برطانیہ دنیا کا ایسا پہلا ملک بن سکتا ہے جہاں اس بات کی قانونی طور پر اجازت ہو گی کہ ایک ایسا بچہ پیدا کیا جا سکے جس میں ایک مرد اور ایک خاتون کی بجائے تین افراد کا ڈی این اے موجود ہو۔
اس کی اجازت دیے جانے کے حوالے سے ووٹنگ کا عمل آج منگل کے روز ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی پیشرفت ہے جس پر برطانوی قوم دو حصوں میں بٹی دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف مذہب کی جانب رغبت رکھنے والے افراد ہیں تو دوسری جانب سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے حمایتی۔
برطانوی پارلیمان کے ارکان ’مائٹو کونڈریل ڈی این اے ڈونیشن‘ تکنیک کو اِن وِٹرو فرٹیلائزیشن (IVF) میں استعمال کرنے کی اجازت دینے کے معاملے پر ووٹ دیں گے۔ ان وٹرو فرٹیلائزیشن کا مطلب ہے کہ ایک خاتون کے بیضے کو جسم سے باہر لیبارٹری میں بار آور کر کے اسے دوبارہ خاتون کی بچہ دانی میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسے ٹیسٹ ٹیوب کا طریقہ کار بھی کہا جاتا ہے۔
’مائٹو کونڈریل ڈی این اے ڈونیشن‘ دراصل کسی ایسی تیسری خاتون کی جانب سے ڈی این اے کے مخصوص حصے عطیہ کرنے کا عمل ہے جو کسی بچے کے والدین کے علاوہ ہو۔ اس عمل کا مقصد پیدا ہونے والے بچے کو ماں کی طرف سے منتقل ہونے والی موروثی بیماریوں کے خطرات سے بچانا ہوتا ہے۔
یسٹ ٹیوب بے بی یا IVF کے حوالے سے برطانیہ میں موجود قوانین میں مجوزہ ترمیم میں اس بات کی اجازت دینے کی بات کی گئی ہے کہ ایک ماں اور باپ کے ڈی این اے کے علاوہ ایک اور خاتون کے صحت مند ڈی این اے کا بھی بہت تھوڑا حصہ یا mDNA شامل ہو سکے۔
برطانیہ کی چیف میڈیکل افسر سیلی ڈیویس Sally Davies نے برطانوی روزنامہ ’ٹیلی گراف‘ میں لکھا ہے، ’’آج کا دن ماڈرن میڈیسن کے لیے ایک تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے، جب پارلیمان اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ کیا برطانیہ کو وہ پہلا ملک بن جانا چاہیے جہاں آئی وی ایف طریقہ علاج کے لیے مائٹو کونڈریل ڈونیشن کی اجازت دی گئی ہو۔‘‘
قانون میں تبدیلی سے برطانیہ میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی عمر میں موجود ایسی قریب ڈھائی ہزار خواتین کو فائدہ پہنچ سکے گا جن سے ان کے بچوں میں موروثی بیماریاں منتقل ہونے کا امکان موجود ہے۔ تاہم اس تکنیک کی اجازت دیے جانے کے مخالفین کا خیال ہے کہ اس طرح مستقبل میں ’ڈیزائنر بے بیز‘ یا اپنی پسند کے بچے پیدا کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
مائٹو کونڈریل ڈی این اے دراصل ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے اور mDNA کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں میں نظر کی کمزوری سے لے کر ذیابیطس اور پٹھوں کو لاحق بعض بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ برطانوی طبی حکام کے مطابق ہر برس قریب 125 بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جن میں ماؤں سے اس طرح کی بیماریاں منتقل ہوتی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی پارلیمان میں آج اس موضوع پر 90 منٹ دورانیے کی بحث ہو گی جس کے بعد ارکان پارلیمان اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دے سکیں گے اور اس کے لیے اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی کے پابند نہیں ہوں گے۔
امید کی جا رہی ہے کہ پارلیمان میں اس ترمیم کی اجازت دے دی جائے گی جس کے بعد اسے رواں ماہ کے آخر میں حتمی توثیق کے لیے برطانوی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز میں بھیجا جائے گا۔