کوئی معاشرہ اور ملک کشت و خون کا متحمل نہیں ہو سکتا بالخصوص حساس مقامات پر خونریزی قطعی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ہردوسرے دن پاکستان میں سیاحت کو منفعت بخش بنانے کا مژدا سنایا جاتا ہے جبکہ ہمارے حساس ہوائی اڈے بھی بندوق اور بارود سے محفوظ نہیں ہیں،ان حالات میں کس طرح کوئی سیاح پاکستان کارخ کرے گا اور کس طرح سیاحت ہماری بیمار معیشت کیلئے آکسیجن کاکام دے گی۔پاکستان کو امن و امان کا گہوارہ بنائے بغیرسیاحت اورتجارت فروغ نہیں پاسکتی ۔تجارت اورسیاحت کی بات ہوگئی اب سیاست اور صحافت کی طرف آتے ہیں،کیا قومی سیاست میں سرگرم مریم صفدر اور بلاول زرداری کابیانیہ ریاست اورریاستی اداروں کیخلاف بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔کیاہماری صحافت ریاست کے قومی مفادات کومقدم رکھتی ہے ۔کیاہماری صحافت ریاست کے مفادات کی حفاظت یقینی بنانے کی پابند نہیں۔کیا قومی مفاد میں لاہورائیرپورٹ کاحالیہ خونی واقعہ چھپایا نہیں جاسکتاتھا،ہم کیوں آزادی اظہار کے نام پراپنے ملک کی آزادی دائوپرلگانے،ریاست کوبدنام اوراسے ناکام ڈکلیئرکرنے کے درپے ہیں۔کیا ہم اپنے اپنے گھروں کے اندر ہونیوالی ہر بات باہردوست یادشمن کے ساتھ شیئرکرتے ہیں۔ہم سب کئی باتیں اپنے دشمن اوردوست دونوں سے چھپاتے ہیں۔راقم کے نزدیک ہمارے میڈیا کیلئے ایک متفقہ ضابطہ اخلاق کی تیاری اوراس کی پاسداری ناگزیر ہے۔
پاکستان ہماراگھر اورظاہر ہے چاردیواری کے اندر کی ہربات باہربتانے والی نہیںہوتی ۔ لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ پردوہرے قتل کے دلخراش واقعہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی پیشہ ورانہ کمٹمنٹ، صلاحیت،اہلیت اورقابلیت زیربحث آئی ۔ہمارے فطری دشمن نے جشن منایاہوگا۔عمرہ سے واپس آنیوالے شہری کا لاہورائیرپورٹ پربہیمانہ قتل بظاہر نجی دشمنی کاشاخسانہ لگتا ہے تاہم ٹیکسی ڈرائیور ناحق ماراگیا۔دوہرے قتل میں شریک ملزمان کی کامیاب واردات کے فوری بعد گرفتاری نے اے ایس ایف کومزید خفت اورہزیمت سے بچالیا۔دوہرے قتل کے اگلے روزلاہور پولیس نے گرفتار ملزمان کوریمانڈ کیلئے انسداددہشت گردی عدالت میں پیش کرناتھا جہاں دس مسلح افراد مختلف پوزیشنز پر فیلڈنگ لگائے بیٹھے تھے تاہم شہرلاہور کے پروفیشنل،متحرک اورمستعد ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمدخان کے حکم پرماتحت اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کوگرفتار کر کے شہرلاہور کو ایک بڑے سانحہ سے بچالیا۔
خدانخواستہ اگر ڈی آئی جی آپریشن لاہور اشفاق احمدخان نے بروقت اوربھرپور ایکشن نہ لیا ہوتا توانسداددہشت گردی کی عدالت میں ملزمان کی پیشی کے دوران کئی بیگناہ انسا نوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتااوردنیا بھر میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی جگ ہنسائی ہوتی ۔ خوش شکل اورخوش اخلاق ڈی آئی جی آپریشن لاہور اشفاق احمد خان کے فرینڈلی اور مثبت رویوں سے لاہورپولیس کامورال دن بدن بلندسے بلندترہورہا ہے۔دوسرے آفیسرز بھی ڈی آئی جی آپریشن لاہور اشفاق احمدخان کی تقلید کرتے ہوئے اپنے ماتحت اہلکاروں کوعزت دیں اوران کے ساتھ شفقت کامظاہرہ کریں ،اس سے یقیناان کی خوداعتمادی بحال اور انفرادی کے ساتھ ساتھ لاہورپولیس کی مجموعی کارکردگی خاصی بہتر ہو گی ۔ ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمدخان اپنے ماتحت اہلکاروں کی معمولی غلطیوں پر انہیں گالیاں دینے اوربیجاسخت ایکشن کرنے کے حامی نہیں ،پچھلے دنوں انہوں نے اپنی شناخت ظاہرکئے بغیر لاہور میں ایک پولیس اسٹیشن کاسرپرائزوزٹ کیا جہاں اہلکاروں نے ان کے ساتھ”مخصوص” سلوک کامظاہرہ کیا جس پر انہوں نے گستاخ اہلکاروں کواپناتعارف کروایا مگر انہیں سزادینے کی بجائے متنبہ کرکے وہاں سے واپس چلے آئے۔ لاہور کے تازہ دم اورپرعزم ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمدخان کاتجربہ اورجذبہ لاہورپولیس کیلئے تازہ ہواکاجھونکا ہے۔یقینا لاہورپولیس اپنے انتھک اورزیرک ڈی آئی جی اشفاق احمدخان کی قیادت میں کامیابی وکامرانی کے جھنڈے گاڑے گی۔
اب اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں، لاہورائیرپورٹ کی حدود میں کھیلی جانیوالی خون کی ہولی نے کئی سلگتے سوالات کو جنم دیا ہے ۔تقریباًڈیڑھ برس قبل بھی ایک شخص ٹیپوٹرکاں والے کولاہورائیرپورٹ کی حدود میں قتل کردیا گیا تھالیکن اے ایس ایف کے کسی آفیسریااہلکار کوسزانہیں ملی تھی۔یقیناتحقیقات ہوئی ہوں گی مگر کسی آفیسریااہلکارکوانصاف اوراحتساب کے کٹہرے میںکھڑانہیں کیاگیا ۔لاہورکے انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی سکیورٹی اس قدرناقص ہونا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔ ہوائی اڈوں پر اے ایس ایف سمیت آئی بی اورسپیشل برانچ کے مستعد اہلکار چوکس ڈیوٹی کرتے ہیںلیکن اس کے باوجود قاتل اسلحہ ائیرپورٹ کی حدود میں لے جانے اوراسے استعمال کرنے میںکامیاب رہے۔جس وقت لاہور کے ہوائی اڈے پرگولیاں چلیں اس وقت اے ایس ایف اہلکاروںکی ہوائیاں کیوں اڑ گئی تھیں۔
ائیرپورٹ پرفائرنگ کی آوازسن کر وہاںآئے شہریوں میں ڈر کی لہر توسمجھ آتی ہیں مگراس وقت وہاںاے ایس ایف کی طرف سے کوئی قابل قدرایکشن نہیں دیکھا گیا،میں سمجھتاہوںاے ایس ایف اہلکاروں کی پیشہ ورانہ تربیت اورقابل قدرمہارت کیلئے پاک فوج یاایلیٹ پولیس کااساتذہ سے رجوع کیاجائے۔ہوائی اڈوں کی سکیورٹی کیلئے جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ اور جامعہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔لاہورسمیت ملک عزیز کے کسی ائیرپورٹ پر آئندہ کوئی سانحہ رونمانہ ہواس کیلئے جدیدٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے ۔ چیکنگ کے نام پرمسافروں اوران کے پیاروں کوپریشان کرنے کی بجائے ہوائی اڈوں کے داخلی راستوں پرمزیدمگرجدیدسکینرز نصب کرنے کی اشدضرورت ہے ۔حالیہ دوہرے قتل کے بعداے ایس ایف نے چیکنگ کے نام جوطریقہ اپنایا ہے وہ مناسب نہیں، اے ایس ایف حکام نے اپنے اہلکاروں کے ہاتھوں میں جو”کھوجی ” تھمائے ہیںوہ بھی کام نہیں کررہے ۔راقم کی ناقص رائے میں مختلف ائیرلائنز اورکارگو کمپنیوں کے بکنگ دفاتر کو ہوائی اڈوں کی حدودسے باہر منتقل کردیاجائے،ائیرپورٹ کے اندرمختلف شاپس کاسامان بھی ان کاسٹاف باہرسے وصول کرکے خوداندر منتقل کرے۔ ٹکٹ بک اور ایشوکرنیوالی ایجنسی مسافروں کے بارے میں معلومات اجنبی بلکہ کسی سے بھی شیئرنہ کریںاورنہ ہرکسی کو آن لائن ٹکٹ پرنٹ کرنے کی سہولت دستیاب ہو ،اس کافائدہ یہ ہوگاکہ مسافروں کوالوداع اوران کااستقبال کرنے کیلئے صرف ان افرادکو ائیرپورٹ کی حدودمیں داخل ہونے دیاجائے جواپنے پیاروں کی ہوائی ٹکٹ کی کسی گزٹیڈ آفیسر سے تصدیق شدہ فوٹوکاپی دیکھائیں ،ان اقدامات سے غیرمتعلقہ اورغیرضروری افراد کوائیرپورٹ کی حدودمیں داخل ہونے سے روکاجاسکتا ہے ۔
