تحریر : عماد ظفر بالآخر پاکستانی حکومت اور فوج نے مل کر ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جسے آپریشن ردالفساد کا نام دیا گیا ہے. اس آپریشن کے تحت ملک بھر میں دہشت گرد اور ان کے سہولتکاروں کو جہنم واصل کیا جائے گا. یہ آپریشن گزشتہ کیئے گئے آپریشن “ضرب عضب ” سے قدرے مختلف ہے.آپریشن “ضرب عضب” ملک کے چند حصوں تک محدود تھا اور فاٹا میں دہشت گردوں کی پناگاہیں ختم کرنے سے متعلق تھا.جبکہ آپریشن ” ردالفساد” ملک بھر میں دہشت گردوں کے خاتمے سے متعلق ہے.یعنی اس آپریشن کا دائرہ بے حد وسیع ہے. موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اس آپریشن کا آغاز بروقت اور مناسب نظر آتا ہے. آپریشن ضرب عضب کے برعکس یہ تازہ آپریشن ملک بھر میں موجود “سلیپرز سیل” اور افغانستان میں موجود ان کو ہدایت دینے والے دہشت گردوں کو ٹارگٹ کرتا نظر آتا ہے.اس کے علاوہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے سہولتکاروں اور شدت پسندوں کو بھی اس آپریشن میں نشانہ بنایا جائے گا. شاید فوج کی موجودہ قیادت اس امر کو نجوبی سمجھ چکی ہے کہ جن اثاثوں کو سٹریٹیجک اثاثے سمجھ کر پالا گیس اب انہیں تلف کرنے کا وقت آن پہنچا ہے جو کہ ایک اچھا امر ہے. موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ان کے ساتھیوں نے اس آپریشن کو لانچ کرنے کا رسک اٹھایا ہے اور انہیں اس بات کا پورا کریڈٹ جاتا ہے. لیکن یہ آپریشن “رد الفساد” عوام اور میڈیا کی بھرپور تائید سے ہی کامیابی سے اپنے منطقی انجام کو پہنچایا جا سکتا ہے۔
ماضی کے برعکس فوج اسـوقت بلا امتیاز تمام دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کر رہی ہے.گڈ اور بیڈ شدت پسندوں کی تفریق اب ختم ہوتی نظر آ رہی ہے جو کہ ایک خوش آئیند امر ہے.اب اگر معاشرے میں بسنے والے افراد بھی اپنے اپنے فرقے اور مسلک کی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف وطن عزیز کے مستقبل کا سوچیں تو شدت پسندی کو شکست دینا مزید آسان ہو جائے گا.ٹھیک اسی طرح وہ حضرات جو افواج پر تنقید کرنے کیلئے مرے جا رہے ہوتے ہیں ان کو بھی سوچنا چائیے کہ تنقید کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے ایک وقت ہوتا ہے.جب فوج ہم لوگوں کیلئے ہی لڑ رہی ہے تو کچھ دیر کو اس پر تنقید کے نشتر برسانا اگر بند کر دئیے جائیں تو نہ تو آسمان گرے گا اور نہ ہی کار جہاں کے معاملات رک جائیں گے۔
راقم خود فوج کی سیاست میں مداخلت اور خارجہ پالیسی میں ٹانگ اڑانے کے معاملات سے لیکر مختلف کاروباری ادارے چلانے کے معاملات میں اس ادارے پر تنقید کرتا رہتا ہے. لیکن اب جب فوج نے نئی کمان کی موجودگی میں سیاست میں بھی ٹانگ اڑانا چھوڑ دی ہے اور دہشت گردوں سے نپٹنے کیلئے ایک فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کر دیا ہے تو پھر اب بجائے تنقید کرنے کے سب کو میدان میں دہشت گردوں سے نبرد آزما فوجیوں اور ان کے افسران کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے. اس آپریشن کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ صرف جنگی محاذ پر نہیں ہونا۔
Society
ہم جو معاشرے میں بستے ہیں ہمارے رویوں اور سوچوں نے بھی اس عمل میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے. مثال کے طور پر کوئی بھی فوج یا کوئی بھی حکومت آپ کے اور میرے دماغ میں گھس کر فرقہ واریت تعصب پسندی یا شدت پسندی کی کسی بھی قسم کو نکال نہیں سکتی. اپنے اندر کے شدت پسند رویوں اور سوچوں کو ہمیں خود ختم کرنا ہے. فرقہ واریت اور تعصب پسندی کا زہر اپنے بچوں تک پہنچانے کا انجام ہم اچھی طرح بھگت چکے ہیں. اسی طرح محض افواج یا ریاستی اداروں پر تنقید کے نشتر چلا کر بھی کچھ حاصل نہیں ہونے والا.ضرب عضب کامیاب ہوا یا ناکام یہ الگ بحث ہے لیکن موجودہ حالات میں آپریشن “ردالفساد” کی بھرپور حمایت و تائید کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے. ابھی تک جو اچھی بات موجودہ آرمی کمان اور اسں آپریشن دوارے نظر آ رہی ہے وہ فوج کا میڈیا کے بجائے میدان میں دہشت گردوں سے لڑنا ہے.جنرل راحیل شریف کے دور میں میڈیا پر بے جا وقت اور پیسہ کا مصرف کر کے ادارے کو تنقید اور مزاح کا نشانہ بننا پڑا تھا. اور یہ بھی ایک اچھا امر ہے کہ اب اداراے نے اس غلطی سے سیکھتے ہوئے میڈیا پر وقت اور توانائیوں کا ضیاع نہیں کیا. اب ایک اہم بات جو ہمارے پالیسی سازوں کے سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ کشمیر اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں ہمیں بھی دخل دینا بند کرنا ہو گا۔
خود کش حملہ آور چاہے کشمیر میں حملہ آور ہوں یاـافغانستان میں ہوتے دہشت گرد ہی ہیں.ویسے بھی ہم نے کشمیر کو جہادیوں کے بل پر چھڑانے کی کوشش کرنے کا انجام اچھی طرح دیکھ لیا ہے. اور افغانستان میں طالبان کے مخصوص گروہوں کی سرپرستی کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے.اسی طرح فورتھ شیڈول میں شامل افراد کو بھی پابند سلاسل کیا جانا انتہائی اہم ہے.وگرنہ ماضی کے فوجی آپریشنز کی طرح یہ تازہ فوجی آپریشن بھی کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کر پائے گا. امید ہے نئی فوجی کمان ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اس آپریشن “ردالفساد”میں دہشت گردوں کو بلا تفریق اور بلا امتیاز جہنم واصل کرے گی۔
باقی وہ طبقہ جو محض میڈیا کے زریعے ٹھنڈی جگتوں پر مشتمل پروگرام یا کالمزلکھ کر فوج کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے اس طبقے کو یہ احساس کرنا چائیے کہ حالت جنگ میں نہ تو جمہوریت کے آئیڈیل قوانین لاگو ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ افواج کی کاروائیوں کے جواب میں دشمن کاروائی نہ کرے. آپریشن “ردالفساد” کامیاب ہو گا تو دہشت گردی کے عفریت سے جان چھوٹے گی.آئیے متحد اور یکجا ہو کر ہر ممکن طریقے سے اپنی افواج کا حوصلہ بلند کریں کہ یہ آپ کے اور میرے بچوں کے مستقبل کی جنگ ہے۔