تحریر : طارق حسین بٹ شان ٢٩ نومبر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ ہے اور ہر کوئی اس دن کی مناسبت سے اپنا علیحدہ نقطہ نظر رکھتا ہے۔اس وقت ملک میں ایک ایسی غیر یقینی کی کیفیت ہے جس میں کچھ بھی وقوع پذیر ہونے کے امکانات کافی روشن ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے حوالے سے بہت سے اٹی وی اینکرز اور تجزیہ کار اپنی دکانیں چمکائے ہوئے ہیں۔
انھوں نے قوم کو ایک ایسی غیر واضح صورتِ حال میں مبتلا کر رکھا ہے جس کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں ہے۔تجزیے اور تبصرے جاری ہیں اور قوم گومگو کی کیفیت کا شکار ہے۔وہ کبھی فوج کی جانب دیکھتی ہے اور کبھی اپنے سیاستدانوں کی جانب دیکھتی ہے لیکن اسے اپنی منزل کا کہیں نام و نشاں نہیں ملتا ۔ سیاسی جماعتیں بھی اس مخصوص دن کو پیشِ نظر رکھ کر کافی فعال ہیں۔اس تاریخ کے پسِ منظر میں پاکستان میں سیاسی عمل اپنی خاص ڈگر پر محوِ سفر ہے۔ تحریکِ انصاف اسی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے کارڈز انتہائی شاطرانہ انداز میں کھیل رہی ہے۔کیا اس کے کارڈز بازی پلٹ سکتے ہیں یا اگست ٢٠١٤ کے لانگ مارچ کی طرح اس کی ساری محنت اکارت چلی جائیگی ایک ایسا سوال ہے جس کا حتمی جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
اگست ٢٠١٤ میں بھی مقتدر حلقوں کی جانب سے تحریکِ انصاف کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ وہ احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکلیں تا کہ میاں محمد نواز شریف کے ہیوی مینڈینٹ کو اپنی حدود میں رکھا جا سکے۔ تھرڈ ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا شور اسی زمانے میں اٹھا تھا اور خوب اٹھا تھا۔آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل شجاع پاشا اس سارے کھیل کے آرکیٹیکٹ تھے لیکن بوجوہ ان کا سجایاگیا کھیل حکومتی برخاستگی کی حد تک اپنے نتائج دکھانے میں ناکام ہو گیا۔ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کیونکہ پی پی پی اور اپوزیشن جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کی کھلی حمائت کر کے ساری بازی پلٹ دی تھی لیکن اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو دبائو میں رکھنے کے اپنے ایجنڈے میں کافی حد تک کا مران ٹھہری تھی ۔ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اور عمران خان کی جوڑی ایک مثالی جوڑی ہے کیونکہ دونوں کے پاس فدائین کی کثیرتعداد موجود ہے جو حکومت ِ وقت کو نتھ ڈال سکتی ہے یہ الگ بات کہ وہ ذولفقار علی بھٹو کی طرح احتجاج کو فتح میں بدلنے کے گر سے نابلد ہیں۔
Tahir Ul Qadri And Imran Khan
ہمارے ہاں ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشاء سے رونما ہوتی ہے لہذا ان دونوں جماعتوں کا سارا زور اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کروانے میں گزر رہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کرپٹ ہے جس کا واضح ثبوت پانامہ لیکس میں ان کی چھپائی گئی دولت سے عیاں ہے لہذا اسے فارغ کیا جائے ۔سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اسی انداز میں سوچ رہی ہے جس طرح ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان سوچ رہے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ انھیں کوئی ایسا آئینی راستہ نظر نہیں آ رہا جس کی بنیاد پر میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو برخاست کیا جا سکے ۔،۔
شیخ رشید ،ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کھلم کھلا فوج کو تختہ الٹ دینے کی استدعا کر رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کی امیدیں بر نہیں آ رہیں کیونکہ فوج جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی۔اسی طرح کی استدعا جون ١٩٧٧ میں پی این اے کی تحریک کے دوران تحریکِ استقلال کے چیرمین اصغر خان نے کی تھی اور ٥ جولائی ١٩٧٧ کو جنرل ضیاالحق نے ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا ۔ پی این اے کی تحریک واقعی بڑی زور دار تھی اور اس وقت نظامِ حکومت عملا مفلوج ہو کر رہ گیا تھا لیکن ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان اس طرح کا منظرنامہ پیش کرنے سے معذور ہیں۔ان کے ساتھ عوام کی قابلِ ذکر تعداد تو ضرور ہے لیکن پی این اے کی تحریک سے اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس تحریک نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا جبکہ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کی برپا کردہ تحریک ایک مخصوص طبقے تک محدود ہے اور حکومت اس سے مفلوج نہیں ہو سکی۔
