تحریر : انجینئر افتخار چودھری عنائت اللہ نے تو ایمان فروشوں کی کہانی لکھی مجھے میرے بھانجے مجاہد یعقوب نے عنوان دیا کہ نہیں آپ ان ضمیر فروشوں کی داستاں سنائیے جنہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔سوال سادہ سا ہے پی ٹء آئی کے یہ لوگ اگر اپنا ووٹ نہ بیچتے تو تحریک انصاف کے دو سینیٹرز منتحب ہو سکتے تھے۔کے پی کے اسمبلی میں نون لیگ ایک سینٹ کی سیٹ جیت گئی اور پیپلز پارٹی دو سیٹیں جب کے ان کے اراکین تھے ہی نہیں جن کی بدولت یہ پارٹیاں ایک اور دو سیٹیں جیت جاتیں۔تحریک انصاف کے لئے یہ بہت بڑا دھچکہ تھا سوچا جائے تو پارٹی کو بہت بڑا نقصان ہوا۔ایک سیاسی کارکن ہونے کے ناطے میری کوشش ہو گی کہ میں اس پر نقطہ ء نظر بیان کروں۔یاد رکھئے پی ٹی آئی بھی بہت سی جماعتوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی ہے لیکن اسے اس کے چند اقدامات اسے منفرد بناتے ہیں جیسا کہ اس نے ان بیس ناموں کا اعلان کیا۔یہ بڑی جرائت اور ہمت کی بات ہے۔مجھے کہنے دیجئے بے ایمانی ضمیر فروشی کی اس منڈی میں عمران خان نے جس انداز سے چومکھی لڑائی لڑی اس کا کسی اور کو اندازہ نہیں مجھے پارٹی کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے میں جانتا ہوں۔
سادہ سی بات کروں گا چھیچھڑوں کی ایک پرات تھی اور بلیوں کا ہجوم عمران خان اسے بچاتے بچاتے یہاں تک لے آئے۔گاؤں میں چھٹیوں پر جاتے تو ماں جی کے پاس ایک لمبی سی پھانٹ ہوتی تھی جو چولہے کی جانب بڑھنے والی بلی چوزے مرغیاں شیکتی رہتی تھیں تا کہ وہ منہ نہ ماریں۔بلکل ایسی ہی ایک پھانٹ عمران کے ہاتھوں میں رہی۔ورنہ ہم جانتے ہیں کہ اس کی ٹیم میں کیسے کیسے نامور تھے۔دلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے یہ پاکستان کا سیاسی کلچر رہا ہے کہ مال لگاؤ اور الیکشن جیتو اور جیت کر مال بناؤ۔ہمیں یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہم ان لوگوں کو جانتے ہیں جن کے پاس پھٹیچر گاڑیاں تھیں سائیکل تھے اور اب نئے ماڈلوں کی گاڑیوں میں شوں کر کے پاس سے نکل جاتے ہیں میں ان کی بات کر رہا ہوں جو ہمارے اپنے ہیں۔ایک اکیلا عمران خان تھا جو ان سے دور رہا۔۔ایک قائد کے لئے الیکشن جیتنا اور حکومت بنانا کوئی چیز نہیں اس کے لئے سب سے بڑا چیلینج ٹیم کا انتحاب ہے اس کی ٹیم اسے لیڈر بنائے رکھتی ہے ورنہ ہم نے دیکھا کہ ناکامی کا سبب اس کے ساتھی ہوتے ہیں۔عمران خان خان کا کل کا فیصلہ شو کاز نوٹسز کا ہے اس نے ابھی کسی کو پارٹی سے نہیں نکالا ابگی سردار ادریس فیصل زمان جہازوں والا وجیہ الزمان اور سترہ لوگوں کو جواب دینا ہے کہ کیا انہوں نے ووٹ بیچا یا نہیں۔پہلی بات ہے اگر ووٹ نہ بکنا یہ تو بعید از خیال ہے ووٹ بجا اسی وجہ سے پارٹی اپنے دو سینیٹرز نہیں جتوا سکی۔اگر بکا تو کیوں؟ اس سوال کا مجھے جواب دینے دیجئے وہ کچھ یوں ہے کہ ۳۱۰۲ میں پارٹی ٹکٹ انتہائی غلط اور بھونڈے انداز میں دئیے گئے آپ کو یاد ہو گا پرویز خٹک کی شمولیت کے وقت فایرنگ بھی ہوئی تھی۔
