تحریر : مبشر حسن شاہ لاہور میں14سالہ لڑکی سے اجتماعی زیادتی شہباز شریف نے نوٹس لے لیا ۔ ملزمان گرفتار، ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر کڑی سزا دی جائے گی۔ کچھ دن بعد لوگ بھول جائیں گے کہ کسی لڑکی سے جنسی زیادتی ہوئی تھی۔ ملزمان پکڑتے گئے تھے اور شہباز شریف و دیگر نے کیا بیان دیا تھا۔ پھر کوئی درندہ اپنی کچھار سے جنسی بھوک مٹانے نکلے گا۔ پھر متذکرہ بالا تمام عمل دوہرایا جائے گا۔ اس سارے عمل میں متاثرہ لڑکی کی زندگی گالی بن کر رہ جائے گی۔ زیادتی کے ملزم کو جیل میں رکھ کر اس کو پھانسی دے دینا ؟ قارئین آپ کیا سمجھتے ہیں انصاف ہو گیا ؟ پھانسی پانے والا تو 1سے 4منٹ کے اندر جان خلاصٰ کروا لیتا ہے۔ 14سال بھی کوئی عمر ہے ؟ اس لڑکی کا کیا قصور تھا ؟ وہ اپنی زندگی میں جس سولی پر لٹکا دی گئی ہے اس میں تو سالوں سانس بند نہیں ہوتے رک رک کر آتے ہیں ۔لمحہ لمحہ مارتے ہیں ۔ ایسی لڑکی کی تو آنے والی نسلیں بھی اس کے نا کردہ جرم کی سزا بھگتتی ہیں۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کو حکومت نے کوئی امداد دی ہو؟ کیا کہا؟ مالی امداد! گستاخی معاف لیکن پیسے تو طوائف کو بھی ملتے ہیں۔ کبھی کسی نے اس کی باقی ماندہ زندگی کو سوچا؟
حکومتوں نے کبھی ایسی لڑکیوں کا باقاعدہ علاج کرایا ان کو ماہرین ِ نفسیات سے سیشن ارینج کروائے؟یا ان کی شادیوں کا بندوبست کروایا؟ میڈیا بھی ان کی عزت اچھال کر غائب ہو جاتا ہے ۔ جب زیادتی کیس رپورٹ ہوتا ہے تو میڈیا والے کیمرے لے کر لڑکی کے گھر تک پہنچ جاتے ہیں اس بیچاری کی ہر ہر انیگل سے تصویر لی جاتی ہے ۔بعد میں کوئی نہیں پوچھتا کہ ملزمان کا کیا بنا اور لڑکی کس حال میں ہے ؟ کوئی اور ہاٹ نیوز آجاتی ہے اور سابقہ معاملہ پس منظر میں چلا جاتا ہے ۔ کیا کوئی بتائے گا کہ ”ثنا خوان تقدیس ِ مشرق کہاں ہے؟” پنجاب کے علاقے میں ایک زمیندار نے محنت کش کو تین ماہ قید رکھا اور اس کے بعد اُس غریب کے دونو ں بازو کہنیوں سے کاٹ ڈالے۔ پھر وہی کچھ ہوا جو ہوتا ہے اعلیٰ حکام نے نوٹس لے لیا ۔ پولیس آگئی ،گرفتاریاں ہوئیں ،انسانی حقوق کے تمام ٹھکیداروں کے بیان اخباروں کی زینت بنے۔
میڈیا نے کٹے ہوئے بازو کلوز اینگل سے دکھائے ۔ اب کیا ہو گا؟ کیا اس کے بازو دوبارہ لگ جائیں گے یا حکومت اس کو ساری زندگی کے لیے اپنی کفالت میں لے گی؟ کسی صاحب ِ حیثیت کا ارادہ ہے اس نوجوان کے خاندان کی کفالت کا؟ اس زمیندار کو کتنے سال سزا ہو گی ؟ جیل میں وہ یے کلاس لے گا یا بہت برے حالات ہوئے تو بی کلاس میں موج کرے گا ۔ چند سال کی قید ہے پھر سے باہر ہو گا ۔ پہلے اگر قانون کا خوف تھا اب وہ بھی دل سے نکل جائے گا۔ بہت سے اشتہاریوں اور عادی مجرموں سے یارانے بنیں گے اور رہائی کے بعد خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے مجرم چند۔
