تحریر: ارم فاطمہ زندگی اور خواب لازم وملزوم۔۔۔ نامکمل ایک دوسرے کے بغیر ۔اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کے چہروں کو پڑھنا اور کسی حد تک ان کے پیچھے چھپے دکھ درد کو محسوس کرنا ان کے لیے زندگی میں کچھ کرنے کا عزم بھی اک خواب تھا جسے پس پشت دال کر آگے بڑھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ زندگی میں ان خوابوں کی قدرو قیمت کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو خود ان خوابوں کے ٹوٹنے کے کرب سے گذرے ہوں۔
اس بات کا اندازہ مجھے تب اس 6 سالہ بچے کی آنکھوں میں جھانک کر ہوا جو اس روز سگنل بند ہونے پر میری گاڑی کے شیشوں سے اس پار اپنی حسرت بھری آنکھوں سے التجا کر رہا تھا!
” باجی ! پھول لے لو۔۔! ” اس کی یاسیت سے بھری آنکھوں میں ایسا کچھ تھا کہ روز پھول لینا میرا معمول بن گیا کیا مستقبل تھا ان کا ؟ چوراہوں پر سگنل بند ہونے پر گاڑیون کے پیچھے بھاگتے کبھی پھول ‘گجرے ‘غبارے بیچتے اور شاید اپنے بچپن کے سبھی خوابون کو روندتے یہ معصوم بچے بے حس معاشرے پر ایک سوالیہ نشان ہیں ؟ ہر بار یہ احساس دل میں جاگتا کہ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔
Flower Sellers Child
تبھی ایک دن گاڑی سائیڈ مین پارک کر کے اس کے ساتھ اس کی بوسیدہ کوٹھری مین چلی آئی کہ جہاں اس کی ماں اور تین بہنیں پھولوں کے ہار اور گجرے بنا رہیں تھین۔ ساتھ پرانے اخبار دھرے تھے جن سے وہ لفافے بنا رہیں تھین۔ ان کے مشقت زدہ چہرے زندگی کی سختیون کو نمایاں کر رہے تھے۔
دل میں ان کی مدد کا عزم لئے وہاں سے چلی آئی اور تہیہ کر لیا کہ انسان کا یہ غمزدہ چہرہ معاشرے کے ہر فرد کو دکھانا ہے۔ یاسر کی آنکھوں میں اک آس اور امید کی کرن تھی۔ میرا عزم تھا کہ ایسے ادارے میں جہاں مخیر حضرات نادار بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتے ہیں ان سے بات کر کے یاسر کی تعلیم کا بندودست کرون اور اس کی ماں بہنوں کا سلائی کڑھائی مے مرکز مین کام دلوا کر ان کے لیے باعزت روزگار کا انتظام کروں۔
Flower
ہر انسان کو اپنے حسے کا دیا ضرور جلانا چاہے۔ دیے سے دیا جلے تو ایک دن اندھیرے ضرور مٹ جائیں گے۔ یاسر کی مدد کا عزم لئے اس روز سگنل پر پہنچی۔ میری متلاشی نگاہین اسے ڈھونڈ رہیں تھیں۔ آج شاید وقت آگے نکل گیا تھا۔یاسر بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ تبھی پھووں کا ٹوکرہ اٹھائے وہ تیزی سے میری جانب لپکا۔ وقت کا وہ لمحہ بے رحم ثابت ہوا۔۔ سگنل کھل گیا۔ گاڑیاں آگے پیچھے تیزی سے نکلیں اور پھر اس کا پھولوں جیسا وجود میری آنکھوں کے سامنے بکھر گیا۔ اس کے وہ تمام کواب جو شاید اس نے کھلی آنکھوں سے دیکھے تھے نامکمل رہ گئے۔ اس کی بے نور اور زندگی سے محروم آنکھیں پوچھ رہیں تھیں۔! “” آخر میرا قصور کیا تھا ؟