تحریر : محمد اشفاق راجا وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ تسلیم کروں گا، پْرامید ہوں کہ پانامہ لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں قانون کے مطابق حل ہو گا، پٹیشن کے قابلِ سماعت ہونے پر چاہے شکوک و شبہات ہوں مَیں نے اپنے وکلا کو(اِس ضمن میں) بحث اور سوال کرنے سے روک دیا ہے، مسئلہ حل کرنے کے لئے کئی اقدامات کئے،لیکن کوششیں ناکام رہیں، خود سپریم کورٹ کو کمیشن بنانے کی درخواست کی۔ ایک قانون بھی تجویز کیا اور پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی، لیکن پارلیمانی کمیٹی سے متعلق بھی ہماری کوشش کامیاب نہ ہوئی، ہمارا موقف پہلے ہی دن سے واضح ہے کہ فیصلہ میرٹ پر ہونا چاہئے۔ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آ چکا ہے الزام لگانے والے شرمندہ ہوں گے۔
وزیراعظم نے اِن خیالات کا اظہار وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔دوسری جانب سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ کے روبرو عمران خان نے اپنے ٹی او آر جمع کرا دیئے ہیں، وزیراعظم نواز شریف کا جواب بھی جمع ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اِس سلسلے میں کمیشن کی تشکیل کا اعلان کر دیا ہے تاہم ابھی کسی جج کی باضابطہ نامزدگی نہیں ہوئی، اب جبکہ کیس کی سماعت شروع ہے فریقین کو چاہئے کہ وہ اپنے دلائل اور شواہد کورٹ کے روبرو پیش کریں اور صبر کے ساتھ عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں۔ وزیراعظم نے اپنے وزراء کو کیس کے قانونی پہلوؤں پر بات کرنے سے روک کر ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ بھی لائقِ تحسین ہے کہ وکلا زیر سماعت درخواست کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق دلائل نہ دیں،حالانکہ وکلا کا یہ خیال ہے کہ اِس ضمن میں اْن کے پاس وزنی دلائل ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم کی یہ خواہش ہے کہ اِس کیس کے بارے میں فیصلہ اب عدالت سے ہی ہو اور اْن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِس معاملے کا عدالت سے حل ہونا اْن کے لئے قابلِ اطمینان ہو گا۔
سپریم کورٹ میں اس وقت پانامہ لیکس کے متعلق جو درخواست زیر سماعت ہے اْس میں عمران خان کے ساتھ شیخ رشید اور سراج الحق بھی پٹیشنر ہیں اور ان سب کے وکلا اپنے کیس کے حق میں اپنے دلائل دیں گے فیصلہ انہی دلائل کی روشنی میں ہو گا، اِس لئے بہتر ہو گا کہ درخواست دہندگان اپنے مقدمے کو دلائل کے ہتھیاروں سے مضبوط کریں اور عدالت کے باہر زبان کے ہتھیار کا استعمال کم سے کم کریں اور اِس سلسلے میں سیاسی بیان بازی سے گریز کیا جائے۔عمران خان نے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا جو اعلان کر رکھا تھا وہ اسی بنیاد پر واپس لیا کہ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہو چکی ہے۔انہوں نے اس پر یوم تشکر بھی منایا اور اِس سلسلے میں ہونے والے جلسے میں ایک بار پھر وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر دیا، حالانکہ ایک روز قبل ہی وہ کہہ چکے تھے کہ ہم اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے اِس لئے جا رہے تھے کہ وزیراعظم استعفا دیں یا تلاشی دیں، بقول اْن کے اب چونکہ تلاشی کا عمل شروع ہو چکا ہے اِس لئے وہ لاک ڈاؤن کا پروگرام ختم کرتے ہیں،لیکن یہ منطق عجیب ہے کہ دو مطالبوں میں سے ایک مطالبہ منظور ہونے کے باوجود انہوں نے دوسرا مطالبہ پھر اسی جلسے میں دھرا دیا، جو تلاشی کا مطالبہ منظور ہونے اور پراسیس کا آغاز ہونے پر تشکر کے اظہار کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔
عمران خان کے اِس مطالبے سے کیا یہ سمجھا جائے کہ اظہارِ تشکر تو محض ایک بہانہ تھا لاک ڈاؤن کا پروگرام انہوں نے دیگر عوامل کی بنیاد پر موخر یا ملتوی کیا ہے۔ یہ عوامل ایسے تھے کہ بظاہر وہ شہر بند کرنے کی پوزیشن میں نہیں لگتے تھے اِس لئے انہوں نے پیش بندی کے طور پر یہ ارادہ بدل دیا پھر وہ اگلے ہی سانس میں یہ بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ وزیراعظم استعفا دیں یا نہ دیں اْن کی ”مڈل وکٹ” اِسی ماہ اْڑنے والی ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ جب وکٹ اس مہینے اڑ ہی جانی ہے تو پھر بے صبری کیسی؟ اِس سلسلے میں خان صاحب کے ارشادات سنتے ہوئے قوم کو دو ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
Supreme Court
یاد ہو گا کہ14اگست کو جب وہ تاریخی اور تاریخ ساز دھرنا دینے کے لئے لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تھے تو یہ کہہ کر گئے تھے کہ اب وہ اسلام آباد سے اْسی وقت واپس آئیں گے،جب وہ وزیراعظم سے استعفا لے لیں گے۔اپنا یہ مطالبہ انہوں نے دھرنے کی تقریروں میں کئی بار دہرایا اور کئی بار ڈیڈ لائن بھی دی یہاں تک کہہ گزرے کہ چاہے دھرنے میں ایک سال بیٹھنا پڑے، وہ استعفا لے کر ہی جائیں گے،لیکن جب اْنہیں کھیلن کو یہ چاند نہ ملا تو اْن کے پاس واپسی کی راہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے اپنا یہ مطالبہ برقرار رکھا، حالانکہ 2013ء کے جن انتخابات میں دھاندلی کی بنیاد پر وہ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے اْن کے مطالبے پر بننے والے سپریم کورٹ کے کمیشن نے دھاندلی کے الزامات کو درست تسلیم نہیں کیا اور قرار دیا کہ عدالت کے روبرو ایسے شواہد پیش نہیں کئے گئے جو کافی ہوں اور جن سے منظم دھاندلی کا الزام ثابت ہو سکے۔
دھاندلی کا الزام ثابت نہ ہونے کے بعد اب وہ پانامہ لیکس کا معاملہ لے کر اْٹھے ہیں اور اْن کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس الزام نہیں ثبوت ہیں،لیکن خان صاحب سے معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عدالتی کمیشن اْن کے اس بیان پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گا وہ تو شواہد طلب کرے گا اور جس طرح دھاندلی کے الزامات پہلے کمیشن کے روبرو پیش نہیں کئے جا سکے تھے، اور خان صاحب اپنا مقدمہ ہار گئے تھے، اس طرح اگر اس مرتبہ بھی وہ اس خوش فہمی میں رہے کہ پانامہ لیکس ثبوت ہیں تو خدشہ ہے ان کا حشر پہلے جیسا نہ ہو، اِس لئے بہتر طرز عمل یہ ہے کہ وہ اپنے وکلا کو اس سلسلے میں پوری تیاری کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کریں اور اپنا مقدمہ دلائل و براہین سے ثابت کریں۔ جب وہ کیس ثابت کر دیں گے اور عدالتی کمیشن ان سے اتفاق کر لے گا تو وزیراعظم اپنے اعلان کے مطابق اس فیصلے کو تسلیم کر لیں گے۔
البتہ اگر عمران خان اپنا کیس ثابت نہ کر سکے تو ان کی نہ صرف ساری جدوجہد اکارت جائے گی، بلکہ یہ بھی کہا جائے گا کہ انہوں نے سارا ہنگامہ ثبوتوں کے بغیر کھڑا کر رکھا تھا۔وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ ”سزا خطائے نظر سے پہلے” کے مترادف ہے اگر وزیراعظم نے کوئی جرم ثابت ہوئے بغیر ہی مستعفی ہونا تھا اور عمران خان نے اسی مطالبے پر ڈٹ جانا تھا تو پھر باقی تمام تکلفات کی کیا ضرورت تھی؟ فریقین کے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی توانائیاں مقدمے کو آئین اور قانون کی روشنی میں جیتنے پر صرف کریں۔نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ عدالت اور عدالتی کمیشن پر چھوڑ دیں۔