اسلام آباد (جیوڈیسک) پاناما دستاویز سے متعلق دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے ایک روز بعد اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں جمعہ کو پہلے احتجاج اور پھر واک آؤٹ کیا۔
ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کا اجلاس جب شروع ہوا تو حزب مخالف کی جماعتوں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسپیکر قومی اسمبلی کے ڈیسک کے سامنے جمع ہو گئے اور ’گو نواز گو‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
جب کہ حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے اسی نوعیت کا احتجاج ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھی کیا گیا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ قومی اسمبلی میں تقریر کرنا چاہتے تھے لیکن اُنھیں موقع نہیں دیا گیا۔
’’میں آج یہاں اعلان کر رہا ہوں، اگلے جمعہ کو میں جلسہ کر رہا ہوں اسلام آباد میں۔۔۔۔ میں نواز شریف سے مطالبہ کروں گا میں ساری قوم سے کہتا ہوں کہ نکلو مطالبہ کرو کہ استعفیٰ دو اور یہ (سلسلہ) رکے گا نہیں تحریک چلتی رہے گی۔۔۔ اگر جے آئی ٹی نواز شریف کے نیچے بننی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا اور وزیراعظم نواز شریف اور اُن بیٹوں حسین اور حسن نواز کو تحقیقاتی عمل میں شامل ہونے کا کہا تھا۔
تاہم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ’جے آئی ٹی‘ بنانی ہے تو وہ ججوں پر مشتمل ہونی چاہیئے۔
’’جے آئی ٹی اگر آپ کو بنانی ہے، تو سپریم کورٹ کے تین بڑے سینیئر ججوں پر بنائی جائے یا ہائی کورٹ کے چاروں چیف جسٹس صاحبا کے اوپر بنائی جائے جس میں دلائل ہوں، جس میں بات کر سکیں جس میں اعتراض کیا جا سکے جس میں آپ کٹہرے میں کھڑے ہو ۔۔۔ یہ ماتحت کیا پوچھیں گے۔‘‘
خورشید شاہ نے وزیراعظمٰ نواز شریف سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔
’’میاں صاحب ایک وقت تھا ہم نے آپ سے کہا تھا کہ استعفی نا دیں۔۔۔ آج ایک وقت ہے ہم نے آپ سے کہا ہے کہ استعفیٰ دو اداروں کو بچاؤ ہماری جمہوریت کو بچاؤ ہماری پارلیمنٹ کو بچاؤ۔‘‘
مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ اُن کے بقول کسی طور درست نہیں۔
’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر کل کے دن میاں نواز شریف صاحب کوسرخرو کیا ہے اور ان کو فتح دی ہے اور آئندہ بھی جو کارروائی ہو گی اس میں بھی ان لوگوں کو شکست ہو گی اور نواز شریف صاحب اور ان کی ٹیم کو جو پورے پاکستان میں ہے ان کو اللہ تعالیٰ فتح دیں گے۔‘
اُدھر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور ملک کے سابق صدر آصف زداری نے جھنگ میں ایک جلسے سے خطاب میں کہا کہ صوبہ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے بھی ایک قرار داد منظور کی ہے، جس میں وزیراعظم کے استعفی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
’’آج سندھ کی اسمبلی میں گو نواز گو کی قرار داد منظور کر دی ہے۔‘‘
تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج کی کال پر اپنے ردعمل میں وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ انتشار کی سیاست کا دور ختم ہونا چاہیئے۔
’’تحریک انصاف اب جو کر رہی ہے وہ مسلم لیگ ن کی ترجیح نہیں ہے ۔۔۔ جو لوگ پاکستان کے اندر بد امنی افرا تفری اور انتشار پھیلانا چاہتے تھے وہ ناکام ہوئے ہیں ابھی پھر انھوں نے اس طرح کے اعلانات کیے ہیں جس کی وجہ سے ایک افراتفری وہ پھیلانا چاہتے ہیں لیکن اس کا جواب جیسے میں نے پہلے کہا کہ چار دن پہلے چکوال کے الیکشن میں عوام دے چکی ہے اور اس قسم کی سیاست کو بھی مسترد کر چکی ہے ہم تمام پولیٹیکل پارٹیز کو اکٹھا ہو کر یہ جو ایک جارحیت اور انتشار کی گفتگو ہے اس کو اب ختم کرنا چاہیئے۔‘‘
عدالت عظمٰی کے فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل میں اضافہ ہوا ہے اور پارلیمان میں حزب مخالف کی بیشتر جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