Nadra Office Attack
نادرا آفس پر حملے میں سکیورٹی گارڈ پرویز نے موٹر سائیکل سوار خود کش بمبار کو للکارا ، حملہ آور نے دستی بم پھینکا لیکن پرویز پیچھے نہ ہٹا اس نے پستول نکال کر نشانہ لیا تھا کہ اسی اثنا میں حملہ آور نے خود کش جیکٹ کی پن کھینچ لی خود بھی واصل جہنم ہوا اور پرویز بھی جان کی بازی ہار گیا ۔ اگر پرویز مزحمت نہ کرتا تو حملہ آور اندر داخل ہو جاتا اور نقصان سہہ گنا ہوتا۔ پرویز کے بھی بچے ہوں گے گھر ہو گا ، جان کس کو پیاری نہیں ہوتی لیکن ریٹائرڈ حوالدار پرویز خان نے ڈیوٹی کو سب پر فوقیت دے دی۔30لاکھ حکومت نے پرویز خان کے ورثا کو دیے ہیں ۔ 30لاکھ بڑی رقم ہے ، میں نے آج تک اتنی رقم اکٹھی نہیں دیکھی۔ لیکن سنا ہے زندگی کزارنے کے لیے قارون کا خزانہ بھی نا کافی ہوتا ہے۔ یہ رقم کب تک چلے گی ؟ اکٹھے 30لاکھ نہ دیتے اس خاندان کو حکومتی کفالت میں لے لیتے تو کیا ہی بات تھی۔ خیر حکم ِ حاکم ۔۔۔۔ ہم کون ہوتے اعتراض کرنے والے۔ طاہر اشرفی اور زاہد قاسمی نے کل دو ملائوں میں مرغی حرام کی عملی تفسیر پیش کی۔
قوم کے راہنمائوں نے اسلامی نظریاتی کونسل میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑا ۔ طاہر اشرفی اپنا پھٹا ہوا گریبان میڈیا کو دکھا رہے تھے ۔ ادھر زاہد قاسمی فر ماتے ہیں کہ طاہر اشرفی راستے میں کھڑے تھے میں نے ایک طرف ہونے کو کہا تو الجھ پڑے گویا آپ لوگ گلی محلے کے بچے ہیں جو ایسی باتوں پر باہم دست و گریبان ہوں گے؟ ایک کہہ رہا ہے کہ یہاں لشکر جھنگوی اور سپاہ ِ صحابہ کے لوگ ہیں جو ماحول خراب کر رہے ہیں ۔دوسرا کچھ اور کہہ رہا ہے ؟ یہ قوم کے راہ نما ہیں علما ہیں جن کو دیکھ کر قوم چلتی ہے۔
کچھ شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن آپ میں کہاں ہوتی ہے۔ میڈیا میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے Play upاور Play Downجس خبر کو چھپانا مقصود ہو یا اس کو نمایاں نہ کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس خبرکوPlay Downکریں ۔ ایسی خبروں کو Play Downکرنا چاہیئے لیکن اب تو ان کو جلی حروف اور نمایاں جگہ پر چھاپا جاتا ہے۔ خیر ابھی تو میڈیا نا بالغ ہے۔ بالغ ہو گا تو پتا نہیں کیا کرے گا۔ سنا ہے دور ِ بلوغت میں بڑی بڑی غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں۔
نئی خبریں پرانے تبصرے
Posted on January 1, 2016 By Mohammad Waseem کالم
Shortlink:
Shahbaz Sharif
