تحریر : ہاجرہ عمران خان دنیا بڑی عجیب جگہ ہے یہاں روتے ہوؤں کو کہا جاتا ہے روتے کیوں ہو اور ہنسنے والوں کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ بات زیادہ پُرانی نہیں ایک وقت تھا جب الیکٹرانک میڈیا کا بول بالا تھا، نیوز اینکرز کا نخوت اور کرو فَر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا …ایسے میں ایک عام آدمی حالات و واقعات کے بارے میں کیا سوچ اور را ئے رکھتا ہے، اس بات کی کوئی حیثیت نہیں تھی….عام آدمی پر اپنا نظریہ ٹھونسا جاتا…عام آدمی اگر کبھی اپنی را ئے دینے کے لیے کسی شو میں کال کرتا تو اس کی بات کو کاٹ دیا جاتا، کبھی کبھار ڈانٹ کر فون بند کر دیا جاتا۔
الیکٹرانک میڈیا کا دور دورہ تھا عام آدمی اتنی ہی بات کر سکتا جتنا کہ ایک ٹی وی اینکر برداشت کر لیتا مگر پھر ایک تاریخی انقلاب بَرپا ہوا اور اس ملک کے عام آدمی کے ہاتھ میں ایک عام سا کمپیوٹر آ گیا۔ وہ ہر عام اور خاص معاملے میں رائے دینے لگا، طاقت کے طاغوتوں کو سخت رنج و دُکھ پہنچا۔ اپنے میڈیا انفراسٹرکچر کے منج پر بیٹھ کر انہوں نے عام آدمی کی خوب ہرزہ سرائی کی۔ عام آدمی کے رائے دینے کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ طاقت کے جن ایوانوں پر وہ خود ایستادہ تھے وہاں پر وہ کسی اور کو اپنا مقام بناتے ہوئے دیکھ رہے تھے تو کیونکر برداشت کرتے……ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اینکر کی سیٹ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بہت پاپڑ بیلے تھے، وہی سارا اختیار جب اس ملک کے عام شہری کو ایک ٹوٹے پھوٹے پرانے سے کمپیوٹر کی مدد سے حاصل ہو گیا تو ایک اعلیٰ درجے کے ٹی وی اینکر کا جَل بُھن جانا تو بنتا ہے نا…مگر اس زمرے میں تمام ٹی وی چینلز اور اینکرز شامل نہیں تھے……کچھ ہی عرصے میں چشم تماشہ نے عجب منظر دیکھا کہ عام آدمی کی را ئے اتنی اہمیت اختیار کر گئی کہ اس کی را ئے پر اس ملک کے سیاست دانو ں کے عروج و زوال کا انحصار ہونے لگا۔
ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کا دارو مدار بھی اسی عام کمپیو ٹر استعمال کرنے والے عا م سے انسان پر ہونے لگا۔ا ۔ ادب اور ادبی حلقوں کا معیار بھی یہی عام انسان متعین کرنے لگا۔ ملکی اور غیر ملکی شخصیات کے قد بھی اسی عام آدمی کی را ئے پر ناپےجانے لگے، الغرض را ئے عامہ کی دنیا میں انقلاب بر پا ہو گیا۔ یہی عام انسان توجہ اور طاقت کا سر چشمہ بن کر رہ گیا ..طاقت کا توازن بدل گیا…ایک عام آدمی قوت کا سر چشمہ بن گموجودہ عہد میں اس کے بغیر را ئے عامہ کا تصور بھی ممکن نہیں…..اس کے ایک لائک ،ایک کمنٹ پر شہریوں کو عروج اور زوال ملنے لگا۔
زمانہ خود کو منوانے کئی بار ابھرا ہے….انقلاب زمانہ کئی بار برپا ہو ئے ہیں، ایسا ہی ایک انقلاب چند مہینے پہلے سوشل میڈیا پر دوبارہ برپا ہوا۔ جب آن لائن رسالوں، جریدوں شماروں، ڈائجسٹوں، میگزینوں اور ویب سائیٹس کا سیلاب سا آگیا۔ یہ انقلاب ہی تو تھا کہ اس ملک کی آبادی کا ایسا بڑا حصہ جو اتنی طاقت ذرا ئع اور وسا ئل نہیں رکھتا تھا کہ اپنا ٹیلنٹ سامنے لا سکے،خود کو منوانے کے لئے چینلز اور اخباروں کے دفاتر کےچکر لگا سکے ،یا پھر بھائیوں کی منت سما جت کر کے اپنی پوسٹیں ماہانہ شماروں میں بھیج سکے، اس ملک کی وه عام مگر بہت خاص آبادی جو گھروں اور گھرداری کے جھمیلوں میں کہیں گم ہو چکی تھی ، اس نے اچانک سے قلم تھام لیا، جن عورتوں اور لڑ کیوں نے کبھی گھر سے باہر نکل کر نہیں جھا نکا تھا، رسالوں، ڈا ئجسٹوں میں لکھنے کا خیال بھی نہیں کیا تھا ، ان بچیوں، عورتوں اور لڑکیوں نے ہاتھوں میں قلم تھام لیے۔ کسی نے ٹوٹکے سکھا ئے تو کسی نے کھانا پکانے کے آ داب و تراکیب ، کسی نے بچوں کو پرورش کے گُر سکھا ئے تو کسی نے کالم اور عام سی کہانیوں کو افسانوں کی شکل میں لکھنا شروع کر دیا…ایسے میں ان عام سے لکھاریوں اور شاعروں نے کسی اجر اور انعام…کامطالبہ نہیں کیا، صرف اور صرف اپنے ہنر کو آزمانا چاہا ، اپنے اندر کی تسکین چاہی مگر پھر ہوا کیا؟؟سوشل میڈیا نے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی۔