ایک ٹولہ انٹرا پارٹی انتحابات جیت گیا اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ان لوگوں نے ٹکٹ بیچے واللہ اعلم لیکن یہ ضرور ہوا کہ میرٹ کی دھجیاں بکھریں۔پنجاب میں تو ایک شخص چھابڑی لگا کر بیٹھ گئے بلکہ ایک سے زائد اشخاص نے ٹکٹ بیچے ایک تو ملتان میں خوار ہو رہا ہے دوسرا لاہور میں ثواب کما رہا ہے۔یہ تھیں بنیاد ی وجوہات جس کی وجہ سے غلط ٹکٹوں والے اسمبلیوں میں پہنچیں۔۳۱۰۲ میں ایک انتہائی غلط کام یہ بھی ہوا کہ ضمیر فروشوں نے برادری ازم کو فروغ دیا ایک ہی قبیلے اور گھر کے لوگ ٹکٹ اٹھائے میدان میں اترے بلے نے بلے کرا دی۔جنہیں گھر میں دوسری بار سالن دینے سے پہلے مجلس مشاورت سجتی تھی انہوں نے اسمبلویں کا منہ دیکھا ایک بار ایک انتہائی ذمہ دار فرد نے کہا تھا کہ ان کی نسلیں کہیں گی کہ Once upon a time my grand pa was member of assemblyیہ تو تھی بنیادی وجہ کہ آپ نے تحقیق کے بغیر ٹکٹ دیئے سلام ان پر جو اس منڈی میں ڈٹے رہے اور جنہوں نے ضمیر کے سودے نہیں کئے ان میں وہ لوگ بھی تھے جن کا تعلق متوس طبقے سے تھا اور دھن دولت اور حرس و ہوس کی اس منڈی میں ڈٹے رہے۔عمران خان کا کنٹینر سے گرنے کے برے اثرات کل تک کے فیصلے پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔وہ کیا گرے کہ ہم پورا الیکشن بری طرح ہار گئے تاثر یہ دیا گیا کہ ایک عمران ہی تھا جس کو وزیراعظم بننا تھا وہ ہی نہیں رہا(اللہ نہ کرے۔صحت مند)تو باقی کیا ہے۔اس وجہ سے سنٹرل پنجاب اور پوٹھوہار کی اسی کے قریب نشستوں کا خانہ خراب ہوا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے ان بکاؤ لوگوں کے بارے میں ان میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جو منتیں کرتی رہیں کہ ہماری مدد کریں ان میں وہ نام نہاد نظریاتی بھی تھے جو پرانے چاولوں کی طرح گھروں میں بیٹھے دام بڑھواتے رہے۔میری ان معروضات پر بہت سوں کو مرچیں لگے گیں لیکن مرچیں صرف سالن میں ڈالنے کے لئے نہیں ہوتیں۔
یہ ہم اور آپ جانتے ہیں۔یہ بیس ضمیر فروش اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہیں کہ انہوں نے مال پانی نہیں بنایا۔ اب میں جو انتہائی اہم بات کرنے جا رہا ہوں وہ ہے ان کے منتحب ہونے کے بعدہاتھ پاؤں بندھ جانا۔پنجاب میں تو یہ ہوا کہ ان لوگوں کے ہاتھوں اربوں کے فنڈ لگائے گئے انتہائی آسانی سے دس سے پندرہ پر سینٹ ان کی جیبوں میں جاتا رہا یہاں کے پی کے میں ایسا نہیں ہو سکا۔یہ لوگ مجبور کر دئے گئے سارا فنڈ بلدیات کے نمائیندوں کے ذریعے خرچ کیا گیا ان کی حسرت ہی رہی کہ ہم بھی دس پندرہ پرسینٹ کماتے مگر وہ ہو نہ سکا اگرچہ کچھ یاران نکتہ داں وائٹ کالر جرائم میں مصروف رہے اپنے ہی ٹھیکیدار اور اپنے ہی لوگ اور شنید یہ بھی ہے کہ خرچہ پانی پشاور بڑے آرام سے پہنچتا رہا۔