تحریر : اسلم انجم قریشی کسی بھی جائز مقصد کے لئے نصب العین کا تعین کرنا ضروری ہوتا ہے اور اصولوں پر مبنی قیادت میں اپنی منزل کی جانب بڑھنے والا قافلہ رستے میں نہیں لٹتا بلکہ ہر مقام پر اس کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے لیکن یہاں جو اپوزیشن کا قافلہ جو کہ رستے میں ہی لٹ گیا ۔ دیکھتے ہیں کیوں لٹا۔ گزشتہ روز 17 جنوری کو مال روڈ لاہور میں اپوزیشن کا ایک احتجاج ماڈل ٹائون اور قصور سانحہ کے سلسلے میں منعقد ہوا جس میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اپوزیشن کا یہ قافلہ رواں دواں ہونے کو ہے اور یہ احتجاج ملکی تاریخی احتجاج ہو گا۔ ہوا یہ کہ 17 جنوری کو حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعت جس میں عوامی تحریک ، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی ،عوامی مسلم لیگ اور دیگر جماعت نے قافلے میں شامل ہونے کے لیے شرکت کی ان جماعت کے لیڈروں کی شرکت کس طرح رہی عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا شرکت کرنے والے لیڈران جن کے دلوں کے اندر سو من میل جمع ہو ا تھا بظاہر ایسا لگ رہا تھا۔
اس احتجاج کو بعض لوگوں نے اسے جلسی قراردیا حقیقت میں لوگوں کو یہ ڈر تھا کے یہ احتجاج دھرنے کی شکل اختیار نہ کر جائے مگر ہمیں اندازہ تھا کہ اس اپوزیشن کے پاس بنیادی کوئی ایجنڈا نہیں تھا کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے احتجاج کو اہمیت نہیں دی در اصل عوام نے اس بات کو محسوس کیا تھا کہ یہ جمع ہونے والے لوگ اپنے اندر تضاد رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ عوام نے ان کے طرزعمل سے پہچان لیا اب اِدھر دیکھیں اپوزیشن میں شامل ایک جوشیلہ سرگرم رہنما عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے رہی سہی کسر کچھ اس طرح نکالی کہ اسٹیج پر تشریف لائے مگر جوش خطابت میں ہوش کے ناخن لینا بھول گئے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی پارلیمنٹ جو ایک مقدس ادارہ ہے جس کے متعلق ایسے لقاب دیئے کہ عارضی اپوزیشن کا قافلہ رستے میں ہی لٹ گیا۔ پھر کوئی یہاں گرا اور کوئی وہاں گرا۔ شاعر جمیل ملک کے رستے میں لٹ گیا ہے تو کیا قافلہ تو ہے یارو نئے سفر کا ابھی حوصلہ تو ہے لیکن ایک شاعر انجم اعظمی اپنے شعر میں کہتے ہیں قافلہ لٹتا ہے جس وقت سرراہ گزر ۔اس گھڑی قافلہ سالار کدھر ہوتا ہے۔
اپوزیشن کے اس احتجاج سے نکلنے والے طوفان بدتمیزی نے ایک بھونچال پیدا کردیا جس کے ردعمل میںقومی اسمبلی نے پارلیمنٹ کے بارے میں تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرنے پر تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کیخلاف قرارداد مذمت منظور کرلی وفاقی وزیر بلیغ الرحمن کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان عمران خان اور شیخ رشید کے لاہور میں خطاب کے دوران پارلیمنٹ کیلئے لعنتی اور لعنت جیسے الفاظ کے استعمال پر سخت مذمت کرتا ہے دونوں ارکان اسمبلی نے آئینی اور مقدس ایوان کی عزت اور توقیر قصدا مجروح کرنے کی کوشش کی جس کے نہ صرف یہ خود رکن ہیں بلکہ پارلیمنٹ 20 کروڑ عوام کا نمائندہ ادارہ ہے در حقیقت ان الفاظ کے کہنے سے انہوں نے عوام کی تذلیل کی کوشش کی۔
