ آج تک9/11میں بھی امریکہ سعودیہ کو ہی ملوث قرار دیتا چلا آرہا ہے۔اور کسی صورت معاف کرنے کو بھی تیار نہیں۔

Oil

Oil

شاہ فیصل کی کوششوں اور سرمایہ سے ہی بھٹو دور میں عالم اسلام کے سربراہوں کی کانفرنس لاہور میں منعقد کی گئی۔تووہ بھی تختہ دار کے “حقدار ” ٹھہرے دراصل تیل مافیا کے خونی پنجے اس طرح اسلامی ممالک کے اندرمختلف اداروںپر گڑھے ہوئے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ ویسے بھی یہودی دنیا بھر کی دولت پر قابض ہیں اور عالمی معیشت پر ان کا ہی سکہ چلتا ہے۔عرب ممالک لاکھ تیل کے مالک ٹھہریںدیگر اشیاء کی طرح تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھائو بھی ان کی مرضی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا سامراجی ممالک میں بطور یہودی اور اسلامی ممالک میں مرزائیوں کے رو پ میںیہ ناسور گہری جڑیں پکڑے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ امریکہ سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں تک بھی انہی کی مرضی سے تبدیل ہوتی رہتی ہیںہمارے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں سے توقع رکھنا ہی عبث ہے۔

پٹرول 28روپے لیٹر صرف اسی وقت مل سکے گا جب تک غلیظ بدبودار تنگ و تاریک گلیوں غرباء کے محلوں کوچوں چکوں سے پسے ہوئے طبقات کے لوگ اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے تحریک کی صورت میں نہیں نکلتے۔اور پولنگ اسٹیشنو ںپر جاکر اپنا بھرپور کردار ادا کرکے ہمہ قسم جاگیرداروں ،وڈیروں ہمہ قسم نو دولتیے سود خوروں اور ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکاروں کو شکست فاش سے دو چارنہیں کرڈالتے کہ اسی میں ملک کی بھلائی کا راز مضمر ہے ویسے بھی جاگیراداروں سرمایہ پرستوں کے انتخابات میںحصہ لینے پر مکمل پابندی ہوئی۔

Inflation

Inflation

انتخابات میں سرمایہ خرچ کرنا جرم ٹھہرا دیا گیاتو امید قوی ہے کہ اللہ اکبر کے نعرے لگانے والے فراد ہی مقتدر ہوں گے اور ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔تمام مافیازدفن اور مہنگائی کا جن منہ چھپاتا پھرے گا ہر چیز کی قیمت اس کی اصل پر آجائے گی۔بجلی 1روپے یونٹ ہو گی اور اس کی مسلسل رو بہتی رہے گی کہ چینی22روپے کلو مل سکے گی اور پٹرول اٹھائیس روپے فی لیٹر ہو جائے گا کہ یہی ان کی اصل قیمت ہیںباقی بڑے پیٹوئو ں کی الیکشنی دھاندلیوں کی طرح قیمتوں میں انوکھی دھاندلیاں ہیں یہ راز کیوں نہیں کھلتا کہ ہر متعلقہ ادارہ کا منہ سرمایوں سے بھر دیا جاتا ہے اور اوپر ٹیپ لگ جاتی ہے دوسری طرف تیل کمپنیوں کے مالکان نے بھی نواز شہباز جیسے صنعتکاروںکی پاکستانی سیاست میں پذیرائی کو دیکھ کر فوراًاس میں بھرپور حصہ لینا شروع کردیا ہے اور دیگر سود خور نو دولتیے سرمایہ داروں اور ناجائز منافع کمانے والے صنعتکاروں کی طرح ہر سیاسی جماعت میں گھس جانااپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔

غرضیکہ سبھی بڑی یارٹیوں کے اہم عہدوں پر انگریزوں کے پالتو جاگیردار خود یا ن کی اولادیںاور سرمایہ پرستی کے علمبردار ہی قابض ہو چکے ہیں۔پی پی پی پہلے ہی ان کی باندی تھی اور ن لیگ نے اسی کی نقل ماری کہ یہ لوگ ڈھیروں چندے بھی دیں گے اور انتخابات میں بھاری رقوم خرچ کرکے یا پھر ووٹروں کو ہی خرید کر منتخب ہو سکتے ہیں عمرانی پتنگ لاہوری جلسہ کے بعد اونچی اڑنا شروع ہوئی تو سار ی ق لیگ اور بچے کچھے نو دولتیے سود خور اور وڈیرے ادھر آن گھسے اور اہم سیٹوں پر قبضہ کرلیا۔

عمران کے دائیں بائیں نظر آنے لگے تاکہ ٹکٹوں کی بندر بانٹ کے موقع پر بھاری رقوم اینٹھ کراپنی مرضی کے امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کرواسکیں اور پھر پارٹی میں گروپنگ کے ذریعے اہم وزارتوں کی سیٹوں پر قابض ہوجائیں اور اپنا ہی چمڑے کا سکہ رائج الوقت جاری کرکے پسے ہوئے طبقات کے عوام میں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ ڈالیں۔یہ غلیظ سیاسی گھن چکرمسلسل جاری و ساری رہتا ہے جبکہ55فیصد سے زائد لوگ ووٹ ڈالنے ہی نہیں آتے کہ چہروں پر غازہ ملے ہوئے یہ تو وہی مکروہ چہرے ہیں جو پہلے حکمران پارٹی میں تھے۔جو کسی اور کی گڈی اونچی چڑھی دیکھ کرادھر آن دھمکے ہیںکوئی اور قوت انتخابات میں مقابلے میںنہیں ہوتی اس لیے عوام بھی مجبور ہو کر انھی جغادری کرپٹ سیاستدانوں کا روپ دھارے افرادکوووٹ دیکر اپنی گردنوں پر بٹھانے کے لیے مجبور محض ہیں۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری