تحریر: پروفیسر مظہر متحدہ اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے مثبت جواب آنے تک پانامالیکس کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی ٹی اوآرز کمیٹی کا بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے 6 نئے سوال کھڑے کر دیے۔ جواباً حکمران جماعت کے ترجمانوں نے بھی کہہ دیا ”مخالفین خود ہی مدعی اور منصف بن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کے سامنے جھک سکتے ہیں مگر سجدہ ریز نہیں ہو سکتے۔”اپوزیشن کے اجلاس اور بعدازاں پریس کانفرنس سے ایم کیو ایم، قومی وطن پارٹی اور اے این پی غائب رہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بعض معاملات پر اپوزیشن کے اندر بھی اختلاف رائے موجود ہے۔ اب صورت حال یوں بنتی ہے کہ اپوزیشن کے چھ ارکان میں سے تین غائب ہیں جبکہ باقی تین ارکان میں سے پیپلزپارٹی کا نقطہ نظر ابھی تک واضح نہیں، کیونکہ قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ نے تو واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اگر پیپلزپارٹی نے دیکھا کہ جمہوریت ڈی ریل ہونے جا رہی ہے تو پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ جائے گی۔ انھوں نے تو سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ 2014ء کا ڈی چوک اسلام آباد میں دیا جانے والا دھرنا ”پلانٹڈ” تھا۔
ظاہر ہے کہ یہ نقطہ نظر محترم آصف زرداری کا ہی ہو گا کیونکہ سید خورشید شاہ زرداری صاحب کی ہدایات پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اُدھر بلاول زرداری کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے اعتزاز احسن آج کل بہت فعال نظر آتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ عید کے بعد ہونے والے مجوزہ احتجاج میں بلاول زرداری کو عمران خان کے کنٹینر پر چڑھا کر دم لیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر پیپلزپارٹی پورے پاکستان میں اپنی موت آپ مر جائے گی اور پیپلزپارٹی کی جگہ تحریک انصاف کا لینا اظہرمن الشمس۔ چومکھی چالیں چلنے کے ماہر آصف زرداری صاحب کو یہ کسی صورت قبول نہیں ہو گا۔ اسی لیے زرداری صاحب کے قریب ترین ساتھی رحمن ملک نے بھی کہہ دیا کہ احتجاج ہمارا حق ہے لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا کہ احتجاج میں شامل ہوں گے یا نہیں۔ انھوں نے نام لیے بغیر تحریک انصاف کو یہ پیغام دے دیا کہ اپوزیشن میں واضح اکثریت کی وجہ سے ایجی ٹیشن کے اعلان کا حق بھی صرف پیپلزپارٹی کو ہے۔ اپوزیشن کی قیادت کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ رحمن ملک اور سیدخورشید شاہ کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو کسی بھی صورت میں کوئی بھی ایسا احتجاج قبول نہیں جس کی قیادت عمران خان کر رہے ہوں۔ اُدھر عمران خان جو بزعم خویش تحریک انصاف کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سمجھتے ہیں، وہ بھی ناممکن ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت قبول کریں۔
Imran khan
جماعت اسلامی بھی ایک حد تک ہی عمران خان کا ساتھ دے گی اور وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ عمران خان کے دھرنے میں شریک ہو گی نہ جاتی عمرہ کے گھیرائو میں۔ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اب کی بار بھی کپتان صاحب سولوفلائیٹ ہی کریں گے یا پھر زیادہ سے زیادہ انھیں اپنے سیاسی ”کزن” علامہ طاہر القادری کا ساتھ میسر آ جائے گا۔ علامہصاحب کے بارے میں ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ خود نہیں آتے بلکہ بھیجے جاتے ہیں اور ان کا مقصد محض اور محض افراتفری پھیلانا ہوتا ہے۔ وہ اپنے غیرملکی آقائوں کے ایجنڈے پر من و عن عمل کر کے ”اپنے وطن” لوٹ جاتے ہیں۔ 2014ء میں انھوں نے آتے ہی اعلان فرما دیا کہ وہ کینیڈا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر آ گئے ہیں۔
MQI
انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اپنے جوتے اور جرابیں تک بھی سمیٹ کر لے آئے ہیں، اس لیے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ واپس چل جائیں گے۔ ایک عالم دین کی حیثیت سے انھوں نے جو کچھ کہا، لوگوں نے اعتبار کر لیا لیکن پھر چشم فلک نے دیکھا کہ مولانا صاحب کے سارے دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے اور وہ عمران خان کو بیچ منجھدار میں چھوڑ کر اپنے وطن لوٹ گئے۔ شاید اسی لیے اب منہاج القرآن کے ارباب اختیار کہہ رہے ہیں کہ مولانا دو، اڑھائی ماہ تک قیام کریں گے۔ مولانا کا قیام مختصر ہو یا طول لیکن ہمارا ایمان ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں اس بار بھی بری طرح ناکام ہی ہوں گے اور ان کے غیرملکی آقائوں نے جس اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے انھیں افراتفری پھیلانے کے لیے بھیجا ہے وہ راہداری انشااللہ بن کر رہے گی۔
کپتان صاحب کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ وہ محب وطن ہیں لیکن پاکستان کی اقتصادی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی وہی ہیں۔ ان کی سیاست احتجاج سے شروع ہو کر احتجاج پر ہی ختم ہوتی ہے جو ملک و قوم کے لیے زہرِ ہلاہل ہے۔ اگر 2014ء کا دھرنا نہ ہوتا تو شاید اب تک پاکستان اقتصادی طور پر پہلے سے مضبوط تر ہوچکا ہوتا۔ شاید ان کے نہاں خانۂ دل میں کہیں یہ خیال پک رہا ہو کہ اگر نوازلیگ اپنے دعوئوں میں کامیاب ہو گئی تو ان کے مسندِاقتدار تک پہنچنے کے سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔
یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان دشمن طاقتیں غیرمحسوس انداز میں انھیں اس راہ کی طرف دھکیل رہی ہوں جو بربادیوں کی طرف جاتا ہے اور وہ ان کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہوں۔ بہرحال یہ تو ہمیں اب بھی یقین ہے کہ خاں صاحب جانتے بوجھتے ایٹمی پاکستان کی اقتصادی بربادیوں میں کبھی حصہ دار نہیں بنیں گے۔ وہ اوّل تا آخر پاکستانی ہیں لیکن ایسے پاکستانی جنھیں یہ تک خبر نہیں کہ ان کا اُٹھنے والا ہر قدم پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ 2013ء سے اب تک ان کے ہاتھوں ایسا کوئی ایک کام بھی سرانجام نہیں پایاجس میں ملک وقوم کی بہتری مضمر ہو اور نہ مستقبل قریب میں اس کی توقع۔