ایوان اور ارکان کا پختہ یقین ہے پاکستان کا استحکام سربلندی اور ترقی جمہوریت سے وابستہ ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن اور آئین کے عین مطابق ہے جن لوگوں نے پارلیمنٹ کے بارے میں گھٹیا زبان استعمال کی ان کے خلاف تحریک استحقاق لائی جائے اس طرح مختلف ممبران اسمبلی نے اپنے پنے خیالات کا اظہار کیا جس میں مسلم لیگ ضیا کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا کہ آج تک نہیں دیکھا کسی رکن نے پارلیمنٹ پر ہی لعنت بھیجی ہو عمران خان سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے وہ معافی مانگ لیں مسلم لیگ (ن) کے جاوید لطیف نے کہا کہ پارلیمنٹ کو گالیاں دینا ریاست کو گالی دینے کے برابر ہے اور ریاست کو گالی دینے والا غدار ہوتا ہے اپوزیشن کے احتجاج میں شامل اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کرنے والے اس کے حواری زندہ نہیں رہیں گے پارلیمنٹ کو برا سمجھنے والے پاکستان میں سیاست کا حق نہیں عمران خان اور شیخ رشید پارلیمنٹ کو تالا لگا کر آمر کو بلانا چاہتے ہیں ؟ اپنے منہ سے وہ الفاظ بول نہیں سکتا جو کل کہے گئے ہر اس شخص کے منہ میں خاک جو ایسا لفظ ا ستعمال کرتا ہے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ادارے کو گالیاں دینا قابل مذمت ہے جس ایوان کے قائد بننے کی خواہش رکھتے ہیں اس کو گالی دے رہے ہیں عابد علی شیر نے کہا کہ عمران خان نے آپ پر لعنت بھجوائی ہے۔
پارلیمنٹ کے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار کہتے ہیں کہ کوئی کچھ بھی کہے ہم پارلیمنٹ کی عزت کرتے ہیں اور ہمارے لیے پارلیمنٹ ہی سپریم ادارہ ہے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر کوئی رکن اسمبلی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہے تو دراصل وہ خود کو لعن طعن کر رہا ہوتا ہے پارلیمنٹ کے ممبر کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے جس نے بھی پارلیمنٹ پر لعن طعن کی اسے اپنے رویے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے، ایاز امیر اپنے کالم میں لکھتے ہیں مال کے شو کی بات بنی نہیں اس سے بہتر تھا گھر بیٹھے رہتے یہ بات صحیح ہے کہ مال روڈ پر کئے جانے والا عارضی اپوزیشن کا ا حتجاج جس میں جانے کے بجائے اس سے بہتر تھا گھر بیٹھے رہتے دار اصل اپوزیشن نے طریقے کار کو ضائع کردیا ورنہ اپوزیشن تو بقول طاہر القادری کے اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے پر حکومت نہیں گرا سکتے کیوں کے وہ خود ہی رستے میں قافلے کے ساتھ لٹ گئے ایاز امیرجس طرح شیخ الاسلام کے لیے کہتے ہیں ایک دو اور ایسے جلسے ہوں تو ممکنہ احتجاج سے سارا زور نکل جائے۔
اس بات پر سوچا جائے کہ ظلم کے خلاف ظالم کے سوا ہر شخص اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہے مگر سوال یہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا یہ احتجاج بس بس یہی وجہ ہے کہ قیادت میں عدم استحکام کے باعث یہ قافلہ رستے میں ہی لٹ گیا۔ لہذا مستقل بنیادوں پر اپوزیشن کے لئے ایک اصول ضابطے پر قائم و مرتب جیسی راہ استوار کی جائے لیکن شرط یہ ہے کہ ( زبان اخلاق ) یعنی اخلاقیات کی بہتر انداز میں راہ ہموار کی جائے بقول کسی کے عجب کیا ہے ہم ایسے گرم رفتاروں کی ٹھوکر سے زمانے کے بلند و ہمت کا ہموار ہونا بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں ، ان کی عزت تمہاری عزت ہے ان کی ذلت تمہاری ذلت ہے۔ اس کے علاوہ تکبر و غرور کسی کو پسند نہیں ہاں مگر جو یہ کرتا ہے انجام بھی اس کے سامنے ہے۔