ایک سال گزرنے کے بعد اپوزیشن کو خیال آیا کہ اُس کے ساتھ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں ”ہَتھ” ہو گیا اِس لیے احتجاج کرنا چاہیے۔ اِس احتجاج کا کم از کم ہمیں تو کوئی مشترکہ ایجنڈا نظر نہیں آیا۔ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر کوئی ”وائٹ پیپر” سامنے آیا نہ یومِ سیاہ کا مقصد البتہ عوام کی شرکت متاثر کُن تھی۔ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں مشترکہ اپوزیشن کے جلسوں میںعوامی شرکت کاسبب اپوزیشن کی حمایت سے زیادہ حکومتی کارکردگی پر نوحہ خوانی تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی بھرپور کوشش کے باوجود عوامی شرکت قابلِ ذکر تھی۔ اگر عوام کو فری ہینڈ دے دیا جاتا تو شاید یہ عوامی شرکت کئی گنا بڑھ جاتی۔ وزیرِاعظم نے متعدد بار اعلان کیا کہ اگر اپوزیشن احتجاج کرنا چاہتی ہے تو وہ کنٹینر دینے کو تیار ہیں۔ حکومت کثیر تعداد میں یہ کنٹینر لائی تو ضرور لیکن سڑکیں بند کرنے کے لیے۔ لاہور میں ہائیکورٹ کے حکم اور دفعہ 144 کا سہارا لے کر حکومت نے جلسے کو روکنے کی اپنے تئیںکوشش تو کی، مگر میاں شہبازشریف نے بھرپور ریلی کی قیادت کی۔
جلسے کے لیے متحدہ اپوزیشن نے اُسی جگہ کا انتخاب کیا جہاں جنوری 2017ء کو مولانا طاہرالقادری کی قیادت میں احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس سے عمران خاں اور آصف زرداری نے بھی خطاب کیا۔ اُس وقت بھی ہائیکورٹ کے حکم پر جلسے جلوسوں پر پابندی تھی لیکن نوازلیگ کی حکومت نے اِس جلسے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ وزیرِاعظم جب 25 جولائی 2019ء کی صبح 2 بجے امریکہ کے ”کامیاب” دورے کے بعد پاکستان تشریف لائے تو ایئرپورٹ پر خاصی تعداد میں تحریکِ انصاف کے رَہنماء اور کارکن موجود تھے جنہوں نے وزیرِاعظم کو ہار پہنائے اور بھنگڑے ڈالے۔ دفعہ 144 تو اُس وقت بھی تھی لیکن یہ چونکہ وزیرِاعظم پاکستان کا استقبال تھا جہاں قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر جلسے جلوسوں کی مکمل پابندی ہے۔ وزیرِاعظم کو یاد ہو گا کہ اُنہوں نے اِسی شاہراہ پر ڈی چوک میں14اگست کو 126 روزہ دھرنا دیا لیکن پھر بھی نوازلیگ کی حکومت نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ اِس دھرنے کے دوران قانون کی کیسے دھجیاں اُڑیں، وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔ اب حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہے۔ اپوزیشن نے یومِ سیاہ کو بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا ہے جبکہ حکومت احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کے آگے بند باندھنے کے لیے تُلی بیٹھی ہے۔ اگر صورتِ حال تصادم تک آن پہنچی تو اِس سے ملک کا بھلا ہو گا نہ قوم کا اور نہ ہی جمہوریت کا۔
یہ محض اتفاق ہے کہ 21 جولائی کوجب وزیرِاعظم نے واشنگٹن میں خطاب کیا تو ہم بھی واشنگٹن ہی میں تھے۔ ہم نے جلسے میں تو شرکت نہیں کی لیکن بھرپور جلسے کی خبریں ہم تک پہنچتی رہیں۔ وزیرِاعظم کے خطاب سے پہلے گلوکار سلمان احمد نے اپنے گانوں سے ماحول گرم کیے رکھا۔ یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ لوگ سلمان احمد کا میوزیکل کنسرٹ دیکھنے آئے یا وزیرِاعظم کا خطاب سننے کیونکہ امریکہ میں موجود پاکستانی بھائی میوزیکل کنسرٹ کے بہت شوقین ہیں۔ وہ تو راحت فتح علی خاں شو میں مہنگی ٹکٹ لے کر بھی ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہو جاتے ہیںلیکن یہاں تو ”مُفتا” تھا اور ہم پاکستانی ”مفتے” کے بہت شوقین۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکومت نے وزیرِاعظم عمران خاں کا بھرپور استقبال کیا اور جتنی بھی گفتگو ہوئی، انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ اِس لحاظ سے وزیرِاعظم کا یہ دورہ انتہائی کامیاب تھا لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کو عزیز رکھتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی زمانے میں اسامہ بِن لادن بھی امریکہ کو بہت عزیز تھا۔ ضیاء الحق کا بھی بھرپور استقبال ہوا کرتا تھا اور پرویز مشرف تو تھا ہی امریکہ کی آنکھ کا تارا۔ وجہ وہ افغان جنگ جو 80 کی دہائی سے شروع ہوئی اور آج بھی جاری ہے۔ امریکہ افغانی طالبان سے مصالحت کرکے افغانستان سے اپنی فوج نکالنا چاہتا ہے جس کے لیے اُسے عمران خاں جیسے شخص کی ضرورت ہے جنہیں کسی زمانے میں ”طالبان خاں” کہا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی دفترِخارجہ پاکستان کو ایفائے عہد کی تلقین کر رہا ہے۔ وہ عہدوپیمان کیا ہیں، کچھ پتہ نہیں۔
حیرت تو اِس بات پر ہے کہ اِس امریکی دورے کے بعد تحریکِ انصاف نے کِس بات پر یومِ تشکر منایا۔ کیا تاریخ کی بدترین دھاندلی پر یا مہنگائی کے عفریت پر؟۔ آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے ڈالر پر یا 85 ہزار روپے تولہ سونے پر۔ بجلی اور گیس کئی گُنا مہنگی ہونے پر یا انسانی پہنچ سے دور ہوتی ادویات پر؟۔ ملازمین کی تنخواہیں 40 فیصد کم ہونے پر یا میڈیا پر بے جا پابندیاں لگنے پر؟۔ 15 روپے کی روٹی اور 20 روپے کا نان ہونے پر یا کفن ٹیکس پر؟۔ اقوامِ عالم میں پاکستانیوں کو چور اور ڈاکو ثابت کرنے کی کوشش پر یا 10 لاکھ لوگوں کے بے روزگار ہونے پر؟۔ گروتھ ریٹ 5.8 سے گِر کر 2.8 تک پہنچنے پر یا کاروباری حضرات کے ”رُل” جانے پر؟۔ آخر تحریکِ انصاف کی حکومت نے ایک سال میں کیا ہی کیا ہے جس پریومِ تشکر منایا جائے۔ ویسے 25 جولائی کو ہی منایا جانے والا یہ یومِ تشکر اِس لحاظ سے تھا بڑا دلچسپ کہ مختلف چوکوں، چوراہوں پر چند لوگ ایک دوسرے کے مُنہ میں لَڈو ٹھونستے نظر آئے اور بیچارے خبر کے بھوکے میڈیا نے اُنہی پر کیمرے فوکس کیے رکھے کہ یومِ سیاہ کی کوریج پر تو مکمل پابندی تھی۔
یومِ تشکر منانے والے خود ٹکڑوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ نوازلیگ کے شدید مخالف اور تحریکِ انصاف کے لیے دِل میں نرم گوشہ رکھنے والے ارشاد بھٹی کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے اندر تین دھڑے، پنجاب حکومت میں پانچ اور خیبر پختونخواہ میں تین بڑے گروہ ہیں۔ اِس کے علاوہ سینٹ میں دو گروپ اور وفاقی کابینہ میں پانچ علیحدہ علیحدہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے والے موجود ہیں۔ قائدِ انقلاب (عمران خاں) اِن کا مقابلہ کروا کر محظوظ ہوتے ہیں۔ اگر ارشاد بھٹی کی یہ بات درست ہے تو پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت آٹھ جماعتی اتحاد کے سہارے صرف چھ، سات ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی ہے۔ اِس کے علاوہ حکومتی وزراء اور مشیروں میں باہمی رابطوں کا بھی فقدان ہے۔ وزیرِاعظم کے واشنگٹن میں خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فوادچودھری نے کہا ”اتنے بڑے فورم پر وزیرِاعظم کو مسلم اُمہ کے مغربی دنیا سے تعلقات پر بھی بات کرنی چاہیے تھی”۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ مریم نواز کو ریلی نکالنے کا حق ہے۔ اُنہیں ٹی وی پر بین نہیں کرنا چاہیے اور سنسرشپ بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جواباََ جَل بھُن کر کباب ہونے والی فردوس عاشق اعوان نے کہا ”فوادچودھری کے ذاتی درد اور مسائل کا آپ کو بھی پتہ ہے۔ وہ اِس وقت پارٹی لائن سے ہٹ کر، عمران خاں کے بیانیے سے ہٹ کر، حکومت کے بیانیے سے ہٹ کر اِس قسم کی گفتگو کیوں کر رہے ہیں، اِس کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟”۔ محرکات کا تو فردوس عاشق کو بھی اچھی طرح سے علم ہے۔
جب ایک منتخب رکنِ اسمبلی سے اطلاعات ونشریات کی وزارت چھین کر غیر منتخب فردوس عاشق کو دے دی جائے گی تو پھر محرکات تو سب پر عیاں ہو جاتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ کہ کپتان کو اطلاعات ونشریات کے لیے ایسے مُنہ پھَٹ لوگوں کی ضرورت ہے جو لگی لپٹی رکھے بغیر جو مُنہ میں آئے، بول دیں۔ فوادچودھری تو پھر بھی گوارا تھاکہ وہ بات کرتے ہوئے غلط ہی سہی مگر دلیل تو پیش کرتا تھا، توجیہہ تو دیتا تھا مگر فردوس عاشق کو سوائے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ بابر ستار نے کہا ”میں نے فردوس عاشق کے مُنہ سے کبھی فہم وفراست والی بات نہیں سنی۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ اُنہیں کیوںلگایا گیا؟”۔ ارشاد بھٹی نے لقمہ دیا ”اِسی وجہ سے”۔ یہ عین حقیقت ہے کہ فردوس عاشق کی باتوں پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیںاور عالم یہ کہ جب فوادچودھری سے میڈیا کورٹس کے بارے میں سوال کیا گیاتو اُنہوں نے کہا کہ ایسی کوئی تجویز نہیں۔ جب اُنہیں بتایا گیا کہ فردوس عاشق نے میڈیا کورٹس کی بات کی ہے تو فوادچودھری نے کہا ”کسی نے فردوس عاشق کے کان میں کہہ دیا ہوگا اور اُس نے آگے بات کر دی”۔ اِس کے باوجود کپتان کی نظروں میں فردوس عاشق اطلاعات ونشریات کے لیے ”سُپرفِٹ” ہے کیونکہ وہ مُنہ پھٹ ہے اور کپتان کو فردوس عاشق اور فیاض چوہان جیسے لوگ مرغوب ہیں۔ صمصام بخاری کو پنجاب میں اطلاعات ونشریات کی وزارت سونپی گئی لیکن دو، تین ماہ میں ہی واپس لے لی گئی۔ وجہ صرف یہ کہ صمصام دھیمے لہجے میں بات کرنے کے عادی ہیں۔ اب یہ وزارت میاں اسلم اقبال کے پاس ہے۔ لہجہ اُن کا بھی نرم ہے، دیکھیں یہ وزارت کتنی دیر چلتی ہے۔ وزیرِاعظم نے امریکی دورے کے بعد فرمایا کہ معاشی بحران سے نکل آئے ہیں جبکہ ڈیفیکٹو وزیرِاعلیٰ پنجاب ڈاکٹر شہبازگِل سے مہنگائی کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُس نے کہا کہ پچھلی حکومتیں 24 ہزار ارب قرضہ چھوڑ گئی ہیں۔ جب اینکر نے کہا کہ اُن سے ایک سال بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے تو جواب ملا ”ایک سال کیا، تین سال بعد بھی یہی جواب دوں گا کہ مہنگائی ہے۔ جو کچھ یہ کر گئے ہیں، اُسے ٹھیک کرنے کے لیے پانچ سے دَس سال لگیں گے”۔ جب یہ عالم ہو تو پھر حکومت کو ”یومِ تشکر” نہیں ”یومِ تفکر” منانا چاہیے۔