تحریر: قادر خان افغان پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسند کالعدم تنظیموں کے خلاف تینوں مسلح افواج نے آپریشن رد الفساد کا آغاز کیا ہوا ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ پنجاب میں بھی کراچی طرز کا آپریشن کرنے کیلئے رینجرز کی مدد لی جائے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت پنجاب حکومت کی درخواست پر وفاق نے رینجرز کو پنجاب میں تعینات کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا ۔ کومبنگ آپریشن کے تحت ملک بھی میں پاک فوج اور پولیس کی معاونت کے ساتھ انتہا پسندوں کے خلاف کاروائی کو یقینی بنانے کا عزم رکھتی ہے، گو کہ کئی برسوں سے کومبنگ آپریشن جاری ہے جس میں اب شدت آنے کا امکان ہے ، انتہا پسندی کے خلاف سب سے پہلا آپریشن2008میں آپریشن شیر دل ، باجوڑ ایجنسی سے شروع کیا گیا ، جس کے بعد اس میں2009میں آپریشن راہ نجات2009میں جنوبی وزیر ستان کو شامل کرلیا گیا، سوات میں آپریشن راہ حق ون ، ٹو ، اور پھر تھری ، اس کے بعد ، پوری ملاکنڈ ڈویژن میں آپریشن راہ راست ، شمالی وزیر ستان میںآپریشن ضرب عضب ، خیبر ایجنسی اور قبائلی علاقوں میں آپریشن خیبر ون ، ٹو شروع کیا گیا اور اب آپریشن کا اصل اور منطقی مرحلے کو انجام تک پہنچانے کیلئے آپریشن “رد الفساد” شروع کردیا گیا ہے۔
پاکستان میں ایک ہفتے کے دوران پے در پے خودکش دہماکوں میں سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کیلئے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا گیا ، جس کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ، پہلے سے جاری آپریشن ضرب عضب جوکہ قبائلی علاقے شمالی وزیر ستان میں جون 2014 سے جاری آپریشن کو دسمبر2014میں APSکے سانحے کے بعد بڑھا کر آپریشن ضرب عضب کا اعلان کرکے ملک کے دیگر علاقوں میں پھیلانے کا اعلان کردیا گیا ۔ جنوبی وزیر ستان اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ہی خیبر ایجنسی میں خیبر ون ، اور ٹو بھی شروع کردیا گیا ، اور حکومت کی جانب سے یہ دعوی کئے جاتے رہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑی جا چکی ہے اور اب 85فیصد دہشت گردی کے واقعات میں کمی آچکی ہے، پاک فوج کی جانب سے یہ دعوی اس لئے درست ثابت ہوا کیونکہ ماضی کے مقابلے میں جی ایچ کیو ، پاکستان ائیرفورس ، کامرہ ، کراچی ائیر پورٹ ، نیوی پر حملوں کا سلسلہ رک گیا لیکن ملک گیر سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کے لئے افغانستان کی کابل انتظامیہ جو کہ افغانستان کے ایک بہت بڑے حصے سے امارات اسلامیہ کی کاروائیوں کی وجہ سے محروم ہوتی جا رہی تھی۔اور ان کے آقا بھی اس بات پر ناخوش تھے کہ امارات اسلامیہ کے خلاف دیئے جانے والی فنڈنگ کابل انتظامیہ میں رشوت کی نظر ہوجاتی ہے۔
افغان سیکورٹی فورسز کو بھارت کی جانب سے ٹرننگ ملنے کے بعد مزید مسائل نے جنم لیا اور کابل انتظامیہ نے افغانستان میں ہونے والی ہر کاروائی کو پاکستان حکومت کے کھاتے میں ڈالنا شروع کردیا اور وہی طریق کار اختیار کیا جو ، اشتعال انگیزی کیلئے بھارت مسلسل کئی برسوں سے پاکستان کی سرحدوں پر در اندازیاں کرکے استعمال کررہا ہے۔ بھارت کا بھی یہی وتیرہ ہے کہ اپنے ملک میں علیحدگی پسند عناصر کی جانب سے ہونے والی تمام کاروائیوں کو آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈال کر دنیا بھر میں واویلا تو کرتا ہے لیکن کوئی ثبوت مہیا نہیں کرتا اور پاکستان کی جانب سے تعاون کی ہر پیش کش کو مسترد کرکے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرجاتا ۔ بھارت نے یہی طریقہ کابل انتظامیہ کو بھی سیکھایا اور اس نے بھی افغانستان میںمختلف مزاحمت کاروں اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو بد نام کرنے کیلئے کی جانے والے اشتعال انگیز کاروائیوں کو پاکستان کو بد نام کرنے کے استعمال کرنا شروع کیا ۔ یہاں تک کہ سفارتی تعلقات میں مذاکرات میں بھی وہی رویہ اختیار کیا جو بھارت عموماََ استعمال کرتا ہے ، سرحدی علاقوں کی نگرانی کے بجائے افغانستان کی ہزار گز کی حدود میں پاکستان سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کو پناہ دینے کا سلسلہ شروع کردیا ، آئے روز لیوی فورسز پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد انتہا پسندوں کا افغانستان میں اپنی قیادت ریڈیو ملا ( ملا فضل اللہ ) کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ رپورش ہوکر پاکستانی افواج کو نشانہ بناکر سوشل میڈیا میں اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا۔