اصغر خان کی استدعا چونکہ خطوط کی صورت میں تھی اس لئے تاریخ کا حصہ ہے لیکن ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کی استدعا بین السطور ہے جسے تاریخ میں اس طرح تلاش نہیں کیا جا سکتا جیسے اصغر خان کے خطوط کو کیا جا سکتا ہے۔اپنے نفسِ مضمون کے لحاظ سے یہ ساری صورتِ حال ملتی جلتی ہے لیکن پھر بھی جولائی ١٩٧٧ اور ستمبر ٢٠١٦ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اس وقت اپوزیشن اور مذہبی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی منظورِ نظر ہوا کرتی تھیں جبکہ پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا نشانہ بنا کرتی تھی۔لیکن آج پی پی پی نہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی بنی ہوئی ہے اور اسے سخت دبائو کا سامنا ہے۔جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ اس کیلئے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے کئی ماہ قبل اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کر دیاتھا لیکن اس کے باوجود بھی حکومت مخمصے کا شکار ہے۔وہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت میں مبتلا ہے اور اسے اپنی نجات کی کوئی راہ نہیں سوجھ رہی۔ملک میں افواہ سازی کی فیکٹریاں اپنے کام میں جٹی ہوئی ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) میں دوریاں بڑھانے میںایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔
Nawaz Sharif and Asif Ali Zardari
ان کی سازشیں بار آور ہوتی ہیں یا کہ نہیں ایک الگ داستان ہے لیکن یہ طے ہے کہ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان نے موجودہ صورتِ حال کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی ٹھان رکھی ہے۔وہ میاں برادران کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے ۔ان کے ہاتھ میں ٢٩ نومبر کا ایک ایسا سنہرا موقعہ ہے جس کے چلے جانے سے ان کی اپنی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو سکتا ہے لہذا وہ اس سنہری موقعہ کو کسی بھی صو رت میں ضائع نہیں کرنا چاہتے۔پی پی پی کو اس ساری صورتِ حال کا ادراک ہے لہذا وہ اس سارے کھیل سے خود کوالگ تھلگ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔اس کا نعرہ یہ ہے کہ وہ کسی حال میں بھی جمہوری عمل کو سبو تاز نہیں ہونے دے گی۔،۔
ساری دنیا کو علم ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان خفیہ رابطہ ہے جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے ایجنڈے کو ناکام کرنا ہے تا کہ ملک میں جمہوریت نشو نما پا سکے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے زیادہ پی پی پی کو نواز حکومت بچانے کی فکر دامن گیر ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ مفاہمتی سیاست کی روح جمہوری نظام کے تسلسل میں ہے چاہے اس کے نتیجے میں حکمران جماعت ملک کو لوٹ کر کھا جائے۔اس طرح کی سوچ ملک کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے ۔ جمہوریت کا تسلسل سب کی خواہش ہے لیکن اس کے معنی کہیں پر بھی یہ نہیں ہیں کہ حکمرانوں کو احتساب سے ماورا قرار دے دیا جائے۔
اس بات میں شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کہ پاناما لیکس میں سیاست دانوں نے لوٹ مار کے عالمی ریکارڈ قائم کئے ہیں لیکں سوائے ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے کوئی جماعت بھی اس موضوع پر سنجیدہ سیاست کی حامی نہیں ہے۔تمام جماعتیں اس مسئلے کو باہمی رضا مندی سے دفن کرنا چاہتی ہے کیونکہ اس میں اس کے گناہوں کے طشت از بام ہو جانے کا خطرہ موجود ہے۔جماعت اسلامی کبھی کبھی جوش میں آ کر لانگ مارچ اور احتجاج کی روش اپناتی ہے لیکن اس کی آواز بہت کمزور ہو چکی ہے۔یہ مولانا ابو الاعلی مودودی والی جماعت اسلامی نہیں رہی جس کے ایک اشارے پر فدائین اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیا کرتے تھے۔
پی این اے تحریک کے دوران مجھے ذاتی طور مال روڈ لاہور پر جماعت اسلامی کے ان کارکنوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جھنوں نے اپنے قائد کے ایک حکم پر اپنے جانیں نچھاور کر دی تھیں۔جماعت اسلامی کی قربانیاں ہی پی این اے تحریک کی کامیابی کی ضمانت تھیں۔ اب جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا کارڈ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے ہاتھوں میں ہے لیکن افسوس وہ مطللوبہ نتائج دینے میں ناکام نظر آ رہے ہیںکیونکہ ان کا طریقہ واردات غیر واضح ہے۔پاکستان میں جمہوریت کبھی بھی وجہِ نزاع نہیں رہی بلکہ وجہِ نزاع وہ نظام ہے جسے سیاسی جماعتوں نے گود لے رکھا ہے۔۔۔،،،،۔۔۔۔