اولڈ ایج ہوم مغربی معاشرے کی قباحت

Old Age Home

Old Age Home

تحریر : اسماء واجد
ایک بوڑھی عورت پھوٹ پھٹ کر رو رہی تھی اور ٹی وی اینکر دلاسہ دینے کے بعد اس شو میں موجود ایک عورت کی پذیرائی کر رہی تھی آپ ان بوڑھے افراد کا سہارا ہیں۔ جو ان کی سگی اولاد نے کرنے سے منہ موڑا وہ آپ کر رہی ہیں۔ اور حاضرین کی تالیوں میں اس ضعیف عورت کی سسکیاں کہیں دب گئی اور مہمان تفخر سے کہنے لگی میں ان کو اپنے ماں باپ سمجھتی ہوں اور آخری جملہ تھا ڈونیشن کے لئے ان نمبرز پر رابطہ کریں۔

یہ پہلی دفعہ نہیں تھی کہ کوئی ایسا مارننگ شو لگا ہو بلکہ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی چینل پر اولڈ ایج ہوم کے اشتہار آرہے ہوتے ہیں۔ان میں موجود سہولیات کا لمبا چوڑا تذکرہ اور آخر میں عطیہ دینے کی دعوت کے ساتھ ساتھ “گھر سے دور آپ کا گھر ” او ر “آپ کے والدین ہمارے والدین” جیسے الفاظ میرے لئے اس نظام کی خرابی کا منہ بولتا ہیں ۔ یہ نظام مغرب میں تو کئی دہایئوں سے چلا آرہا تھا۔

بلاشبہ پاکستان میں اس کا آغاز پچھلی دو دہایئوں سے ہوا ہے یہ نظا م آخر ہے کیا ؟ ۔۔۔۔ تو آپ کو بتاتی چلوں کہ اولڈ ایج ہوم میں امیر کبیر کے ساتھ ساتھ متوسط گھرانے کے بچے اپنے بوڑھے اور لاچار والدین کو سہولیات سے مزین رہائش گاہ میں چھوڑ آتے ہیں جن میں ان کا ماہانہ اخراجات کرتے ہیں اور بقول سیکولر نظام کے پیروکاروں کے فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اولڈ ایج ہوم موجودہ دور میں ایک بزنس ہے جس کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو بیچا اور خریدا جاتا ہے۔

Islam

Islam

اسلام میں بوڑھے والدین کو سہارا دینے اور ان کی خدمت کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی کی تعلیمات کا ذکر کیاگیاہے۔ ہر کامیاب انسان اپنی کامیابی کا سہرہ والدین کے سر باندھتاہے پر حقیقتا اولڈ ایج ہوم کی قباحت اس جذباتی اور اسلامی نقطہ نظر کو تا ر تار کر رہی ہے۔ ہم سب کو چا ہے کہ اپنے والدین کی عزت و احترام کریں اور اس مغربی قباحت کو اسلامی و پاکستانی معاشرے کا حصہ بننے سے روکیں۔

تحریر : اسماء واجد