تحریر : محمد صدیق پرہار ہمارے لیے اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ لاہور میں اپوزیشن کے جلسے میں کتنی سیاسی پارٹیوں نے شرکت کی۔ہم اس بحث میں بھی نہیں الجھنا چاہتے کہ لاہور میں اپوزیشن کا احتجاجی جلسہ کامیاب تھا یا ناکام۔ ہم اپنے قارئین کواس کشمکش میں بھی نہیں ڈالنا چاہتے کہ اس جلسہ میں کتنے لوگوں نے شرکت کی۔ ہم اس سوال کوبھی ضروری نہیں سمجھتے کہ کرسیاں لوگوں کے مطلوبہ تعداد میں نہ آنے کی وجہ سے خالی رہ گئیں تھیں یاکسی حکمت عملی کے تحت کرسیوں کو خالی رہنے دیا گیا تھا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کاراگ الاپنے والوںنے ، قانون کی حکمرانی کی رٹ لگانے والوں نے اورملک میں آزادی سے سیاست کرنے والوں نے ملک میں جمہوریت اور سیاست کے سب سے بڑے ادارے ،ریاست کے اولین ستون پارلیمنٹ کے بارے میں جن خیالات کااظہارکیاہے یہ ان کے اس ادارے کے بارے میں خبث باطن کااظہارہے یاان کاعزائم کے حصول میںناکامی کی صورت میںمایوسی کااظہاراورناکامی کااعتراف۔اس تحریرمیں اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔لاہورمیں اپوزیشن کے مشترکہ احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کاکہناتھا کہ میںشیخ رشیدکی باتوں سے اتفاق کرتاہوں، ایسی پارلیمنٹ پرواقعی لعنت بھیجتاہوں جومجرم کواپناسربراہ بنائے۔اس سے پہلے شیخ رشیدنے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ پرایک ہزار بار لعنت بھیجی۔شیخ رشیدنے ایک ایک کرکے مختلف سیاستدانوںکانام لے لے کران پرالگ الگ لعنت بھیجی۔ یوں شیخ رشیدنے لعنت کالفظ بارباربولا۔علماء کاکام لوگوںکوغیراخلاقی گفتگو،غیراخلاقی الفاظ اورغیراخلاقی کارناموں سے روکناہوتاہے۔چاہیے تویہ تھا کہ جناب طاہرالقادری عمران خان اورشیخ رشیدکوپارلیمنٹ کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روکتے۔انہوں نے شیخ رشیدکومین آف دی میچ قراردے کراسے شاباش دے ڈالی۔جب ایک عالم دین ایسے الفاظ جوکسی عام مسلمان کے لیے بھی استعمال نہیں کیے جاسکتے وہی الفاظ ملک کے سب سے بڑے جمہوری ادارے کے بارے میں استعمال کرنے والوںکوشاباش دے گا توایسے الفاظ استعمال کرنے والوں کواس بات کااحساس کیسے ہوگا کہ انہوںنے جوکچھ کہا ہے وہ درست بھی ہے یانہیں۔ ہمارامذہب، ہماراقانون ، ہماری اخلاقیات اورہماری روایات اس کی اجازت بھی دیتی ہیںیانہیں ۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرعمران خان نے اپنے بیان کادفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی بات پرقائم ہیں بلکہ مخصوص پس منظرمیںپارلیمنٹ کے لیے لعنت کالفظ بھی چھوٹالفظ ہے۔
اگر کوئی اعتراض کرتاہے تواسے چیلنج کرتاہوں کہ پبلک پول کرالے لوگوںسے پوچھ لے وہ اس پارلیمنٹ کے بارے میںکیاسوچ رکھتے ہیں۔میں دعو ے سے کہتاہوں لوگ میرے ساتھ ہوں گے۔عمران نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ پارلیمنٹ کاکام عوامی مفادات کاتحفظ ہے جب پارلیمنٹ ہی ایک کرپٹ آدمی جوتین ارب روپے کی منی لاڈرنگ اورٹیکس کی عدم ادائیگی وغیرہ میںملوث ہے کوایک سیاسی پارٹی کاسربراہ بنادیتی ہے توپھرایساقانون پارلیمنٹ پرلعنت بھیجنے کاباعث بنتاہے۔عوام ایسی پارلیمنٹ سے متعلق کیاسوچتے ہیں پتہ چل جائے گا۔