لیکن اس سے بھارت اور کابل انتظامیہ کے عزائم کی تکمیل ممکن نہیں تھی ۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ کمین گاہوں کو نابودتو کیا جا چکا تھا لیکن بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے مستقل امن ہونے کے باوجود سیاست کی جانے لگی کہ فوج کو واپس اپنے بیرکوں میں چلے جانے چاہیے ، اس کی ایک بنیادی وجہ امن لشکر کے نام پر علاقائی افراد کی بھرتی اور حکومت کی جانب سے بھاری مراعات کے علاوہ متوازی حکومت کا قیام کا نظریہ شامل تھا ، سوات میں جب راہ حق I,2,3کیا گیا اور اس کے بعد تاریخی مدت میں آئی ڈی پیز کو سوات ، ملاکنڈ ، سمیت پاٹا کے علاقوں میں آباد کردیا گیا اور ریڈیو ملا اپنے ساتھیوں سمیت فرار ہوکر افغانستان میں جا بسا ، تو پاکستان کی حکومت نے امریکہ اور کابل انتظامیہ سے اسی وقت مطالبہ کیا کہ اگر خطے میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں تو ، ملا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کردیا جائے اور پاک ، افغان 2600 کلو میٹر سرحد کی حفاظت کیلئے بارڈر سیکورٹی پلان ترتیب دیا جائے ،پاکستان نے85دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ افغانستان سے کیا ہے۔ افغانستان نے بھی بھارتی روش کے مطابق ایک فہرست پاکستان کو تھما دی ہے۔
امریکہ ، بھارت اور کابل انتظامیہ کے عزائم میں پاکستان سمیت افغانستان میں قیام کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، اس لئے نیٹو کی واپسی کے اعلان کے باوجود ، امریکہ نے اپنی فوجوں کو معاہدے کے برخلاف افغانستان میں موجود رکھا ، بلکہ بعد میں بھی اپنے فوجی دستوں کو افغانستان بھیجتا رہا ۔ ملا عمر مجاہد مرحوم کے بعد امارات اسلامیہ میں انتشار اور گروہ بندی کا منتظر رہا ، لیکن ناکامی ہوئی اور پھر ملا عمر مجاہد کے انتقال کے بعد سے دو سال تک امارات کے امیر کے فراٰئض سر انجام دینے والے ملا اختر منصور کے وقت بھی کوشش کی گئی کہ ملا عبد المنان اور ملا عمر مجاہدکے صاحبزادے کے ذریعے گروپ بندی کی جائے ، لیکن ملا اختر منصور کی ایران سے واپسی پر ایران کی جانب سے مخبری کے بعد ڈورن حملے میں پاکستان میں نشانہ بنانے کے بعد ، امریکہ، بھارت اور کابل انتطامیہ کو قوی یقین ہوگیا تھا کہ اس بار گروپ بندی کامیاب ہوجائے گی اور امارات اسلامیہ کو اسی قیادت میسر نہیں آسکی جس سے افغانستان میں پھیلے ہوئے افغان طالبان میں اتفاق پیدا ہوسکے ، لیکن حیرت انگیز طور پر شیخ الحدیث ملا ہیبت اللہ کو افغان شوری نے منتخب کیا تو ملا نیازی کے علاوہ تمام افغان طالبان دھڑوں نے ان کے ہاتھوں تین دن کے اندر ہی بیعت کرلی۔یہ پاکستان مخالف سہ فریقی ممالک کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا ۔ جس نے انھیں مزید مشتعل کر دیا۔
پاکستان کی عسکری قیادت نے اپنی ڈاکرئن میں تبدیلی کرکے اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف پہلی ترجیح بناتے ہوئے ، بھارت کو بھی حیران کردیا اور بھارت نے توجہ ہٹانے کیلئے مسلسل ایل او سی کی خلاف ورزیاں شروع کرکے پاکستان کے علاقے میں واقع آزاد کشمیر کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ۔ یہاں یہ صورتحال جاری تھی کہ سی پیک منصوبے کے آپریشنل ہونے کے بعد بھارت اور ایران کو شدید مایوسی کا سامنا ہوا اور امریکہ نے چین کو عالمی طاقت کی صف میں کھڑا ہونے سے روکنے کیلئے پس پردہ سازشوں کا جال بن دیا ، لیکن ایرانی سرزمین استعمال کرنے والے بھارتی ایجنٹس کل بھوشن یادو کی گرفتاری نے سارا کھیل خراب کردیا اور حساس اداروں نے بلوچستان میں بھارت اور کابل انتطامیہ کے نیٹ ورک کو اکھاڑ پھینکا ۔ لیکن یہاں مسئلہ سیکورٹی اداروں کے ہیڈ کوارٹرز کو محفوظ ہی بنانا نہیں تھا بلکہ عام شہریوں کی حفاظت کو بھی یقینی بنانا تھا. بقایا دوسرے حصے میں ( جاری ہے)