بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ ملک میں مختلف مقامات پر ہونے والے دہشت گردی اور گڑبڑ کے واقعات میں بھارت کا خفیہ ہاتھ ہے تاہم دونوں ہمسایوں کو بلیم گیم سے احتراز کرنا چاہئے، وہ ہمیں الزام دیتے ہیں اور ہم انہیں الزام دیتے ہیں، اب یہ بلیم گیم بند ہونی چاہئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ ختم ہونی چاہئے۔ ترقی کے لئے ہتھیاروں کی دوڑ ختم کرنا ضروری ہے، آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر اس حوالے سے پیشرفت ہونی چاہئے۔
اگر ہم ملکی خوشحالی چاہتے ہیں تو بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیشرفت ہونی چاہئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم کے دوران بھارت کو پاش پاش کرنے کے حوالے سے مخالفانہ نعرے نہیں لگائے، ماضی میں ایسے نعرے لگتے رہے ہیں، گذشتہ دس، بیس، تیس سال قبل ایسے نعرے لگتے رہے مگر اب نہیں، ہم اس پر یقین نہیں رکھتے۔ دراصل میں نے انتخابات سے قبل بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کی تھی۔ برطانوی اخبار ٹیلیگراف سے گفتگو میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کہتے ہیںکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہونا چاہئے۔
دونوں ملکوں کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل پرامن حل نکالنا چاہئے۔ بھارت کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، اگر ملک میں خوشحالی لانی ہے تو بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیشرفت کرنا ہو گی۔ بھارت کو پاش پاش کرنے کا نعرہ ترک کرنے کے ساتھ بھارت سے تنقید سے گریز کرنا ہو گا۔ طالبان اور بھارت کے ساتھ امن مذاکرات میں کوئی نقصان نہیں، اپنی کامیابی کو عام انتخابات میں بھارت کے ساتھ امن کے مینڈیٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دونوں ممالک کو دفاعی ساز و سامان پر پہلے ہی کافی اخراجات کر چکے ہیں، دونوں جنگی طیاروں، آبدوزوں اور دوسرے سامان پر بڑی رقم خرچ کرنے پر لگے رہے اب دونوں حکومتوں کو چاہئے کہ وہ یہ رقم عوام کی فلاح وبہبود کیلئے استعمال کریں، اگر اس کیلئے دفاعی بجٹ میں کٹوتی بھی کرنی پڑے تو کرینگے لیکن اس میں بھارت کو بھی قدم آگے بڑھانا ہو گا۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ دونوں ممالک کو ماضی کی غلطیوں کو بھول کر تعلقات میں بہتری لانے کیلئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہئے۔
اس کیلئے بھارت کو بھی کوشش کرنا ہو گی۔ خطے کے عوام جس کو اس وقت دہشت گردی، اقتصادی بحران اور دیگر سنگین مسائل کا سامنا ہے ان کی فلاح و بہبود کیلئے ہمیں عملی کوششیں کرنا ہونگی، دونوں ایٹمی صلاحیت کی حامل قوتوں کو اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھانا ہونگے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اور دفاعی بجٹ میں کٹوتی پر حکومت اور فوج کا ایک ہی نقطہ نظر ہے۔
Elections
وہ حالیہ عام انتخابات میں اپنی کامیابی کو بھارت کے ساتھ امن کے مینڈیٹ کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کی جو حقیقی احساسات ہیں اپنے پرانے حریف کے ساتھ وہ مفاہمت پر مبنی ہیں اس لئے وہ اپنے ان حقیقی احساسات کو پڑوسی ملک کے ساتھ امن عمل کے طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں پیش رفت ضروری ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ خوشحال ہوں تو اس کیلئے ہمیں عملی پیش رفت کرنا ہو گی۔ انتخابات سے قبل اور بعد میں بھارت کو پاش پاش کرنے کا کوئی نعرہ نہیں لگایا ہم ایسے نعروں پر یقین نہیں رکھتے یہ نعرے ماضی کا حصہ تھے جو دس بیس یا تیس سال قبل لگائے جاتے تھے۔
اب نہیں یہ حقیقت ہے کہ میں یہ واضح انداز میں کہہ رہا ہوں کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں جس کا وہ انتخاب سے پہلے بھی ارادہ کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں میری پوزیشن بھی واضح ہے ہم نے یہ کہا تھا کہ اگر ہمیں انتخابات میں مینڈیٹ ملا تو ہم امن کے عمل کو 1999ء سے دوبارہ شروع کرینگے جہاں سے یہ ٹوٹا تھا اور ان کے ساتھ مل بیٹھ کر کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرینگے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی حکومت کا ایک ڈکٹیٹر نے تختہ الٹ کر امن کے عمل کو ڈ ی ریل کیا۔
انہیں جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں پابند سلاسل کر دیا۔ وہ آمر کے اس غیر آئینی ا قدام کے باعث چھ ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور سات سال تک لندن اور سعودی عرب میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ عوامی توقعات پر پورا اتریں 1997ء میں انہیں عوام نے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ منتخب کیا یہی تاریخ مئی 2013ء کے انتخابات میں دوہرائی گئی۔ ہماری جماعت جب بھی اقتدار میں آئی اس نے شاندار اصلاحات متعارف کروائی اس میں اقتصادی اصلاحات اور انقلابی اصلاحات بھی شامل تھیں، 1990ء سے 1993ء کے دوران متعدد اداروں کی نجکاری کی گئی۔
ان اصلاحات کی ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے بھی کاپی کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں اس میں شدید دباو کا بھی سامنا کرنا پڑا، ہم نے ملک نے موٹروے کا جال بچھایا اور ترقی کے اس عمل کو موجودہ دور اقتدار میں بھی جاری رکھا جائے گا اور اس کا دائرہ کار کراچی تک بڑھائیں گے۔ اگر 1999ء میں ہمیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی تو آج پاکستان ایک منفرد ملک دکھائی دیتا۔ مبصرین کے خیال میں اگر وزیراعظم پاکستان ا پنے اس بیان پر قائم رہیں توپرانے حریف سے امن مذاکرات میں کو ئی حرج نہیں۔
پاکستان انتہا پسندوں کیخلاف جدوجہد کر رہا ہے جن میں طالبان اور دیگر انتہا پسند عناصر شامل ہیں ہم ان تمام عناصر کیخلاف برسر پیکار ہیں کیونکہ اس سے نہ صرف انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں بلکہ ملک کا امن بھی دائوپر لگا ہوا ہے۔ اس جنگ میں ہم نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں چالیس ہزار قیمتی جانیں گنوائی ہماری حکومت نئی قومی سکیورٹی سٹرٹیجی آئندہ چند ہفتوں میں متعارف کرا رہی ہے۔
اپنی توجہ کو طاقت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر منتقل کررہی ہے۔ اس میں کوئی شعبہ نہیں کہ ہم آپس میں لڑ رہے ہیں اس کا متبادل آپشن یہی ہے کہ ان عناصر جو اگر سنجیدہ ہوں تو ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات سے مسائل نہ صرف حل ہو سکتے ہیں بلکہ اس کے مثبت نتائج بھی مرتب ہوں گے۔