Writer
چند مخلص لوگوں نے ایسے بکھرے ہوئے لوگوں (مرد و زن) افسانہ نگاروں، شاعروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا، جہاں پر وہ اپنے ٹیلنٹ کا بہتر ین استعمال کر سکتے ہیں ، مگر واہ ری ہماری ہوشیار اور عقل کل کی مالک قوم (چند افراد ) ان سے یہ کیونکر برداشت ہوتا کہ نئے لوگ آئیں اور چھا جائیں، داد وصول کریں اور مشہور ہو جائیں ، ان کا واویلا شروع ہو گیا….نئے رائٹر ز کو کیا حق پہنچتا تھا کہ وہ ان پرا نے لوگوں کے مقابلے پر آ ئیں، داد وصول کریں اور ان منجھے ہوئے لوگوں کے بالمقابل آ کھڑے ہوں ، ان نئے لوگوں کو بجا ئے تھپکی اور حوصلہ افزائی کے ہرزہ سرا ئی کی جانے لگی….یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ ہماری سو سائٹی کے مہذ ب اور پڑ ھے لکھے گھرا نو ں کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں، اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے کیے، خواتین رائٹرز کے مقا بلے میں مرد رائٹرزحضرات ( اور چند خواتین رائٹرز) کا لہجہ نرم اور ہمد رد ی لیے ہوئے اور انداز سمجھا نے والا رہا مگر حیرت تو ان خواتین رائٹر ز پر ہے جو کہ افسانے بھی خواتین کی مظلومیت پر لکھتی ہیں ، رونا بھی ان کے مسائل کا روتی ہیں ، مگر جب عورتیں اپنے لیے کچھ کرنے لگتی ہیں تو ان کے خلاف صف آرا ہو جاتی ہیں۔
شاید ان کے افسانوں کے لیے ایک روتی بسورتی اور ظلم سہتی عورت ہی مناسب ہے ۔ اگر اس سوسا ئٹی کی عورت مضبوط ہو گئی تو آپ کس کی مظلومیت کے قصے لوگوں کو سُنا کر امپریس کرو گی کیوں کہ آپ نے تومظلومیت کا پروڈکٹ بیچ بیچ کر ہی اپنا نام بنایا ہے نہ؟ ہاں میں یہ سب کہہ رہی ہوں کیونکہ یہ سب مجھے آپ لوگوں نے کہنے پر مجبور کیا ہے …بہت سُن لیں آپ کی یکطرفہ باتیں ، آپ کی ہر بات کا جواب آپ کو لاجک سے ملے گا۔ آپ نے ایک سنی سنا ئی بات لوگوں تک پہنچا کر کس بات کو پروموٹ کیا ہے ؟جھوٹی افواہ پھیلانے والے کو اسلام میں کس نام سے پکارا جاتا ہے کچھ خبر ہے آپ کو؟ لڑ کیوں کو مدیرہ ، بیوروچیف بنایا جا رہا ہے ،آپ کو بہت پریشانی ہے ،کیونکہ آپ کو نہیں بنایا جا رہا، کیو نکہ آپ انکی صلاحیتوں سے نالاں ہو۔ آپ نے آن لائن ڈا ئجسٹ دیکھے ہیں ، آپ کو معلوم ہے یہ کل کی لڑکیاں بہترین کام کر رہی ہیں ، نئے لوگوں کے بارے میں ایسی ایسی گھٹیا باتیں کی گئیں کہ ادبی لوگوں کا ادب بھی شرما گیا، کس آن لائن ڈائجسٹ نے آپ سے تصویر اور فون نمبر مانگا ہے، اگر ایسی بات ہے تو آپ کوکھل کر سامنے لے آنی چاہیے، کیونکہ جو بھلا چاہتے ہیں وہ قصے چھپایا نہیں کرتے۔
بات یہ ہے کہ چند کج ادا لوگوں نے خود بخود ان عام لوگوں سے مخالفت پالناشر وع کر دی۔ تعریف کے چند جملے اور کمنٹس بردا شت سے باہر ہو گئے..سوال اٹھائے جانے لگے اور نام نہاد ہمدردی کی جھوٹی ملمع کاری بھی کی گئ، سوال یہ بھی اٹھا کہ ایک افسانہ لکھنے والا لکھا ری کہلائے گا یا دو افسانے لکھنے والا افسانہ نگار لکھاری کہلا نے کا حقدار ہے …آپ تو آن لائن رائٹر ز کو رائٹر مان لینے پر تیار نہیں تو پھر جھوٹی ہمدردی کا دکھاوہ کس لئے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں …آپ لوگوں میں اتنا شعور تو ہونا چاہیے کہ ایک ذمہ دار گھریلو عورت کسی کے ورغلانے میں نہیں آسکتی۔ اوراگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں تا کہ کسی کی بہتر ی کے کام آ سکے۔ نہ ہی ٹی وی کے میڈیا پرسنزاور نہ ہی الیکٹرانک چینلز ،سوشل میڈیا کی طاقت کو روک سکے ہیں اور نہ ہی آپ کی مخا صمت نئے لکھاریوں کو اپنا آپ منوا نے سے روک سکے گی۔ عجب رسم ہے اس دنیا کی ……نہ روتے ہوؤں کو چُپ کروا تی ہے اور نہ ہی ہنسنے والوں کو برداشت کرتی ہے۔