”ون ڈش ۔۔۔؟ صرف ایک خواب”

Pakistan

Pakistan

بہار رُت ہو اور مارچ کا ذکر نہ ہو کیسے ممکن ہے۔ ویسے بھی مارچ کا مہینہ بڑا خوش قسمت ہے۔ ایک تو مسلمانوں کا علحدہ وطن (پاکستان)کی منظوری اسی مہینے ہوئی۔یعنی قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔کئی سیاسی معرکے بھی اسی مارچ میں ہوئے۔خاص کر طلباء کے لئے امتحان کا مہنیہ ہے۔جن کا رزلٹ اچھا رہا ان کے لئے خوش بختی کی علامت ہے ورنہ فیل ہونے والے کے لئے بدبختی ہے۔مارچ خوش نصیب اس لئے بھی ہے کہ اس ماہ سے بہار کا آغاز ہوتا ہے۔ٹنڈمنڈ شجروں پر نئی کونپلیں پھوٹنی لگتی ہیں۔ زردی مائل چہروں پر سرخی چھانے لگتی ہے۔گلشن میں رنگ برنگے پھول کھلکھلانے لگتے ہیں۔ ندینالے، پارک، آفس ، گلیاں، محلے، گھر کے صحن پھولوں سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ ہرطرف بھینی بھینی سی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ کسانوں کو محنت کا پھل ملنے والا ہوتا ہے۔گندم کی فصل جوبن پر ہوتی ہے۔

پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پانچ موسم آتے ہیں۔ پانچواں موسم کنواروں کے لئے نوید کا موسم۔خوشی کا موسم،پریموں کے ملنے کا موسم،نئی شروعات کا موسم،نئے سفر کاموسم،شہنائیوں کا موسم،ڈھول باجے کا موسم،ہاں کنواروں کو ہم سفر ملنے کا موسم ہوتا ہے۔بہارکے شروع ہوتے ہی رشتوں میں بندھنے کے موسم کا آغاز ہو جاتا ہے۔سال بھر میں اتنی شادیاں نہیں ہوتی جتنی شادیاں مارچ میں ہوتی ہیں۔جہاں جائو،جدھر دیکھو،گھر سجے نظر آتے ہیں،میرج کلب رنگا رنگ لباس میں ملبوس کوگوں سے بھرے ہوتے ہیں۔

نیا سفر شروع کرنے والوں کے لئے عید سے کم نہیں ہوتا یہ مارچ۔کئی دولہے سہرے سجاتے ہیں،کئی ناری دولہن بنتی ہیں،ارمان پورے ہونے کا موسم ،سپنے پورے اسی موسم میں ہوتے ہیں۔شہنائیاں بجتی ہیں ،پرندے بھی گیت گاتے ہیں۔۔۔لیکن ۔۔۔۔؟

پاکستان میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک جابر،دوسرے مظلوم،ایک جاگیردار،دوسرے مزدور،ایک حکم چلاتے ہیں دوسرے حکم بجالاتے ہیں۔ایک ظلم کرتے ہیں ،دوسرے ظلم سہتے ہیں۔ایک کی بیٹی سونے چاندی میں لدی ہوتی ہے تو دوسروں کی بیٹی کا سر تک ننگا ہوتا ہے۔ایک کی شادی میں مرغ،کباب،ہرن پکتے ہیں تو غریب کے بیٹے سوکھی کو ترستے ہیں۔امیروں کے بیٹوں کی شادی پر کھانے خراب ہوتے رہتے ہیں اور غریب کے بیٹے پر ”ون ڈش”کا فارمولا لاگو ہوتا ہے۔