اے ایس ایف کی ناکامی سے بلاشبہ پاکستان کی بدنامی ہو ئی،مقتول شہریوں کے خون کے چھینٹوں سے عالمی میڈیاکئی روزتک سرخیاں بناتارہا۔اس کے باوجود اے ایس ایف کے آفیسرزاوراہلکارہمارے اپنے ہیں ،ہماری دعا اوران سے استدعا ہے وہ اپنی غلطیاں دہرانابندکردیں۔ راقم نے دوہرے قتل کے سلسلہ لاہورائیرپورٹ کے فرض شناس منیجر چوہدری نذیرسے رابطہ کیا توانہوں نے بتایا” اے ایس ایف حکام بھرپورپیشہ ورانہ اورنہایت دانشمندانہ اندازسے حالیہ اندوہناک واقعہ کی تحقیقات کررہے ہیں،ہم مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچائوکیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے”،راقم نے عرض کیا اے ایس ایف کی نااہلی سے تودولوگ مارے گئے وہ اپنے ساتھی اہلکاروں کیخلاف شفاف تحقیقات کس طرح کرسکتے ہیں جس پراے پی ایم چوہدری نذیر نے مزید بتایا ” مجموعی طورپرانکوائری وزارت ہوابازی کے اعلیٰ حکام کریں گے ۔راقم کے دوسرے سوال پر ائیرپورٹ منیجرچوہدری نذیر نے بتایا کہ مسافروں کے سامان کی ریپنگ کا ٹھیکہ دینے کیلئے ٹینڈر مختلف اخبارات کی زینت بناہے ،ہم ہرمعاملے میںشفافیت یقینی بنا تے ہیں ۔چوہدری نذیر نے بتایالاہورائیرپورٹ پراندرون وبیرون ملک سے آنیوالے مسا فروں کی حفاظت یقینی بنانا اوردوران سفرانہیں جدید سہولیات فراہم کرنا ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
اب ہوائی اڈوں سے وابستہ ایک اورحساس معاملے پر بات کرتے ہیں۔برادراسلامی ملک سعودی عرب میں بسلسلہ عمرہ یاروزگار جانیوالے متعدد پاکستانیوں سے منشیات برآمد ہوتی ہیں اورہمارا محبوب وطن پاکستان بدنام ہوتا ہے۔گرفتارہونیوالے پاکستان کے شہری حجازمقدس میں سزائے موت کاسامنا کرتے ہیں۔ وہ لوگ منشیات سمیت پاکستان کے ہوائی اڈوں کی نام نہادسخت چیکنگ سے کس طرح گزرجاتے ہیں،اس سوال کاجواب کون دے گا ۔اس سلسلہ میںآج تک کسی ائیرپورٹ پرتعینات اہلکاروں کوگرفتار نہیں کیا گیا اورنہ کسی کوسزادی گئی۔ پاکستان سے جانیوالے جومسافرمنشیات اسمگلنگ کرتے ہوئے بیرون ملک گرفتارہوتے ہیں ان کے ہوائی سفرکی معلومات اورتفصیلات لے کر اس دوران متعلقہ ائیرپورٹ پرڈیوٹی انجام دینے والے اہلکاروں کو تفتیشی مرحلے سے گزاراجائے اورجوقصوروار ہوںوہ یقیناسخت سزائوں کے مستحق ہیں ۔کسی کے سامان سے منشیات برآمدہونااورکسی کامنشیات اسمگلنگ میں ملوث ہونادومختلف یعنی متضاد باتیں ہیں۔سامان سے منشیات کی برآمدگی کے سبب کسی بھی بیگناہ کی گردن اس کے تن اورکوئی انسان اپنے پیاروں سے ہمیشہ کیلئے جدانہ ہو، حکومت پاکستان اس بات کویقینی بنائے اوربرادراسلامی ملک سعودیہ کے حکام سے بات کرے ۔منشیات فروش مافیا کی طرف سے نادارومفلس پاکستانیوں کی سادگی اوربیچارگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے عزیزواقارب کے نام کاعمرہ کرنے کاجھانسہ دیاجاتا ہے اورکہاجاتاہے کہ وہ مزید عمرے اپنے اوراپنے پیاروں کے نام سے کرسکتے ہیں ۔ان بیچاروں کوہوائی جہاز کی ٹکٹ اورمعمولی رقم کے ساتھ کچھ سامان تھمادیاجاتا ہے ۔سادہ مزاج لوگ اپنے ”محسن”کادیاہواسامان خوشی خوشی اٹھائے ائیرپورٹ کارخ کرتے ہیں جہاں سامان کی چیکنگ کے مراحل طے کرتے ہوئے وہ سعودیہ کے ہوائی اڈوں پراترتے ہیں اوروہاں کچھ قسمت کے ماروں کے سامان سے منشیات برآمدہوجاتی ہیں اوروہ اپنی بیگناہی کاماتم کرتے کرتے جلاد کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ہمارے ہوائی اڈوں پر براجمان ہراس ”بھوت” کوتلاش اورسبکدوش کیاجائے جس کی” منشائ” سے ”منشیات” کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