تحریر : مبشر حسن شاہ
لاہور میں14سالہ لڑکی سے اجتماعی زیادتی شہباز شریف نے نوٹس لے لیا ۔ ملزمان گرفتار، ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر کڑی سزا دی جائے گی۔ کچھ دن بعد لوگ بھول جائیں گے کہ کسی لڑکی سے جنسی زیادتی ہوئی تھی۔ ملزمان پکڑتے گئے تھے اور شہباز شریف و دیگر نے کیا بیان دیا تھا۔ پھر کوئی درندہ اپنی کچھار سے جنسی بھوک مٹانے نکلے گا۔ پھر متذکرہ بالا تمام عمل دوہرایا جائے گا۔ اس سارے عمل میں متاثرہ لڑکی کی زندگی گالی بن کر رہ جائے گی۔ زیادتی کے ملزم کو جیل میں رکھ کر اس کو پھانسی دے دینا ؟ قارئین آپ کیا سمجھتے ہیں انصاف ہو گیا ؟ پھانسی پانے والا تو 1سے 4منٹ کے اندر جان خلاصٰ کروا لیتا ہے۔ 14سال بھی کوئی عمر ہے ؟ اس لڑکی کا کیا قصور تھا ؟ وہ اپنی زندگی میں جس سولی پر لٹکا دی گئی ہے اس میں تو سالوں سانس بند نہیں ہوتے رک رک کر آتے ہیں ۔لمحہ لمحہ مارتے ہیں ۔ ایسی لڑکی کی تو آنے والی نسلیں بھی اس کے نا کردہ جرم کی سزا بھگتتی ہیں۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کو حکومت نے کوئی امداد دی ہو؟ کیا کہا؟ مالی امداد! گستاخی معاف لیکن پیسے تو طوائف کو بھی ملتے ہیں۔ کبھی کسی نے اس کی باقی ماندہ زندگی کو سوچا؟
حکومتوں نے کبھی ایسی لڑکیوں کا باقاعدہ علاج کرایا ان کو ماہرین ِ نفسیات سے سیشن ارینج کروائے؟یا ان کی شادیوں کا بندوبست کروایا؟ میڈیا بھی ان کی عزت اچھال کر غائب ہو جاتا ہے ۔ جب زیادتی کیس رپورٹ ہوتا ہے تو میڈیا والے کیمرے لے کر لڑکی کے گھر تک پہنچ جاتے ہیں اس بیچاری کی ہر ہر انیگل سے تصویر لی جاتی ہے ۔بعد میں کوئی نہیں پوچھتا کہ ملزمان کا کیا بنا اور لڑکی کس حال میں ہے ؟ کوئی اور ہاٹ نیوز آجاتی ہے اور سابقہ معاملہ پس منظر میں چلا جاتا ہے ۔ کیا کوئی بتائے گا کہ ”ثنا خوان تقدیس ِ مشرق کہاں ہے؟” پنجاب کے علاقے میں ایک زمیندار نے محنت کش کو تین ماہ قید رکھا اور اس کے بعد اُس غریب کے دونو ں بازو کہنیوں سے کاٹ ڈالے۔ پھر وہی کچھ ہوا جو ہوتا ہے اعلیٰ حکام نے نوٹس لے لیا ۔ پولیس آگئی ،گرفتاریاں ہوئیں ،انسانی حقوق کے تمام ٹھکیداروں کے بیان اخباروں کی زینت بنے۔
میڈیا نے کٹے ہوئے بازو کلوز اینگل سے دکھائے ۔ اب کیا ہو گا؟ کیا اس کے بازو دوبارہ لگ جائیں گے یا حکومت اس کو ساری زندگی کے لیے اپنی کفالت میں لے گی؟ کسی صاحب ِ حیثیت کا ارادہ ہے اس نوجوان کے خاندان کی کفالت کا؟ اس زمیندار کو کتنے سال سزا ہو گی ؟ جیل میں وہ یے کلاس لے گا یا بہت برے حالات ہوئے تو بی کلاس میں موج کرے گا ۔ چند سال کی قید ہے پھر سے باہر ہو گا ۔ پہلے اگر قانون کا خوف تھا اب وہ بھی دل سے نکل جائے گا۔ بہت سے اشتہاریوں اور عادی مجرموں سے یارانے بنیں گے اور رہائی کے بعد خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے مجرم چند۔