امیروں کے قانون اپنے، لاگو کرنے کروانے والے اپنے”چور بھی خود، منصب بھی خود”والی بات ہے۔ کسی کے اسمبلی ھال تک بک ہوجاتے ہیں تو کسی کو سر چھپانے کے لئے جھونپڑی تک میسر نہیں ہونے دیتے۔ کسی کے کہنے پرسرکاری عمارتوں میں شامیانے سج جاتے ہیں تو کسی کو سرکاری عمارت دیکھنے پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ سیاستدان، جاگیردار، بازاروں، سڑکوں کو بند کرکے، شامیانے لگا دیتے ہیں۔غریب عوام کے بچے اسکول جانے کے راستے تک کو ترستے ہیں اور جاگیرداروں کے بیٹوں کے دعوت ولیمہ کے لئے روڈ بند کر لئے جاتے ہیں۔

One Dish

One Dish

یہ پاکستان ہے ، تضاد چلتا ہے۔ہمارے قول کچھ ، فعل کچھ ہوتے ہیں۔ مراعات اپنے لئے اور قانون دوسروں کے لئے۔ تعریف اپنے لئے اور اصلاح دوسروں کے لئے کرتے ہیں۔”جس کی لاٹھی اس کی بھنس”کا قانون لاگو ہے۔ جنگل کا قانون مسلط ہے۔ شادیوں پر ”ون ڈش”کے قانون کو ہی دیکھ لیں۔ون ڈش جو صرف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔اگر لاگو ہوتا بھی ہے تو غریب کی شادی پر اور امیروں کی شادیوں پر پیپسی ،برگر،شباب ،کباب چلتے ہیں۔امیروں کی شادیوں پر غریبوں کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ان کی عزتوں سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔کیسا ملک ہے جس میں تقدس پامال ہوتے ہیں۔غریب کی بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوئی جاتی ہیں اور امیروں کی اولادیں مال و زر سے لدی ہوئی ہیں۔دولت کی کمی ہے نہ عیش و آرام کی،مراعات بھی ان کے لئے،سرکاری نوکریاں بھی ان کے لئے ،سرکاری محل ،گاڑیاں بھی ان کے لئے۔

غریب کے لیے صرف اور صرف ذلت اور رسوائی ہے ۔حکومت نے ”ون ڈش”کا قانون بھی ان کے لئے متعارف کروایا تھا۔کیا ہی اچھا ہوتا ون ڈش کا قانون، سیاستدانوں، جاگیرداروں، امیروں پر لاگو ہوتا۔ مساوات کا قانون ہوتا۔بھائی چارے کو فروغ ملتا،مگر افسوس حکومت نے مغربی تہذیب کو فروغ دے دیا۔اپنی ثقافت،اپنے کلچر کو بھول گئے۔

صرف اسلامی معاشرہ کہلوایا جاتا ہے ،ہمارے کام تو مغربی ہیں۔اپنا پیٹ نظر آتا ہے اس کے لئے چاہے کتنے پیٹ چاک کرنے پڑیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔احساس مر گیا ہے۔محبت ،انس وپیار ناپید ہو کر رہ گیا ہے۔ بیچاری حکومت کرے بھی تو کیا کرے،کس کس مسلے کو دیکھے،کس کس مسلے کو حل کرئے۔جہاں جو بڑے بڑے اژدہے پڑے ہیں وہ حکومت کو اپنے رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔حکومت ان کی لونڈیاں کا کردار ادا کرتی نظرآتی ہے۔

پھر کہاں کی حکومت،کہاں کا قانون؟اس دھرتی پر آج تک کوئی قانون کامیاب ہوا ہے نہ ہی ہوگا۔ قانون توڑنے کے لئے تو بنائے جاتے ہیں۔پھر کیونکر یہ ملک ترقی کرے گا۔سچ تو یہ ہے ہم ترقی کرنا بھی نہیں چاہتے۔اسی لیئے تو سیانے کہتے ہیں جیسی عوام ویسے حکمران۔قرآن مجید بھی اس بات کا شاہد ہے کہ جیسی رعایا ہو گی ویسے ہی حکمران ان کے لئے لائے جاتے ہیں۔اللہ تعالی اس ملک کی عوام کی حالت بدل دے آمین!۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر:مجیداحمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com