تحریر : محمد جواد خان ون ویلنگ ہمارے معاشرے کاایسا المیہ بنتا جا رہا ہے جس کو روکنے کے سدباب تو کوئی نظر نہیں آتے ہاں البتہ دن بدن نوجوانوں کے رحجانات اس طرف ضرور بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی لا علاج بیماری بنتی جا رہی ہے کہ شاید کہ کل کو اس کا تدارک ہمارے لیے ایک اور امتحان نہ بن جائے کیونکہ یہ لت نشے کی لت سے بھی انتہائی خطرناک اس لیے ہے کہ نشے میں انسان اکیلا ہی اپنی جان سے جاتا ہے مگر ون ویلنگ میں ہم نے تین گھروں کے چراغ ایک دن بجھتے دیکھے ہیں۔
نشے کا عادی انسان جب مرتا ہے تو اس کے اجزائے جسمانی پھر بھی مکمل ہوتے ہیں مگر ون ویلنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں لاش کے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے جس کو بعد میں چن چن کر اکٹھا کیا جاتا ہے ۔۔۔نشے میں انسان کے گھر والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک دن مر جائے گا، مگر ون ویلنگ کرنے والا ۔۔۔!!! جب گھر سے سبزی لینے مارکیٹ جاتا ہے اور چند لمحوں بعد گھر میں اُٹھنے والے شور ، ماں کی تڑپ ، والد کی لاچاری اور بہنوں کی چینخ و پکار سنتے ہی آنے والی اطلا ع کو جھیلنا کس قدر اذیت ناک عمل ہوتا ہو گا۔۔۔کہ۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟؟؟ اصل میں ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام طور پر پایا جاتا ہے کہ بچہ جب سے بازار جانے کے قابل ہوتا ہے تو والدین اپنے بچے کے لاڈ ،پیار میں اندھے ہو کرپہلے گھر میں انٹرنیٹ (جس پر وہ نت نئے کرتب بازیا ں دیکھتا ہے )اور پھر موٹر سائیکل لے کر دینا۔
Dangerous Stunts
درحقیقت یہ غلطی والدین کی ہی ہوتی ہے کہ وہ گھر سے بچے کو سودا سلف کے لیے بھیج تو دیتے ہیں مگر ان کی اتنی خبر بھی نہیں رکھتے کہ ہمارے بیٹے کی بائیکل پر بیٹھ کر سپیڈ کیا ہوتی ہے اور وہ کیا کچھ کرتا رہتا ہے سارادن۔۔۔؟؟؟موٹر سائیکل جب ہمارے نوجوان کے پاس آجائے تو وہ مست ہاتھی بن جاتا ہے گویا کہ اس کی جوانی کو دو چار پر اور لگ گئے ہوں اورجب وہ موٹر سائیکل کو سپیڈ دیتا ہے تو ہواکی رفتار اور موٹر سائیکل کا شور اس کے اندر ونی شیطان کو بیدار کرتے ہیں اور وہ شیطان بار بار اکساتا ہے کہ سپیڈ اور بڑھائو ۔۔۔اور۔۔۔ مزید اور۔۔۔!!!اور اسی سپیڈ میںوہی شیطان اس کو ون ویلنگ پر اکساتا ہے۔ مگر افسوس کے وہ نوجوان بجائے کسی اور احسن کام میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتا یا پھر اس کا خون کسی دوسرے انسان کی جان بخشی کے لیے استعمال ہو سکتا ادھر اس نوجوان کا لاشا زمین پر بے یار و مددگا ر تڑپ رہا ہوتا ہے۔۔۔
ہم نے تو ایسے بھی دیکھے ہیں کہ جن کے اعضائے جسمانی ہاتھوں سے اُٹھا کرجمع کیے۔۔۔ کئی تو ایسے دیکھے ہیںکہ جن کے سر تن سے جدا ہو کر دور جا گر ے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر ہولناک و درد ناک موتیں دیکھ لینے کے بعد بھی ہم آنکھوں کے آگے ہاتھ رکھ کر اس گمان میں رہتے ہیں کہ بلی ہمیں نہیں دیکھ پا رہی ۔۔۔ جب کہ حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے جس کو ہم پسِ پشت ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔
کسی بھی ریاست کے اندر لا اور قانون اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے جب تک اس ریاست کی عوام ان قوانین کا احترام کرے ڈنٹے تو بھیڑ بکریوں پر برسائے جاتے ہیں اور ڈنٹے برسانے سے انسانیت اور جانوروں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا، ہم اور ہماری عوام سب سے زیادہ قانون شکنی شاہرائوں پر کرتے ہیں اور قانون شکنی کا ارتکاب کر گزرنے کے بعد بجائے شرمندگی کے احساس کے وہ اتراتے ہوئے سیکورٹی اہلکاروں کا مذاق بنارہے ہوتے ہیں اور ان کے اس لاپرواہ عمل کے رد عمل میں سیکورٹی عملہ کچھ کر گزرے تو جان اس بچارے کی نہیں بخشی جاتی ، سب گڑ کھا کر اس پر سوار ہو جاتے ہیں ۔۔۔ کوئی دو منٹ کے لیے یہ تک سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ پوچھ لیا جائے کہ پولیس اہلکار نے اس قانون شکن کے خلاف اقدام کیوں اُٹھایاا۔۔۔؟؟؟ بس سارے چڑھ دوڑیں گئے اس پولیس اہلکار پر جو بچارہ سارا دن دھوپ میں کھڑے ہو کر ٹریفک کی روانگی کو برقرار رکھنے میں ہماری ہی خدمت کر رہا ہوتا ہے۔
One Wheeling-Traffic Warden
ہمارے نوجوان جو بے موت خون کی ہولی کھیلتے ہوئے خود اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں حالانکہ یہ ہی نوجوان ہماری قوم و ملت کا قیمتی اثاثہ ہیں جو نادانی میں آ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیںمگر ساتھ ہی دوسری جانب وہ پولیس اہلکار / ٹریفک وارڈن بھی ہمارے اپنے ہیں اور وہ ہماری اصلاح کے لیے ہی ہم کو روک کر بار بار چلان اسی لیے کرتے ہیں کہ ہم اپنی اصلاح کریں ۔۔۔ ناکہ اس لیے کہ وہ آپ کی جیب سے پیسے نکالنے پر تلے ہوتے ہیں۔۔۔ اور ہماری مثال اس بھینس کی مانند ہے جس کے آگے بانسری تو بجائی جاتی ہو مگر وہ اپنے موج میں مست ہو۔۔۔
اگر ہم عوا م چاہیں تو ہم سٹرکوں پر ہونے والے اس موت کے کھیل کو با آسانی روک سکتے ہیں اور ایک مہذب معاشرے کے روپ میں ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں مگر ہم ہیں کہ ہمارا مقام و منزل صرف دوسروں پر تنقید کرنا ہے نہ کہ اصلاح ۔۔۔ہم سب کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ اس خونی کھیل کو ہمیں خود روکنا ہو گا۔۔۔ ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔۔۔اس معاملے میں خاص کر والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اولاد کی ہر جائز خواہش کو پورا کریں مگر ساتھ میں اس خواہش سے مرتب ہونے والے نتائج کو بھی بغور مشائدہ کرتے رہیں کہ کہیں کل کوانہیں بے یار و مددگا ر گلیوں میں اپنے جواں سالہ بیٹے کو تلاش نہ کرنا پڑے ۔۔۔ آئیے ہم مل کر اس برائی کو ختم کرنے کا عزم بھی کریں اور عمل بھی۔۔۔کیونکہ اولا دجس کی بھی ہو ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی جان بچائے اور اس کو برے عمل سے روک کر اپنے فرائض کو احسن طریقے سے نبھائے۔۔۔