عمران خان نے جب ان بیس ناموں کا اعلان کیا تو ان میں اکثریت ایسے تھے جن کی اناؤنسمینٹ ایک صاحب نہیں کرنا چاہتے تھے انہیں باور کراایا گیا کہ آپ ایسا نہ کریں ہم الیکشن میں جا رہے ہیں ایسے میں ہمسیٹیں ہار جائیں گے چیئرمین کی آواز میں کڑک تھی اور انہوں نے سب کے سامنے کہا مجھے اندیشہ ہے کہ اس فیصلے سے ہم نقصان میں جائیں گے لیکن میں ان کالی بھیڑوں کو برداشت نہیں کروں گا اس معاملے میں شائد انہیں علم نہیں پارٹی کا گراف ایک دم اوپر چڑھا ہے اور خان کو علم ہے یا نہیں اس کا اثر کراچی سے کاغان اور خیبر تک پڑا ہے لوگوں نے کہا کہ عمران واقعی نڈر ہے۔فیصل زمان جہازوں والے کا نام آنا حیران کن ہے یہ لوگ کروڑوں دے کر ہری پور کی نظامت اعلی لے چکے تھے انہیں کیا ضرورت تھی کالک ملنے کی مگر ایک صاحب نے کہا سرمایہ دار ہمیشہ ہر کام کے مختلف اکاؤنٹ رکھتا ہے بلدیاتی اکاؤنٹ میں اگر دو کروڑ خرچ کر کے خسارہ ہوا تو چار لے کر اسے نفع بخش بنا دیا گیا۔سردار ادریس کی بدنامیوں کے چرچے تا بخاک لندن سے ایئر پورٹ سوسائٹی زبان زد عام ہیں میرے ہمسائے رہے بڑی مشکل سے افضل قریشی نے دے دلا کر مکان خالی کرایا یہاں بھی اے ایم بلڈرز سوسائٹی انتظامیہ کے سودے کراتے رہے سنا ہے اب بحریہ میں پالازے بھی ہیں اور نئی نئی گاڑیاں بھی۔وجیہ الزمان پر جو انگلی اٹھی ہے اس کا بھی لوگوں کا علم ہے۔بعض خواتین قران لے آئی ہیں اور بعض مرد حضرات بھی حضور ہم کسی کی نیت پر شک نہیں کرتے یہ معاملات قران پر نہیں ختم ہوں گے آپ کا پانچ سالہ طرز عمل گواہی بن چکا ہے ویسے بھی روزکچہریوں میں سچ کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا کے وعدے وعید ہوتے رہتے ہیں۔آخر کیا وجہ تھی کہ عمران خان کا آپ کے اوپر اعتماد نہیں ٹھہرا اور آپ سر عام بدنام ہوئے۔
بد قسمتی سے تبدیلی کو تبدیلی کی بکل اوڑھ کر لوٹ لیا گیا۔ہری پور میرا آبائی علاقہ ہے میں اس علاقے کی رگ رگ سے واقف ہوں علاقے کے مظلوم پسے ہوئے لوگ جو ترین اور راجہ خاندان کے ہاتھوں مر چکے تھے انہی خاندانوں نے پی ٹی آئی پر قبضہ جما لیا نون میں بھی یہ دونوں اور پی ٹی آئی میں بھی۔وہ کہتے ہیں ناں حبس ایسی کہ لو چلنے کی دعا کرتے ہیں۔لوگوں نے اس سیاسی حبس میں بابر نواز جیسے لوگوں کو چن ا۔یہ خاندان ڈرگ سمگلرز اور اسلحے کے بیوپاری ہیں قتل ناشتے سے پہلے ایک اور ناشتے کے بعد ایک کرتے ہیں لیکن ان راجاؤں اور ترینوں کے جبر سے تنگ لوگ کبھی سردار مشتاق گجر اور کبھی بیدار شاہ اور اب کھلابٹ کے ان پٹھانوں کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ سردار مشتاق ایک ایسا چلا ہوا کارتوس ہے جس نے گجروں کا نام کیش کرایا۔نلہ کے گجروں کی بد قسمتی یہ ہے کہ فیصل اور عابد دو کزن ہی لڑائی سے فرصت نہیں پاتے ورنہ مختار گجر کا ایسا نام تھا جس کی کمائیاں وہ کھا سکتے تھے۔