تحریر : قادر خان لشکر جھنگوی العالمی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان جو کہ اب جماعت الاحرار کے نام سے افغانستان سے آپریٹ ہو رہی ہے ، انھوں نے اپنے پلان میں تبدیلی کرتے ہوئے سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانا شروع کردیا خود کش بمبار ایک ایسا ہتھیار ہے جیسے کو روکنے کے لئے ابھی تک کوئی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہوسکی ہے اسے صرف عوام کے تعاون سے ہی کامیاب بنایا جا سکتا ہے ، جس کی مثال پشاور پولیس کی جانب سے جوڈیشنل کمپلکس میں تین خود کش حملہ آوروں کو نشانہ بناتے بناتے خود بھی جام شہادت نوش کرلیا ۔ لاہور دھماکوں کا مقصد SPL فائنل کا انعقاد روک کر عالمی سطح پر پاکستان کی مضبوط ہوتی معیشت پر کاری وار کرنا تھا ۔ اس کے بعد لشکر جھنگوی العالمی نے کوئٹہ میں دھماکے کی کوشش کی لیکن انھیں معلوم تھا کہ بم ناکارہ بنانے کی کوشش یہاں کئی مرتبہ کامیاب ہوچکی ہیں ، اس لئے نئی حکمت کے تحت بم ناکارہ بنانے والے جوان کو بھی ، بم ناکارہ بناتے وقت جام شہادت کا رتبہ مل گیا ، یکے بعد دیگرے سافٹ ٹارگٹس پلان کے ذریعے پورے پاکستان میں افرا تفری اور مسلکی خانہ جنگی کا منصوبہ بنا کر جہاں پشاور میں ججوں کو شہید کیا گیا تو سندھ کے عظیم صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملہ کرکے مسلکی خانہ جنگی کرانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن پاکستان کی عوام جانتی تھی کہ یہ سب بھارت ، امریکہ کی ایما پر اور افغانستان ان دونوں کی خواہش پر دہشت گردی کے واقعات میں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے ۔ اس لئے دشمنوں کا منصوبہ ناکام ہوا۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ پاکستان میں عدالتی اصلاحات کرلی جاتی تاکہ دہشت گردوںکو جلد از جلد سزائیں مل سکیں ، لیکن دو سال گزر جانے کے باوجود عدلیہ کو موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا کہ وہ عدالتی اصلاحات میں تبدیلی پیدا کرسکتی ، ملک کی ایک سیاسی جماعت کا مشن ہی یہی رہا کہ وہ ملک میں عوام کی توجہ اہم ایشوز سے ہٹائے رکھے ، اقتدار کی ہوس نے اس جماعت کی قیادت کو اندھا کردیا ، لیکن ناکامیوں نے ہمیشہ اس لیڈر کو مایوسی کا شکار کیا ، پارلیمنٹ کو جعلی قرار دینے والے کبھی پارلیمنٹ میں آجاتے تو کبھی سڑکوں پر دھرنے دے کر حکومت کو موقع فراہم کرتے رہے کہ وہ اپنے اقتدار میں ایسے قوانین نہ بنا سکے جو پاکستان قوم کی نسل کو محفوظ رکھ سکے ، آپس کی ریشہ دیوانیوںکا انجام یہ نکلا کہ فوجی عدالتوں کی آئینی مدت ختم ہوگئی اور حکومت سے توسیع کرانے کیلئے پس پردہ ہر سیاسی جماعت نے اپنے مطالبات پیش کردیئے۔
عسکری قیادت کے لئے سب سے بڑا چیلنج سی پیک منصوبے کو کامیاب بنانا بھی تھا اور اس کی ذمے داری پاک فوج کے سابق جنرل (ر) راحیل شریف اٹھا چکے تھے ، لیکن گیم چینجر منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے صوبوں کی قوم پرست جماعتوں کو مہرہ بنایا گیا ، جنھوں نے اپنے عسکری ونگ کالعدم تنظیموں کے ساتھ بنائے ہوئے تھے ، پاک فوج اپنے جوانوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے سکتی لیکن دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائیوں اور پانامہ سیاست نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک صفحے پر اکٹھا ہونے سے روکے رکھا اور عدلیہ نے تمام امور ایک سائیڈ پر رکھ کر ایک ایسے مقدمے کو اپنی عدالتی کاروائی کا حصہ بنا لیا ، جس کا کوئی ٹھوس ثبوت کوئی بھی سیاسی فریق سامنے نہیں لا سکا ، یہاں تک عدالت کے باہر ایک اور میڈیا عدالت لگا کر پوری پاکستانی قوم کو کنفوژ کرتے رہے یہاں تک اب عدلیہ کیلئے یہ مشکل ہے کہ وہ اگر وہ کسی بھی ایک فریق کے خلاف کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس کا ردعمل انتہائی شدید ہوگا ،اعلی عدلیہ نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کئی بار ریمارکس بھی دیئے کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے لیکن کسی فریق نے اور خاص طور پر پانامہ کو انتہائی متنازعہ بنانے میں برقی میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔
