تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ہر ماہ تیل کی قیمتوں میں کئی روپوں کا اضافہ کر ڈالا جاتا ہے اب تو 12 گھنٹے قبل ہی پٹرول کی قیمت میں 3.56 روپے ڈیزل 6.94 روپے مٹی کا تیل 6.28 روپے اور لائٹ ڈیزل میں 1روپیہ اضافے کا اعلان کر کے کمپنیوں کو مزید آدھا دن عوام کی مزید جیب تراشی کا موقع فراہم کیا گیا اس نئے دھاندلی عمل کے لیے کروڑوں ڈالر مزید رشوت لازماً لی گئی ہو گی۔ چالیس روپے تو اس میں ہر لیٹر پر ٹیکس شامل ہے اوگرائی بیورو کریسی وزارت پٹرولیم اور خزانہ اور اس کے افسران ماہانہ کھربوں روپیہ عوام کی جیب سے فالتو نکلوا رہے ہیں بین الاقوامی قیمتیں کم مگر ادھر مہنگائی کے ذریعے عوام کا آخری قطرہ خون نچوڑ ڈالنے کی ہر ماہ کی آخری تاریخ کو تیاری کی جاتی ہے۔
چونکہ موجودہ حکمرانوں کا تین ماہ بعد چل چلائو کا وقت آن پہنچااس لیے وہ دونوں ہاتھوں سے ہی نہیں بلکہ پیروں سے بھی زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کے مشن پر رواں دواں ہیں کہ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست “کا خوفناک اژدھا سامنے پھن پھیلائے کھڑا نظر آرہا ہے کہ اگر ایک بھی سیٹ حکمران کم جیت سکے تو آئندہ حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے جو کہ” شریفوں” کو تو کسی صورت بھی وارا نہیں کھاتا کہ مخالفین جو کہ دشمنوں جیسا روپ دھارے ہوئے ہیں وہ گن گن کر بدلے چکائیں گے اور جینا تک دوبھر ہوجائے گااس لیے حکمرانی بنچوں میں افرا تفری کا مچ جاناقدرتی امر ہے تبھی ڈھیروں رقوم جمع کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہیں تو پی آئی اے کی فروختگی کے پلان ترتیب دیے جارہے ہیں اور کہیں خونخوار زہریلی سپنی بنی “اوگرا” نامی بغل بچہ تنظیم کے ذریعے تیل کی قیمتیں مسلسل نویں بار بڑھا کر بیرونی ممالک کے بنکوں اور مختلف ناموں کی لیکس میں سرمایوںکے انبار جمع ہورہے ہیں بین الاقوامی مارکیٹ میں تو تیل کی قیمتیں 57سینٹ کم ہوئی ہیں اور کئی ماہ سے قیمتیں قطعاً نہیں بڑھیں تو پھر پٹرول ،ڈیزل اور مٹی کا تیل ہر ماہ چھ روپے سے کم وبیش قیمتوں کی بڑھوتری کا خوامخواہ کا عذاب پاکستانی حکمران کیوں عوام پر نازل کر رہے ہیں؟اس سے ہر ماہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں و دیگر سبھی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے اس میں کیا حکومتی حکمت عملی نظر آتی ہے ؟ واضح ہے کہ 2018کے آمدہ انتخابات انہیں خوابوں میں جن کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں دھڑن تختہ ہوگیا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتی “سیاہ بھیانک راتیں “منتظر ہیں کہ اس دفعہ تو سعودیہ سمیت کسی نے سفارش تو کرنی ہی نہ ہے اور کسی قسم کے این آر او کا امکان نظر نہیں آتا ۔ نا کردہ گناہوں کی بھی سزا بھگتنے کے لیے حکمرانوں کو تیار رہنا چاہیے۔
” چور چوراں دے یار “(زرداری)والامقولہ بھی اب کی بار امداد کرتا نظر نہیں آتا حالانکہ زرداری اور شریفوں میں حرام مال کے انبار اکٹھے کرنے میں گنتیوں کی غلطیوں کے علاوہ انھیں سمیٹنے میں کوئی ذرا برابر بھی سُستی کوتاہی نظر نہیں آتی زرداری صاحب تو کروڑوں ڈالرز سمیٹ کر پاکستان کا دوسرا بڑا سرمایہ دار بن چکے اور اس کی جائدادوں /سرمایوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر نواز شریف ابھی دو نمبر پیچھے ہیں یعنی ملک کے سب سے بڑے سرمایہ داروں میں چوتھے نمبر پر ہیں موجودہ حکمرانی کے ناطے شریفوں کو یہ چھوٹ موجود ہے کہ سرکاری خزانہ ساراآج تک ان کے مکمل رحم و کرم پر ہے اور جتنا چاہیں سودی قرضہ بھی بیرونی گماشتہ تنظیموں ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف وغیرہ اوریہودیوں کے پروردہ بڑے سامراجی ممالک سے لے سکتے ہیں۔