گارنٹی سے کہتاہوںعوام کی اکثریت اس کی مذمت کرے گی۔نااہل شخص کوپارٹی صدربنانے بنانے کاقانون پارلیمنٹ پرلعنت ہے۔قومی اسمبلی میں عمران خان اورشیخ رشیدکی پارلیمنٹ کوگالیاں دینے کے خلاف وفاقی وزیرفنی وپیشہ وارانہ تعلیم وتربیت بلیغ الرحمن کی پیش کی گئی مذمتی قراردادکومتفقہ طور پر منظور کر لیاگیا ۔ قرار داد میںکہاگیا کہ ایوان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اورشیخ رشیداحمدکے لاہورجلسہ میں لعنتی اورہزاربارلعنت جیسے الفاظ کاپارلیمان کے لیے استعمال پرسخت ترین الفاظ میںمذمت کرتاہے۔اس طرح انہوںنے اس معززایوان کی عزت وتوقیرکومجروح کرنے کی کوشش کی ہے جس کے وہ خودبھی ممبرزہیں۔پارلیمان بیس کروڑ عوام کانمائندہ ادارہ ہے۔ان الفاظ کے کہنے سے انہوںنے عوام کی تذلیل کی کوشش کی ہے۔جس کی بھرپورمذمت کی جاتی ہے۔قراردادمیں کہاگیا کہ اس ایوان اوراس کے ارکان کوپاکستان کااستحکام اورسربلندی جمہوریت سے وابستہ ہے جوبانی پاکستان کے وژن اورآئین کے مطابق ہے۔قراردادمتفقہ طور پر منظورکرلی گئی۔حکومت اورااپوزیشن جماعتوںنے پارلیمنٹ کوگالیاں دینے پرعمران خان اورشیخ رشیدکے خلاف کارروائی کے لیے قائمہ کمیٹی استحقاق میں طلب کرنے کامطالبہ بھی کردیا۔سمن پروہ قائمہ کمیٹی میں پیش نہ ہوں توگرفتارکرکے کمیٹی میں لایا جائے۔
تاریخ میں اس سے بڑی بے شرمی ،بے حیائی نہیں دیکھی جس تھالی میںکھاتے ہیں اسی میں چھیدکرتے ہیں۔پارلیمنٹ کے تقدس کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنمااعجازحسین جاکھرانی نے کہا کہ فوری طورپرپارلیمنٹ کوگالیاں دینے والوں کے خلاف مشترکہ تحریک استحقاق لائی جائے۔سال دوہزارچودہ میں بھی ہم نے پارلیمنٹ کادفاع کیامگر نواز شریف نے پارلیمنٹ کواہمیت نہیںدی اس لیے یہ نوبت آئی۔پارلیمنٹ کوگالیاں دینے والوں کی مذمت کرتاہوں۔پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنمانے کہا کہ لاہور کے جلسے میں تانگہ پارٹی کے سربراہ نے پارلیمنٹ کوبرابھلاکہا۔اس کی بات کی کوئی اہمیت نہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک پارٹی جس کے یہاں ٣٥یا٣٧ ممبران ہیں اس نے اس کی بات کوسراہااوراس پارلیمنٹ پرلعنت بھیجی۔اگرانہوںنے پارلمینٹ پرلعنت بھیجی تویہ لعنت ان پربھی پڑتی ہے کیونکہ وہ خوداس پارلیمنٹ کاممبرہے۔اس نے اپنے ممبران پربھی لعنت بھیجی ہے وہ خودتویہاں آتے نہیںمراعات ساری لے رہاہے۔اگرپارلیمنٹ نے یاکسی جماعت نے کوئی بل پاس کیا توآپ اس پراعتراض کریںآپ ساری پارلیمنٹ کوبرابھلانہیںکہہ سکتے۔ہماری جماعت نے جمہوریت کے لیے قربانیاںدی ہیں۔محترمہ نے اس پارلیمنٹ کے لیے جان کانذرانہ پیش کیاہے۔ایم کیوایم کے راہنماشیخ صلاح الدین نے کہا کہ عمران خان اورشیخ رشیدنے پارلیمنٹ کے وقارکومجروح کیاہے۔دھرناکے موقع پربھی پارلیمنٹ کوگالیاں دی گئیں۔
گالیوں کانوٹس نہ لیناحکومت کی ناکامی ہے۔غلام احمدبلورنے کہا کہ سب کی عزت اسی پارلیمنٹ سے ہے۔اسی کوگالی دے رہے ہیں جوالفاظ کہے ادانہیںکرسکتے۔جے یوآئی کی شاہدہ اخترعلی کاکہناتھا کہ اس طرح کے الفاظ سے بندہ کے کردارکاپتہ چل جاتاہے۔اعجازالحق نے کہاکہ شیخ رشیدنے اس ایوان کاکھایا،شیخ رشیدپردس سالوں کے لیے پارلیمنٹ آنے پرپابندی عائدکی جائے۔ اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے کہا کہ ہم بھی جلسہ میں تھے قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے خلاف احتجاج تھا۔