لاہور (جیوڈیسک) سرکاری دعووں کے برعکس متعلقہ شعبے کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجلی کی صورتحال پچھلے ایک سال کے دوران بدترین ہو چکی ہے۔
اس لیے کہ بجلی کی پیدوار پچھلے سال کی سطح پر یعنی تقریباً چودہ ہزار پانچ سو میگاواٹ پر رکی ہوئی ہے، لیکن اس کی طلب میں تقریباً آٹھ سو میگاواٹ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ طلب و رسد کے درمیان پیدا ہونے والا یہ فرق لوڈ شیڈنگ میں اضافے کا سبب بنا ہے۔
پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کی جانب سے تیار کیے گئے طلب و رسد کے نظام کے ڈیٹا کے مطابق، پچھلے سال جولائی میں بجلی کی ملکی پیدوار کا اوسط چودہ ہزار چار سو چوبیس میگاواٹ تھا۔ اس کے برعکس بجلی کی طلب اٹھارہ ہزار آٹھ سو چوراسی میگاواٹ تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ طلب و رسد کا فرق چار ہزار چارسوساٹھ میگاواٹ تھا۔
طلب و رسد کی انتہائی صورتحال قدرے مختلف تھی۔ تیس جولائی کو شام چھ بجے سے رات گیارہ بجے کے دوران بجلی کی کل طلب بیس ہزار بارہ میگاواٹ تک پہنچ گئی تھی۔ جبکہ اس خاص دن بجلی کی پیداوار سولہ ہزار ایک سو ستّر میگاواٹ تک چلی گئی تھی۔
ورنہ تو اس پورے مہینے میں بجلی کی پیدوار پندرہ ہزار پانچ سو میگاواٹ سے نیچے رہی تھی۔ بجلی کا سب سے زیادہ قلت اس مہینے میں چھ جولائی کو ریکارڈ کی گئی، جب یہ چھ ہزار پانچ سو تریپن میگاواٹ تک بڑھ گئی تھی۔ اس دن بجلی کی مانگ انیس ہزار ایک سو اکہتر میگاواٹ کے برخلاف پیدوار بارہ ہزار چھ سو اکیاسی میگاواٹ تک کی انتہائی کم سطح تک چلی گئی تھی۔
اس سال کے دوران اب تک بجلی کی زیادہ سے زیادہ مانگ بیس ہزار آٹھ سو پندرہ میگاواٹ کی سطح کو چھورہی ہے اور پیدوار کی انتہائی سطح چودہ ہزار پانچ سو انتالیس میگاواٹ ہے۔ یوں بجلی کی کمی چھ ہزار دو سو چھہتر میگاواٹ کے اردگرد ہے۔
پیپکو کے ایک سابق مینیجنگ ڈائریکٹر کے مطابق کسی کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیٔے کہ حکومت نے ایک سال قبل جولائی میں پورے گردشی قرضے ادا کردیے تھے اور اس وقت سسٹم میں کوئی رکاوٹیں نہیں تھیں۔
اس وقت تمام سسٹم کے تمام کل پُرزے اپنی صلاحیت کے مطابق کام کررہے تھے۔ لیکن اب گردشی قرضے سر سے بلند ہوچکے ہیں۔ ایندھن کی فراہمی میں کمی کردی گئی ہے۔ اس شعبے کو بائیس ہزار ٹن فرنس آئل دیا جارہا ہے، جبکہ اس کی کل طلب چھتیس ہزار ٹن کے لگ بھگ ہے۔لہٰذا صورتحال کو خراب ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے۔