ایک ایم این اے کی سیٹ بیگم کے لیے لے کر بیٹھ گئے اور بھائی کا متقبل بھی داؤ پر لگا دیا دوسری جانب دیکھا جائے تو فیصل کی شخصیت کا اپنا ووٹ ہے بلا مبالغہ لکھے دیتا ہوں کہ کوئی پچیس سے تیس ہزار ووٹ اس کی جیب میں ہے جو گجروں کے علاوہ پسماندہ اور غریب لوگوں کا ہے۔پابند صوم صلوۃ اور انتہائی نفیس کریکٹر جو نلہ کے گجروں کا خاصہ ہے وہ اس میں بدرجہ ء اتم پایا جاتا ہے۔عابد تو اس سے زیادہ عوامی ہے اور اس میں د میں اتنی ہمت ہے وہ ترینوں اور راجوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اسے عباسیوں اعوانوں اور سیدوں کی بھی حمائت حاصل ہے البتہ ماجد گجر جو ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر ہیں کو کھل کے بھائی کی حمائت میں سامنے آنا ہو گا اور تمام مصلحتوں کو بالئے طاق رکھ کر مختار گجر کے نام کو روشن کرنا ہو گا۔
اس روز نعیم الحق کے سامنے ماجد کھل کر ترینوں اور راجوں کا پول کھولنے میں کامیاب ہوئے ضرورت اس امر کی ہے وہ اپنی جلائیں اور اپنی روشنی سے پسماندہ اور دبے ہوئے طبقے کی نمائیندگی کریں۔سچ تو یہ ہے کہ یہاں ان خاندانوں نے پی ٹی آئی کے عمران خان کی بجائے اپنے مرے ہوئے نامور لوگوں کو اجاگر کیا ایک جانب نون لیگ کے راجہ فیصل اپنے والد راجہ سکندر زمان کی تصویر لگائے ووٹ مانگتے ہیں تو دوسری جانب راجہ عامر زمان اپنے والد کی تصویر لگا کر پی ٹی آئی کا ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں یہی حال عمر ایوب اور اکبر ایوب کا ہے عمر نے اپنے دادا کی تصویر کے ساتھ نون لیگ کا ووٹ مانگا اور اکبر پی ٹی آئی کے بیٹ کے ساتھ دادا جان ایوب خان کی تصویر لگاتے رہے۔یعنی یہاں عمران خان کو پروموٹ نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے عمر ایوب خان کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر راجہ عامر نے آزاد لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے۔بے ضمیری کی اس داستان کا ذکر کہاں کہاں سے کیا جائے۔نظریاتی سیاست کا جنازہ اٹھ رہا ہے اور ویسے بھی اب الیکٹیبل کا دور ہے۔نظریاتی کارکن اپنے حصے کی کوشش کرتا رہے اس کا اجر بعد از مرگ اللہ کے ہاں ضرور ملے گا کیونکہ وہی منصف اعلی ہے۔اس عمل سے البتہ یہ تو واضح ہوا ہے کہ اب ٹھگی نہیں چلے گی اب یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام کے ووٹ کی بے عزتی کی جائے گی۔تحریک انصاف کی بد قسمتی یہ رہی کہ ۳۱۰۲ میں لوگوں نے ووٹ بیٹ کو دیا اور نکلا ایک جانور کے نام اور مزید بد قسمتی کہ جو جیتے انہوں نے بھی بیٹ کو تیر و شیر میں بدل کے رکھ دیا۔ داستان ضمیر فروشوں میں ایک گروہ وہ بھی تھا جو نہیں بکا اور نہیں جھکا اگلی ٹکٹیں ان کی کنفرم نظر آتی ہیں۔عمران خان نے ضمیر فروشوں کو ننگا کر کے قوم پر احسان کیا ہے ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