دوسیشن تھے۔ ہمیںزیادہ احساس ہے پارلیمنٹ کاقصورنہیں ہے اگرکوئی ایسا سوچتاہے تووہ اندھیرے میں ہے اسے سیاست چھوڑدینی چاہیے۔جذبات میںآنے کی ضرورت نہیں ہے۔ملک کی تاریخ بھی ہے۔ اس پارلیمنٹ کے لیے کوڑے کھائے۔پاکستان کوبچانے کا آخری سہاراپارلیمنٹ ہوگی۔پارلیمنٹ کے خلاف بیان پردکھ ہوا۔اپنی ناکامی اورنااہلی کوپارلیمنٹ پرڈال دیتے ہیں۔اس پارلیمنٹ نے صوبوںکواختیارات دیے جوالفاظ بولے گئے وہ الفاظ میںنہیںبول سکتا۔ہراس شخص کے منہ میں خاک جوایسے الفاظ بولتے ہیں۔پارلیمنٹ بالادست ہے۔ہمارے لیڈرتختہ دار پر چڑھے مگرپارلیمنٹ کے خلاف بات نہیں کی۔خواجہ آصف کاکہناتھا کہ گالی دینے کاحق کسی کونہیں ،نہ اس کی اجازت دیں گے۔یہ قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کی کارروائی تھی۔
قومی اسمبلی کے ایک اوراجلاس کی کارروائی یوں ہے کہ قومی اسمبلی کااجلاس شروع ہواتوڈاکٹرعارف علوی نے نکتہ اعتراض پرکہا کہ ایوان میں ہمارے پارٹی چیئرمین پرالزامات لگائے گئے۔یکطرفہ کارروائی چلائی گئی۔حامدالحق نے کہا کہ ہمارے چیئرمین کے خلاف استحقاق کی تحریک کی بات ہورہی ہے۔ہمارے ارکان بات کرناچاہتے ہیں۔ اس طرح ایوان کونہیں چلنے دیں گے۔پیپلزپارٹی کے عبدالستارکیانی نے تحریک انصاف کے احتجاج کوبلا جواز قرار دیا اورکہا کہ پہلے پارلیمنٹ پرلعنت بھیجی گئی اب چیئرکے تقدس کوپامال کیاگیا۔کبھی ایسانہیںہوا۔ یہ وقت بھی آناتھا۔یہ پرائیویٹ ممبرزڈے کی کارروائی چلنے اورہمیں بلزپیش کرنے دیں۔شہریارآفریدی نے کہا کہ یہ ایوان ایک شخص کے لیے توقانون سازی کرسکتاہے۔ ملک کے باقی لوگوںکاخیال کیوںنہیںآرہاہے۔آئین پارلیمنٹ قرآن وسنت کے تابع ہے۔سابق وزیراعظم نے ذرائع آمدن کے معاملے پراسی ایوان میںجھوٹ بولا۔حلف اٹھارکھاتھا منی ٹریل بتانے کی بجائے غلط بیانی کی گئی۔ڈپٹی سپیکرنے متذکرہ رکن کوعدالتی فیصلے پربات کرنے سے روکتے ہوئے کہاکہ متنازعہ بات نہ کی جائے۔جوجماعت پارلیمنٹ کاتقدس پامال کرتی ہے اس پرپابندی لگنی چاہیے۔شہریارآفریدی نے کہا جھوٹے پراللہ کی لعنت ہے۔
اگر کوئی جھوٹ بولے گا،مال چوری کرے گاایک بارنہیں سوبارلعنت ہے ۔ پی پی پی کے رکن عبدالستارکیانی نے کہا کہ اپوزیشن نے فردواحدکے حق میں قانون سازی کی مخالفت کی تھی۔ساری پارلیمنٹ نے ایسی قانون سازی میں ساتھ نہیںدیاتھا۔ساری پارلیمنٹ کوگالیاں کیوں دی جارہی ہیں۔ڈپٹی سپیکرمرتضیٰ جاویدعباسی نے کہا کہ میں رولنگ جاری کرتاہوں جوپارلیمنٹ پرلعنت بھیجتاہے اس پرپوری قوم لعنت بھیجے۔سزاکاقانون بنایاجائے۔پارلیمنٹ کے تقدس کادفاع میری ذمہ داری ہے۔نوازشریف کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کوگالیاں دینے والوں کا عوام الیکشن میں محاسبہ کریں گے۔جمہوریت کی خاطرقربانیاں دی ہیں آئندہ بھی دیں گے۔گالیاںدینے والے کس منہ سے پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔شہبازشریف کاکہناہے کہ نفرت کی بات کرنے والے ہوش کے ناخن لیں۔پارلیمنٹ پرلعنت بھیجنے والوںکامحاسبہ محب وطن عوام کریں گے۔پارلیمنٹ کے احترام کاخیال رکھنا جمہوری قوتوںکی ذمہ داری ہے۔پارلیمنٹ کوگالیاں دینے والے کیوں بیٹھے ہیں استعفے دے دیں۔وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے کہاکہ لعنت بھیجنے والوں پر ہمت ہے توتحریک عدم اعتمادلائیں صوبائی اسمبلی توڑیں۔سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کہتے ہیں ایسی زبان حق رائے دہی پرقدغن کے مترادف ہے۔احسن اقبال نے پارلیمنٹ پرلعنت بھیجناعمران خان کی غیرجمہوری سوچ کی علامت قراردیا۔کیپٹن (ر) صفدرکاکہناتھا کہ غیرت کاتقاضاہے عمران خان دوبارہ اسمبلی نہ آئیں۔ یہ توتھاعمران خان اورشیخ رشیدکے پارلیمنٹ کے بارے میںبولے گئے الفاظ پرسیاستدانوں کاردعمل ۔ اب یہ جانتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں۔مختصرصحیح بخاری کے صفحہ ١٠٥٨ پرہے کہ سیّدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براکہنے والے اورفحش بکنے والے اورلعنت کرنے والے نہیں تھے۔ہم میں سے کسی پرغصہ کے وقت فرماتے تھے اس کوکیاہوگیا ہے اس کی پیشانی خاک آلودہو۔کتاب حقوق وفرائض کے صفحہ ٥٩٣ پرلکھا ہے کہ سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجوشخص اشیائے خوردنی مناسب داموں بیچتا ہے اسے برکت دی جاتی ہے اورجوذخیرہ اندوزی کرتاہے وہ ملعون ہے۔کتاب قانون شریعت کے صفحہ ٣٧٢ پرہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی سواری کے جانورپرلعنت کی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس سے اترجائوہمارے ساتھ میںملعون چیزکولے کرنہ چلو۔
عمران خان اورشیخ رشیدنے پوری پارلیمنٹ پرلعنت بھیجی ہے۔لعنت بھیجنے کاجوجوازانہوں نے بتایا ہے ۔ اس میں پوری پارلیمنٹ شامل نہیں ہے۔ ایسے اراکین اسمبلی بھی ہیں جواس کے ذمہ دارنہیں ہیں۔جب کسی مسلمان پرلعنت بھیجی جائے وہ اس کامستحق ہوتواس پرلعنت برستی ہے اوراگروہ اس کامستحق نہ ہو تو لعنت کرنے والے پرہی لعنت برستی ہے۔دونوں سیاستدانوںنے پارلیمنٹ پرلعنت بھیجی ہے۔ اس ایوان ضرورایسے ممبران بھی ہوںگے جواس لعنت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ سوال تویہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ پرلعنت بھیجنے کاجوجوازبتایا گیا ہے وہ لعنت بھیجنے کاجوازبنتابھی ہے یانہیں۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ بتایاگیا جواز پارلیمنٹ پرلعنت کاجوازنہ بھی بنتاہو۔ اب عمران خان اورشیخ رشیدکوغورکرناچاہیے کہ انہوںنے ایک ہزاربارلعنت کس پربھیجی ہے۔ پارلیمنٹ پریاکسی اورپر ۔ دوسر ا رخ یہ بھی ہے کہ اس وقت ممبران قومی اسمبلی کوپارلیمنٹ کے تقدس کاخیال آیاہواہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیاپارلیمنٹ کاتقدس صرف ایسے الفاظ استعمال کرنے سے ہی پامال ہوتاہے۔جس وقت اسی پارلیمنٹ نے ختم نبوت کے قانون پرڈاکہ ڈالاتھا اورحلف نامہ میں تبدیلی کی تھی کیااس وقت پارلیمنٹ کاتقدس پامال نہیں ہواتھا۔ اراکین اسمبلی کوکبھی بیٹھ کراس بات کاجائزہ بھی لیناچاہیے کہ پارلیمنٹ کی تاریخ میں کب کتنے ایسے مواقع آئے جب پارلیمنٹ کاوقارمجروح ہوا۔جب پارلیمنٹ کاتقدس پامال ہوا۔عوام بھی بات بات پر اورمعمولی معمولی باتوں پرایک دوسرے پرلعنت بھیجتے رہتے ہیں۔والدین معمولی سی غلطیوںپربچوں پرلعنت بھیج دیتے ہیں انہیںلعنتی کہہ کرپکارتے رہتے ہیں۔اس لفظ کااستعمال بے تکلفانہ طورپربھی استعمال ہوتا ہے۔ ہمیں ا س لفظ کواستعمال کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔کوئی غلطی کرے توا س کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