تحریر: محمد ارشد قریشی جب بے انتہا طاقت و اختیار حاصل ہو جائے تو اس کے ناجائز استمال کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے جس کی مثال گذشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ کے سینئیر کارکن اور ڈاکٹر فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی حراست کے دوران ہلاکت کی صورت میں سامنے آئی جنہیں ان کی موت سے 48 گھنٹے قبل ہی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا جس کے بعد وہ رینجرز کی تحویل میں تھے آفتاب احمد کی ہلاکت پر رینجرز ترجمان کے بیان کے مطابق انہیں سینے میں تکلیف محسوس ہونے پر اسپتال لایا گیا اس وقت تک وہ زندہ تھے اور اسپتال لانے کے 25 منٹ بعد ان کی موت واقع ہوئی جبکہ اسپتال ذرائع کے بیانات اس سے مختلف ہیں اسپتال ذرائع کا کہنا ہے جس وقت آفتاب احمد کو اسپتال لایا گیا ان کے دل کی دھڑکن ساکت تھیں اور فشار خون موجود نہیں تھا۔ ان مختلف بیانات نے نہ صرف آفتاب احمد کی موت کو مشکوک کردیا بلکہ کسی حد تک متحدہ قومی موومنٹ کے اس موقف کی تائید بھی کردی جس میں اکثر وہ الزام لگاتے ہیں کہ ہمارے کارکنان پر دوران حراست بدترین تشدد کیا جاتا ہے اور انہیں یہ خطرہ ہے کہ لاپتا کارکنوں کو دوران حراست ہلاک کردیا گیا ہو۔
آفتاب احمد کے اہل خانہ کے ایک بیان کے مطابق انہیں کئی دھمکی آمیز گمنام کالز موصول ہوتی رہی ہیں اور بات نا ماننے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں یہ بات کہاں تک درست ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اسپتال کی جانب سے پوسٹمارٹم رپورٹ اور سوشل میڈیا پر آفتاب احمد کی تشدد زدہ جسم کی تصاویر جاری ہونے کے بعد کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ ان پر دوران حراست بدترین تشدد کی گیا جس کا اعتراف ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے بھی کیا اور واقع میں ملوث رینجرز اہلکاروں کو معطل کرنے کے احکامات جاری کیئے تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ معطل کیئے جانے والے اہلکاروں کی تعداد کتنی ہے اور اس میں کوئی افسر بھی شامل ہے یا تمام سپاہی رینک کے اہلکار ہیں، جنرل راحیل شریف کا آفتاب احمد کی موت کی تحقیقات کا حکم ایک درست فیصلہ ہے یکھنا یہ ہے کہ رینجرز کے خلاف رینجرز کی تحقیقات سے متحدہ قومی موومنٹ کس حد تک مطمعن ہوتی ہے جب کہ ایک نجی ٹیلیویژن کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ جس ادارے کے خلاف الزام ہو وہ خود ہی الزام کی تحقیقات کرے سندھ کے وزیراعلی جو کہ اس آپریشن کے کپتان بھی ہیں اور براہ راست اس ہلاکت کی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے ابھی تک انھوں نے کسی کمیشن کا اعلان نہیں کیا ہے۔
Karachi operation
ستمبر 2013 میں شروع ہونے والے کراچی آپریشن میں کراچی کے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی رضامندی بھی شامل تھی لیکن ساتھ ہی اس کی جانب سے تحفظات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا ہے اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آپریشن سے کراچی شہر میں کافی حد تک امان و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے اور شہر کی سرگرمیاں واپس لوٹ آئی ہیں کراچی کے شہری عسکری اداروں کی جانب سے کیئے جانے والے اقدامات کی تعریف کرتے ہیں انہیں لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسی وارداتوں سے نجات دلانے پر اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتے ہیں شہری اس بات سے بھی مطمعن نظر آتے ہیں کاروباری سرگرمیاں دوبارہ سے عروج پر ہیں ان سب باتوں کے ساتھ اگر آفتاب احمد کی ہلاکت جیسے واقعات سامنے آتے ہیں تو پھر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے واقعات کی شفافانہ تحقیقات ہونی ضروری ہیں تاکہ آئیندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں اور اس بات کا پتا لگایا جاسکے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو اس آپریشن کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔
آفتاب احمد کی ہلاکت کے بعد مختلف تجزیہ نگاروں نے اپنے تجزیوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ آپریشن منصفانہ انداز میں جاری رہنا چاہیئے اور اس انداز سے کے انصاف ہوتا نظر آئے کسی بھی اقدام کو قانون سے بالاتر سمجھنا غلطی ہوگی پاکستان کے اہم نقشے ایرانی جاسوسی اداروں کے حوالے کرنے، سیکنڑوں لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ میں مارنے اور بھتہ لینے کے اعتراف کرنیوالے مجرم اور دوسرے ملزمان کے ساتھ تحقیقات میں فرق کرنا اس آپریشن کے مقاصد سے دور کردے گا۔ملک کی تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے آفتاب احمد کی ہلاکت کی مذمت کی ہے اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اب وفاقی حکومت کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ پیراملٹری فورسز کو دیئے گئے اختیارات کا استمال قانون کے دائرے میں کیا جارہا ہے یا اس سے تجاوز کیا جارہا ہے اور اس کے سدباب کے لیئے قانون سازی کی جائے تاکہ آئیندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں ۔