ان وجوہات کی بنا پر ضروری ہوگیا تھا کہ عسکری قیادت ، پاکستانی فوج کا مورال بلند رکھنے اور انمول قربانیوں کو سیاست دانوں کی یان بازی کی نظر کرنے کے بجائے اپنی توجہ انتہا پسندی کے منطقی خاتمے پر منتج رکھے ، اس لئے آپریشن رد الفساد کے نام سے پورے ملک میں ایک ساتھ آپریشن شروع کردیا کہ اب کسی سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اور اور بے گناہوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جایا گا ۔ اس اعلان کے بعد 24گھنٹے کے اندر100کے قریب مبینہ مقابلوں میں کالعدم جھگنوی العالمی، جماعت احرار سمیت کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کو مبینہ مقابلوں میں ہلاک کردیا گیا ، اس بات سے قطع نظر یہ کہ دہشت گردوں نے معصوم بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنایا ، ان کی مذمت کی جاتی ، سوشل میڈیا میں مبینہ مقابلوں میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کئے جانے لگا ۔ کسی نے کچھ کہا تو کسی نے تمسخر اڑایا کہ اس سے پہلے کیوں نہیں انھیں مارا گیا۔
ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت تھی کہ جس طرح بے گناہ پاکستانیوں کے گھروں میں صف ماتم مچی ہے اسی طرح انتہا پسندوں کی تربیت گاہوں میں بھی صف ماتم مچے ۔ اور اس کا اثر بھی ہوا ۔ ہمارا جوڈیشنل سسٹم اس قابل نہیں ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فوری سزائیں دے سکے ، جوڈیشنل سسٹم میں نقاب پہن کر فیصلے دینے کی استدعا کی گئی ، سینکڑوں انسانوں کے قاتل تمام تر ثبوت ہونے کے باوجود ابھی تک ٹرائل کورٹ میں ہیں اور جیل میں سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ لاکھوں کیسوں کو کچھ عرصے کیلئے الگ نظام بنا کر فوری فیصلے کئے جاتے اور ترجیحی بنیادوں پر دہشت گردوں کے فوری سماعت کیں جاتیِ ، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جوڈیشنل سسٹم میں اتنی زیادہ کرپشن ہے کہ عوام کو انصاف اس کے مرنے کے بعد ہی ملتا ہے ، پولیس کا سیاسی ہونا ایک دوسرا المیہ ہے ، جس میں تفتیشی افسر برسوں برس چالان ہی جمع نہیں کراتے اور شواہد کو اس طرح ضائع کردیتے ہیں کہ انتہا پسند اور دہشت گرد کچھ برسوں میں ہی با عزت یا عدم شواہد کی بنیاد پر رہا ہوجاتے ہیں، اور پھر کسی بھیانک دہشت گردی کے واقعے میں ہلاکت کے بعد علم ہوتا ہے کہ یہ دہشت گرد فلاں سال گرفتار تھا ، لیکن عدالتوں نے ضمانت دے دی ، جہاں تفتیش اور عدالتی نظام اس قدر ناقص ہو تو فوجی عدالتوں کی ضرورت ناگزیر ہوجاتی ہے کیونکہ انھیں نقاب پہن کرکیس سنتے ہوئے ڈر نہیں لگتا ۔ اور گواہان کو برسوں برس انتظار نہیں کرنا پڑتا اور جلد فیصلے ہنے کے ساتھ ہی پھانسی کا پھندا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔
فوجی عدالتوںنے معروف دہشت گردوں کو پایہ انجام تک پہنچایا ، تو دوسری جانب مبینہ مقابلوںمیں ان دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جو جوڈیشنل اور تفتیشی نظام کا فائدہ اٹھا تے تھے۔ماورائے عدالت قتل قرار دیں یا جو کچھ بھی کہیں لیکن ان کے لئے ہمدردری کے جذبات رکھنے والے انتہا پسندوں کت سہولت کار ہیں ، جو عوام کے ذہنوں میں اداروں کے خلاف نفرتیں اور غلط فہیماں پیدا کرتے ہیں ، سوشل میڈیا کے یہ نام نہاد دانشور یہ نہیں جانتے کہ جہان ایک دہماکے سے کئی خاندانوں کا کفیل شہید ہوتا ہے تووہ صرف ایک شخص کی موت نہیں بلکہ اس کے پورے خاندان کی موت ہوتی ہے۔ جبکہ انتہا پسند کے سہولت کار بیرون فنڈنگ کے ذریعے صرف اور صرف ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں ۔ کیا پاکستان میں کوئی ایسا سیاست دان اور ایسی کوئی سیاسی مذہبی جماعت ہے ، جو عوام کے مسائل کا حل نکال سکے ، یہاں چہرے ہی نہیں نظام بھی بدلنے کی ضرورت ہے ، لیکن فیڈول سسٹم ،سرمایہ کاری نظام اور مورثی سیاست نے اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کرلیں ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی کا تصور ناپید ہوتا جا رہا ہے ، لیکن ملک کو خطرات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