سپریم کورٹ نے سوال کیا ہے کہ حاضر سروس کور کمانڈر بزنس ڈیل کیسے کرسکتا ہے۔ اس نکتے پر عدالت آئین کے تناظر میں فیصلہ سنائے گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ ای او بی آئی کے وکیل حافظ ایس اے رحمان نے اپنے دلائل کے دوران عدالت کو بتایا کہ اوقاف ٹرسٹ بورڈ نے لاہور میں اوقاف کے زیرنگرانی آٹھ سو سینتالیس کنال زمین ڈی ایچ اے کو دینے کی تجویز منظور کی، بشرط کہ ڈی ایچ اے جواب میں تینتیس فیصد تیار پلاٹ اور دس فیصد کمرشل پلاٹ ای او بی آئی کو دے۔
اس تجویز کی کور کمانڈر لاہور نے تعریف کی اور منظور کیا۔ اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک حاضر سروس کور کمانڈر کاروباری معاہدے کس قانون کے تحت کرسکتا ہے۔ ڈی ایچ اے کے وکیل نے بتایا کہ ڈی ایچ اے آرڈیننس کے تحت کور کمانڈر ہی ڈی ایچ اے کا چیر مین ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اس نکتے پر بھی دلائل دیں عدالت اس کا آئین کے تناظر میں فیصلہ کرے گی۔ای او بی آئی کے وکیل حافظ ایس اے رحمان نے بتایا کہ آٹھ سو سینتالیس کنال زمین کا معاہدہ ہوا تھا لیکن معاہدے کے برعکس ڈی ایچ اے نے بارہ سو چار کنال پر قبضہ کرلیا۔
جس میں لاہور کے مختلف دیہی علاقے شامل ہیں جس میں گوردوارے کی زمین بھی تھی۔ اٹارنی جرنل نے موقف اختیار کیا کہ آئین کے تحت پاکستان میں موجود تمام اقلیتوں کو مذہب، عبادگاہوں اور رہائشی عمارتوں کے ساتھ ساتھ بنیادی اور شہری آزادیاں اسی طرح حاصل ہیں جس طرح ایک مسلمان کو،،، اور اپنے گودوارے کی اراضی پر قبضے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت ان کا سپریم کورٹ میں یہ دعوی کرنا بھی ان کا حق ہے۔ عدالت اس ضمن میں جو بھی فیصلہ کرے گی۔ حکومت اس پر عمل کرے گی۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