کراچی (جیوڈیسک) زرمبادلہ کی طلب بڑھنے کی وجہ سے ہفتہ کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر پہلی بار 118 روپے سے بھی تجاوز کر گیا جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں جمعہ کو کاروبار ہفتے کے اختتام پر ڈالر کا ریٹ 115 روپے 72 پیسے رہا۔
گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 50پیسے کے اضافے سے 118روپے 20 پیسے ہوگئی جو اب تک کی بلند ترین سطح اور انٹربینک مارکیٹ کے مقابلے میں ڈھائی روپے زیادہ ہے جبکہ اسٹیٹ بینک محض 1 روپے کے اسپریڈ کی اجازت دیتا ہے۔
یاد رہے کہ مارچ میں دوسری بار ڈی ویلیوایشن کے بعد زرمبادلہ کی دونوں منڈیوں میں روپے کی قدر میں ٹھہراؤ آگیا تھا تاہم ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان ہونے کے بعد سے اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں اتارچڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے جس کی مختلف وجوہ بیان کی جا رہی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے غیرملکی کرنسی ظاہرکرنے پرکم ٹیکس ریٹ کی وجہ سے ڈالر کی اسمگلنگ اتارچڑھاؤ کی بڑی وجہ ہے، چونکہ ڈالر میں اثاثے ظاہر کرنے پر محض 2 فیصد ٹیکس عائد ہے اس لیے کالادھن کو سفید کرنے کے لیے اوپن مارکیٹ سے زرمبادلہ خرید کر باہر بھیجا جا رہا ہے جو مذکورہ اسکیم کے تحت ظاہر کرکے 2 فیصد ٹیکس ریٹ پر ملک میں لاکر قانونی بنایا جائے گا، اس طرح مقامی اثاثے ظاہر کرنے کی صورت میں نسبتاً 5 فیصد کے زیادہ ریٹ سے بچا جا سکے گا۔
دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لوگ روپے کی قدر میں مزید بے قدری کے اثرات سے اپنی دولت کو بچانے کے لیے سرمائے کو ڈالر کی شکل میں محفوظ بنانے کے لیے اوپن مارکیٹ سے زرمبادلہ کی خریداری کر رہے ہیں۔ بعض ذرائع مارکیٹ میں ڈالر کی طلب کے مقابلے میں کم رسد کو بھی روپے کی بے قدری کی وجہ بتاتے ہیں۔
یاد رہے کہ فی الوقت پاکستان کو اپنی بیرونی مالی ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے زرمبادلہ کی شدید قلت کا سامنا ہے، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھنے اور ترسیلات میں ناکافی اضافے نے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد یا 12ارب 3 کروڑ ڈالر تک پہنچ دیا ہے جبکہ سرکاری زرمبادلہ ذخائر 11ارب 50 کروڑ ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔
یہ ذخائر دسمبر کے اختتام پر 14ارب 10کروڑ69 لاکھ ڈالر تھے جو اب 11 ارب 37 کروڑ 96 لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں، اس طرح صرف ساڑھے3 ماہ کے اندر سرکاری ڈالر ریزرو میں 2 ارب 72کروڑ 73 لاکھ ڈالر کی کمی آئی ہے، یہ صورتحال ادائیگیوں کے لیے غیرملکی زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ کو واضح کرتی ہے۔
واضح رہے کہ دسمبر 2017 کے بعد سے روپے کی قدر میں 10 فیصد سے بھی زیادہ کمی ہو چکی ہے جبکہ 2013 سے نومبر 2017 تک یعنی 4سال کے طویل عرصے میں روپے کی قدر صرف 6.2 فیصد کمی آئی تھی، 2013 میں جب مسلم لیگ ن حکومت میں آئی تھی تو امریکی ڈالرکی قدر 98روپے 70 پیسے تھی، اس طرح موجودہ دور حکومت میں روپے کی قدر 17.24 فیصد گھٹ چکی ہے اور ڈالر 17 روپے مہنگا ہوا ہے