Nadra Office Attack
نادرا آفس پر حملے میں سکیورٹی گارڈ پرویز نے موٹر سائیکل سوار خود کش بمبار کو للکارا ، حملہ آور نے دستی بم پھینکا لیکن پرویز پیچھے نہ ہٹا اس نے پستول نکال کر نشانہ لیا تھا کہ اسی اثنا میں حملہ آور نے خود کش جیکٹ کی پن کھینچ لی خود بھی واصل جہنم ہوا اور پرویز بھی جان کی بازی ہار گیا ۔ اگر پرویز مزحمت نہ کرتا تو حملہ آور اندر داخل ہو جاتا اور نقصان سہہ گنا ہوتا۔ پرویز کے بھی بچے ہوں گے گھر ہو گا ، جان کس کو پیاری نہیں ہوتی لیکن ریٹائرڈ حوالدار پرویز خان نے ڈیوٹی کو سب پر فوقیت دے دی۔30لاکھ حکومت نے پرویز خان کے ورثا کو دیے ہیں ۔ 30لاکھ بڑی رقم ہے ، میں نے آج تک اتنی رقم اکٹھی نہیں دیکھی۔ لیکن سنا ہے زندگی کزارنے کے لیے قارون کا خزانہ بھی نا کافی ہوتا ہے۔ یہ رقم کب تک چلے گی ؟ اکٹھے 30لاکھ نہ دیتے اس خاندان کو حکومتی کفالت میں لے لیتے تو کیا ہی بات تھی۔ خیر حکم ِ حاکم ۔۔۔۔ ہم کون ہوتے اعتراض کرنے والے۔ طاہر اشرفی اور زاہد قاسمی نے کل دو ملائوں میں مرغی حرام کی عملی تفسیر پیش کی۔
قوم کے راہنمائوں نے اسلامی نظریاتی کونسل میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑا ۔ طاہر اشرفی اپنا پھٹا ہوا گریبان میڈیا کو دکھا رہے تھے ۔ ادھر زاہد قاسمی فر ماتے ہیں کہ طاہر اشرفی راستے میں کھڑے تھے میں نے ایک طرف ہونے کو کہا تو الجھ پڑے گویا آپ لوگ گلی محلے کے بچے ہیں جو ایسی باتوں پر باہم دست و گریبان ہوں گے؟ ایک کہہ رہا ہے کہ یہاں لشکر جھنگوی اور سپاہ ِ صحابہ کے لوگ ہیں جو ماحول خراب کر رہے ہیں ۔دوسرا کچھ اور کہہ رہا ہے ؟ یہ قوم کے راہ نما ہیں علما ہیں جن کو دیکھ کر قوم چلتی ہے۔
کچھ شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن آپ میں کہاں ہوتی ہے۔ میڈیا میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے Play upاور Play Downجس خبر کو چھپانا مقصود ہو یا اس کو نمایاں نہ کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس خبرکوPlay Downکریں ۔ ایسی خبروں کو Play Downکرنا چاہیئے لیکن اب تو ان کو جلی حروف اور نمایاں جگہ پر چھاپا جاتا ہے۔ خیر ابھی تو میڈیا نا بالغ ہے۔ بالغ ہو گا تو پتا نہیں کیا کرے گا۔ سنا ہے دور ِ بلوغت میں بڑی بڑی غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں۔
Mubashir Hassan Shah
تحریر : مبشر حسن شاہ
by Mohammad Waseem
Mohammad Waseem - Editor at GeoURDU.com Pakistan