واحد حل مذکرات۔۔۔

Imran Khan

Imran Khan

عمران خان صاحب نے ملک میں سول نا فرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے اور لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس اور یوٹیلٹی بلز ادا نہ کریں۔ اس سے پہلے ملک میں دو دفعہ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا جاچکا ہے اور ان دونوں تحریکوں میں ملک کا ہی نقصان ہوا ہے پہلی دفعہ 1971 میں شیخ مجیب الراحمان نے سول نا فرمانی کا اعلان کیا تو اس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اور دوسر ی بار 1973 میں ذولفقار بھٹو کی حکومت کے خلاف مختلف جماعتوں کی جانب سے سول نا فرمانی کی اعلان کیا گیا تو اس سے ذولفقار بھٹو صاحب کی منتخب حکومت ختم ہو گئی لیکن اس کے بعد ملک میں ایک سیاسی بحران نے جنم لے لیا جس سے ملکی سیاست کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔خان صاحب کی سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ یہ فیصلہ نوز شریف کے خلاف ہے یا کہ ریاست پاکستان کے خلاف؟خان صاحب نے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے ساتھ ہی وزیراعظم کو بھی 48گھنٹے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔

حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اس اعلان کے فوری بعد وہ اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دیتے اور (کے پی کے)حکومت کو ختم کرنے کا اعلان کرتے اور خود پورے ملک میں دورے کر کے لو گوں کو اپنے موقف پر قائل کرتے ،لیکن انہوں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم48 گھنٹوں میں مستعفی ہوں ورنہ وہ اپنے کارکنوںکو ریڈ زون میں داخل ہونے سے نہیں روک سکیں گے ۔انہوں نے ریڈزون میں داخل ہونے کا عندیہ ایک دن پہلے بھی دیا تھا لیکن بعد میں ان کو یہ فیصلہ موخر کرنا پڑا۔

ایک معروف میڈیا گروپ نے اپنے اہم ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ایک اعلی سطح سے عمران خان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنے کا اعلان کریں کیونکہ اگر انہوںنے ریڈزون میں داخلے کا اعلان کیا تو جلسے کے شرکاء کے خلاف سخت کریک ڈئون کیا جائے گا اور اس کی تما م ترذمہ داری عمران خان پر عائد ہوگی ۔اس صورت حال کے بعد خان صاحب کو ریڈ زون میں داخلے کا آپشن مو خر کرنا پڑا۔عمران خان نے جب لانگ مارچ کا اعلان کیا تو انہوں نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ وہ دس لاکھ لوگوں کو لے کر اسلام آباد جائیں گے لیکن اس کے بر عکس لانگ مارچ میں شرکاء کی تعداد مایوس کن رہی اور جب یہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچا تو اس وقت اسلام آباد میں تیز بارش ہو رہی تھی ۔خان صاحب نے بارش میں ہی لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کیا اور خود بنی گالہ روانہ ہو گئے اور دوسرے لیڈران بھی وہاں سے اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے اور بے چارے کار کن تیز بارش میں بے یارو مدد گار سڑکوں پر بارش سے بچنے کیلئے تگ و دو کرتے نظر آئے۔

Freedom March

Freedom March

خان صاحب کے اس اقدام نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ما یو سی میں مزید اضافہ کر دیا اور خان صاحب کے اس اقدام پر میڈیا نے بھی خان صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا ،اگلے دن خان صاحب نے نوز شریف صاحب کا استعفی لینے تک کارکنوں کے ساتھ بیٹھنے کا وعدہ کیا ،لیکن کنٹینر پر 2-3 گھنٹے سونے کے بعد ایک بار پھر بنی گالہ روانہ ہو گئے ۔اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی طرف سے اب تک دھرنہ دینے کی بجائے جلسے کیے جا رہے ہیں ۔کیونکہ خان صاحب آتے ہیں خطاب کرتے ہیں اور پھر اگلے دن آنے کا اعلان کر دیتے ہیں ۔ کارکنوں کی تعداد میں کمی بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔اس لانگ مارچ کے بعد یہ بات تو بڑی واضع ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی کوئی بڑی تحریک نہیں چلا سکتی ۔کیونکہ پی ٹی آئی کی 18 سالہ تاریخ میں یہ پہلی بڑی تحریک تھی جو بری طرح فلاپ ہو چکی ہے ۔دوسری طرف خیابان سہروردی پر ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی جماعت عوامی تحریک بھی دھرنہ دئیے بیٹھی ہے۔

پی ٹی آئی کے برعکس (پی اے ٹی) ایک منظم جماعت ہے اور حسب توقع وہ ایک منظم اور بھر پور طریقے سے دھرنہ د ئیے بیٹھی ہے۔قادری صاحب کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن پیر کی رات 12 بجے ختم ہو جاے گی اور اس کے بعد وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، جو متوقع طور پر پورے ملک کی اہم شاہرہوں پر دھرنے دینے کا اعلان ہو سکتا ہے۔دوسری طرف حکومت بھی حرکت میں آ چکی ہے اور دونوں جماعتوں سے مذکرات کیلئے دو کمٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ان میں احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق پی ٹی آئی سے مذکرات کریں گے جبکہ عبدالقادر بلوچ اور عرفان صدیقی ڈاکٹر طاہر القادری سے مذکرات کریں گے۔

دونوں جماعتوں کے مطالبے جو بھی ہوں حکومت اور دونوں احتجاجی جماعتوں کومذکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا اور اس ساری صورت حال کا حل افہام و تفہیم سے نکالنا پڑے گا اور اس کیلئے حکومت اور ان دونوں جماعتوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان پہچنے کا خدشہ ہے۔ اس بحران کا واحد حل با مقصد مذکرات ہی ہیں۔

MM Ali

MM Ali

تحریر : ایم ایم علی