قائد اعظم محمدعلی جناح کا تعلق بلا کسی شک و شبہ کے جونا گڑھ کے ایک آغا خانی خاندان سے تعلق ضرور تھا۔ مگر عملی زندگی میںوہ ایک پکے اور سچے مسلمان تھے ۔وہ کسی بھی قسم کی مذہبی منافرت کے شدید مخالف تھے۔ اہنوں نے اپنی علی زندگی ایک سنی مسلمان کے عقیدے تحت بسر کی تھی۔کبھی کسی متعاصب گروہ یا شخص نیانہیں مذہبی طباقی گروہ بندی کی طرف لانا چاہا تو انہوں نے بلا تردُد صاف کہہ دیا کہ وہ صرف مسلمان ہیں ۔اس صورت حال میں وہ متعاصب گروہ یا شخصیات اپنا سا منہ لے رہ گئے۔ہم نے پاکستان کی ہر شے کو تو تعصبا ت میں لپیٹ دیا ہے ،اللہ کے لئے اب بانی پا کستان کو تو بخش دیں۔
1946 میں ایک شیعہ وفد نے قائد اعظم محمد علی جناح سے دہلی میں ملاقات کی اور ان اُن سے سوال کیا کہ ہم شیعہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آپ یقیناََ شیعہ ہیں تو میرے قائد نے بر جستہ جواب دیا”No I am only Muslim” (نہیں میں صرف مسلمان ہوں)قائد اعظم کی اسلام پرستی سے کو ن مطالعہِ پاکستان کا طالبعلم واقف نہیں ہے۔مگر بد قسمتی ہماری یہ ہے کہ لوگ قائد اعظم کو بھی مذہبی منا فرت کا حصہ بناتے ہوے نہیں چوکتے ہیں۔قائد اعظم ہر قسم کی مذہبی منافرت کے خلاف تھے ۔ وہ صرف اور صرف سچے مسلمان اور مسلمان قوم کے برصغیر میں سچے خادم تھے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ انسانی خون کے نا حق بہانے کے بھی شدید مخالف تھے۔مسلمانوں کو تو چھوڑ دیں وہ تو کسی غیر مسلم کا نا حق خون بہتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
1936میں مولانا اشرف علی تھانوی نے قائد اعظم کا ساتھ دینے کا ناصرف عہد کیا بلکہ اپنے تمام شاگردوں کو بھی قائد اعظم کا مکمل ساتھ دینے کی ہدایات جاری کیں اور ان ہدایات پر عمل بھی ہوا مگر کوئی تحریک پاکستان کا ادراک ہی نہ رکھتا ہو تو اسبارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟اور کس طرح اُس کا دھیان اس جانب مبذول کرایا جاسکتا ہے؟ ان کے علاوہ مولانا ظفر علی خان جو مسلم لیگ کے قیام میں بھی برابر کے شریک تھے۔ مولانا عبدل باری فرنگی محلی،مفتی عنایت اللہ دہلوی، مولانا عبدلحامد بدایونی، مولانا سعید احمد دہلوی،مولانا ثناء اللہ امرتسری ،مولانا آزاد سبحانی، مولانا محمد اکرم ،مو لانا محمد ابراہیم سیالکوٹی مولانا شبیر احمد عثمانی،مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا سید سلماندوی ، مولانامفتی محمد شفیع، مولانا جمیل احمد تھانوی، مولانا خیر محمد جا لندھری وغیرہ۔ یہ وہ علمائے کرام تھے ۔ جن کی صحبت میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک سچے مسلمان بن کر بر صغیر کی ملتِ اسلامیہ کے رہبر و رہنما بن کر سامنے آئے اور مسلمانانِ ہند کی آزادی کی کشتی کو پار لگا دیا۔محمد علی نجاح پکے اور سچے مسلمان اور سچے عاشقِ رسول بھی تھے جا کا اندازہ ڈاکٹر صفدر محمود کے درج ذیل کوٹیشن سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
نظریہ پاکستان کونسل اسلام آباد کے ماہنامہ” نظریہ پاکستان” میں گذشتہ دنوں 1944-45میں اپنے دہلی میں قیام کے ضمن میں یاداشتوں میںچوہدری فضل حق نے بتایا کہ ان دنوں وہ کبھی کبھی قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔وہیں ان کی ملاقات علامہ شبیر احمد عثمانی سے ہوئی اُن کا کہنا تھا کہ علامہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ جب چاہیں وقت لئے بغیر قائد اعظم سے مل سکتے تھے۔علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کی وفات کے بعد کہا کہ”قائد اعظم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ جب وہ لندن میں مقیم تھے تو ایک خواب میں انہیں رسول اکرم ۖکی زیارت ہوئی جس میںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”محمد علی واپس ہندوستان جائو اور وہاں مسلمانوں کی قیادت کرو”قائد اعظم نے یہ خواب سنا کر مولانا شبیر احمد عثمانی کو تاکید فرمائی کہ یہ خواب میری زندگی میں کسی پر آشکارہ مت کرنا ،اور میں ہندوستان آگیا۔یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کے نظام میں مغربی جمہوریت کی کئی بار نہیں بلکہ بار بار نفی فرمائی۔
maulana ashraf ali thanvi
قائد اعظم کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں ہمیں ہر بیان میں اسلام اور قرآنی نظام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جناح جب تک کانگرس کے رکن رہے سیکولر دکھائی دیتے ہیں اور ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی دکھائی دیتے تھے۔ مگر حالات کی ستم ظریفی اور ہندووں کے معادانہ رویئے نے انہیں سیکولر جناح سے اسلام پسند جناح بنا دیاجس میں ایک جانب مولانا اشرف علی تھانوی کے شاگردوں کا بہت بڑاہاتھ رہا ہے۔جب وہ ہندوستان واپس آتے ہیں توعلماء کی تربیت اور رسول کریم کی ہدایت پر مکمل اسلامی نظریات کے حامل بن جاتے ہیں وہ کسی مذہبی طبقاتی کشمکش کا حصہ نہیں بنے بلکے وہ پکے اور سچے مسلمان کے طور پر سامنے ؤآئے کسی بھی قسم کے تعصبات سے قائد اعظم کا کوئی لینادینا نہیں تھا۔
محمد علی جناح مسلم قوم کی شیرازہ بندی کا عزم کرتے ہیں تو پوری ملت اسلامیہ ان کے گرد دکھائی دیتی ہے۔اس کی بھی بڑی وجہ محمد علی جناح کا بلا تعصب کا مسلمان ہونا ہی تھا ۔ خدا کے لئے میرے قائد کو مذہبی انتہائوں کی طرف مت لیکر جائووہ صرف اور صرف ایک مسلمان تھے ۔قائد اعظمنہ شیعہ تھے نہ دیو بندی یا بریلوی تھے اور نہ ہی اہل حدیث یا کسی اور مذہبی طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔وہ صرف اور سرف ایک مسلمان تھے۔تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید [email protected]