اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر اعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہیں سے بھی آپریشن کے خلاف کوئی بات نہیں سنی گئی، اگر کسی کو آپریشن پر تحفظات ہیں تو سننے کیلیے تیار ہیں، آج کھل کر بات ہو گی۔
عمران خان آئیں اور آ کر بیٹھیں۔ سراج الحق خود عمران خان کے پاس گئے اور پھر میرے پاس آئے۔ سراج الحق نے عمران خان کی بات سنی۔ عمران خان نے کہا کہ 10 سیٹوں پر دوبارہ گنتی ہو جائے تو لانگ مارچ ختم کر سکتے ہیں۔ہم عمران خان سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔
عمران خان ہمارے ساتھ بیٹھیں، کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر ان کی بات سنیں گے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں جوانوں سمیت ہزاروں افراد شہید ہوئے۔
گزشتہ جماعتی کانفرنس کے مقاصد بھی یہ ہی تھے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی طرف بڑھے، مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ہرمکتبہ فکربڑھتی ہوئی دہشت گردی سے پریشان تھا۔ دہشت گردوں نے کراچی ایئرپورٹ پرحملہ کیا۔ دہشت گردوں نے میجرجنرل سمیت دیگر افسران اور جوانوں کو شہید کیا۔ ہمیں ان تمام شہادتوں کی دل سے قدر ہے۔
گزشتہ کانفرنس میں تمام جماعتوں نے مخلص رائے دی۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کارروائی کا فیصلہ بھی اتفاق رائے سے کیا۔ آج تمام معاملات پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ناگز یر ہو گیا تھا۔پاکستان کو اس وقت امن کی ضرورت ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ آرمی چیف نے بتایا کہ اگر دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو اس کی شدت کم ہو گی۔ جن کے پیارے دہشت گردی میں شہید ہوئے اس پرہمیں دکھ ہے۔ ملک کو بے تہاشا مسائل کا سامنا ہے۔ فراخدالی سے ہم نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔
وفاقی حکومت نے دیگرجماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ہمیں شہادتوں کا بہت زیادہ احساس ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ شہادت پانے والوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ پاکستان کو امن کی ضرورت ہے اورامن سے ہی ترقی کر سکتے ہیں۔ سال 2013 کے الیکشن کے بعد نئی شروعات ہوئی ہے۔
ہم نے کہا جس کا جہاں مینڈیٹ ہے وہ وہاں حکومت بنائے۔وفاقی حکومت نہ صرف ان کا مینڈیٹ تسلیم کرتی ہے بلکہ صوبائی حکومتوں سے ہر ممکن تعاون کرے گی۔ تمام حکومت خدمت کریں تو پاکستان کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ آپریشن ضرب عضب اتفاق رائے سے شروع کیا گیا۔
آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی تھی، ہم نے روک دی۔ وفاقی حکومت نے ہرصوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمام جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ایسے حالات میں کوئی عیش وعشرت کے لیے وزیراعظم بننے کے لیے نہیں آتا۔ کسی کی بھی جائز شکایت ہے تو سننے کے لیے تیارہیں۔ ہمیں سمجھائیں کہ کون سا اور کس طرح سے انقلاب لائیں گے؟۔ اگرصرف فساد کے لیے انقلاب لانا چاہتے ہیں توایسا انقلاب قبول نہیں۔ عمران صاحب آئیں،اپنے مطالبات لے کربات کریں۔
ہمیں دوبارہ گنتی کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بات کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان کی ترقی کےلیے حکومت آگے بڑھے۔اپوزیشن کو محاذ آرائی کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہیے، پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم سیاست کرنے نہیں، پاکستان کو مسائل سے باہر نکالنے آئے ہیں۔
حکومت ہر کسی کے مسائل سننے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان میں کون سا انقلاب اور کیسا انقلاب؟۔ پاکستان میں کوئی انقلاب کی بات کرتا ہے تو وہ کسی قیمت پر قابل قبول نہیں۔ آج کوئی ملک اندرونی اور بیرونی سازشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لانگ مارچ کرنے والوں سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات اتنے اچھے نہیں، نئی افغان حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ چین کے علاوہ ایسا کوئی ہمسایہ نہیں جس کے ساتھ تعلقات قابل فخرہو۔ میری خواہش ہے کہ ہم سب ملک کر پاکستان کو مضبوط کریں۔
ایک پارٹی نےہمیشہ حکومت میں نہیں بیٹھے رہنا۔ہماری سلامتی کا دارومدار ہےکہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان کو مضبوط کریں۔لانگ مارچ اور آزادی مارچ کی باتیں کرنے والے آئیں اور پاکستان کو مضبوط کریں۔پاکستان مضبوط ہو جائے تو لانگ مارچ بھی کر لیں۔ایک سال بعد ایسی باتیں کرنے کا وقت نہیں۔
ایک سال بعد آپ کن باتوں پر آ گئے ہیں۔کانفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ،غلام احمد بلور ، وزیر اعلی بلوچستان عبدالمالک بلوچ، حاصل بزنجو، وزیر دفاع خواجہ آصف ، بی این پی ( عوامی) کی سینیٹر کلثوم پروین جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام شریک ہیں۔ اس کے علاوہ خورشید شاہ، رضا ربانی،وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ، افراسیاب خٹک، محمود خان اچکزئی بھی موجود ہیں۔