قرضے تو آئندہ حکمران اورنوجوان نسل کو اتارنا ہیں۔2018کے انتخابات خون ریز ہونے کے علاوہ روپے پیسے کا گھنائونا کھیل بھی ہونگے کہ بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ہر کسی نے انتخابات ہر صورت جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگانا ہے کہ کسی کی بھی شکست اسے اپنی سیاسی ساکھ کے خاتمے اور اپنی “موت کا سامان ” نظر آرہی ہے ن لیگیئے ہار گئے تو آئندہ پارٹی بکھر کر تتر بتر ہوجائے گی ۔پی پی پی تو ویسے ہی زرداری صاحب کی “خصوصی مہربانیوں “سے دم توڑتی بے جان لاشا بنی ہوئی ہے۔
رہے عمران خان تو اس کی بڑھکیں،ہر کس و ناکس کے خلاف “گالی گلوچ “نما گفتگو اگر اسے لے ڈوبی تو یہ بھی ایک بڑا سانحہ ہوگا کہ ان سبھی سود خور نو دولتیے سرمایہ داروں ظالم و ڈیرے و جاگیرداروں اور ڈھیروں ناجائز منافع خور صنعتکاروں نے پی پی پی سے نکل کر پی ٹی آئی میں شمولیت کا ایک بڑا ہی “خوفناک جوأ “کھیلا ہے کہ یا تو “پوں بارہ نہیں تو پھر تین کانے”کے مصداق انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی آخری ترپ چال چلی ہے کہ جیت گئے تو خوب بھلی اور اگر ہارگئے تو مات نہیں کہ پی پی پی میں تو ان کی سیاست ویسے ہی غرقاب ہورہی تھی اور وہاں سراسر ہار ہی ان کا لازم مقدر ٹھہری ہوئی تھی زرداری صاحب نے اگر دلیری کر ڈالی اور ساری جمع پونجی آمدہ بڑے انتخابات کے معرکے میں جھونک ڈالی تو کچھ آٹا دلیا پی پی پی کا بن سکتا ہے اور سندھ کے علاوہ بھی چند سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں مگر ایسا امکان بہت کم ہے کہ کوئی بھی اپنی ایسی “نیک کمائیوں “کواُجاڑ ڈالے؟ پھر نتیجہ دن کی روشنی میں صاف نظر آرہا ہے کہ پی پی پی کی تاریخی شکست کا عفریت منہ کھولے اسے ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھا ہے ویسے بھی ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازیوں اور محیر العقول لن ترانیوں نے سبھی بڑی سیاسی جماعتوں کو سیاسی گندے تالاب میں ڈبکیاں لگوا دی ہیں۔
عام ووٹر سخت پریشان ہوا یہ سارا ڈرامہ اور غلیظ ترین کھیل دیکھ رہا ہے انتخابات کے آخری دنوں میں وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے نظر آتے ہیںخصوصاً مہنگائی ،غربت و بیروزگاری جیسے زہریلے بچھوئوں کے ڈنگے ہوئے خود کشیاں ،خود سوزیاں کرتے پسے ہوئے طبقات کے لوگ اگر اللہ اکبر اللہ اکبر اور سیدی مرشدی یا نبیۖ یانبیۖ کا ورد کرتے ہوئے بدبو دار محلوں گلیوں کوچوں سے نکل پڑے تو چونکہ تمام مسالک ،فرقوں برادریوں کے مشترکہ”اکٹھ”جس کا نام اللہ اکبر تحریک ہونا ممکن قرار پایا ہے وہ پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کر پوری موجودہ انتخابی بساط لپیٹ کر باکردار باصلاحیت امیدواروں کی جیت کا سامان پیدا کرسکتے ہیں عوام میں اب مزید قربانیاں دینے کی ہمت نہیںکہ تیل دھماکے ہی ان کی جان نکالنے کے لیے کافی ہیں پہلے بھی رجسٹرڈ ادویات کی مہنگائی کا ڈرون حملہ حکمران کرچکے ظلم پر ظلم یہ کہ جان بچانے والی خصوصی ادویات کی قیمتیں بھی بڑھا دیںسپریم کورٹ نے نوٹس تو لے لیا ہے خداکرے ادویات کی مہنگائی سے بھی جا ن چھوٹ جائے اور صاف پینے کا پانی بھی نصیب ہوجائے ایل پی جی مہنگی ہونے سے گھریلو اخراجات میں کمر توڑ اضافہ ہونے پر خواتین ہمہ وقت ذمہ داروں پر تبرے بھیجتی رہتی ہیں شدید مہنگائی کر ڈالنے جیسے شیطانی کریہہ عمل سے کتنا حرام مال کہاں کہاںبیرونی ملکوںمیں دفن ہواوہ راز وقت پر ضرور کھل کر رہے گا کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