اب تو اپوزیشن بھی ایک پیج پر ہو گئی

Opposition

Opposition

تحریر : میر افسر امان

عمران خان نے اپوزیش کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر سیاست میں بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کر دیا۔ اپوزیشن نے حکومت سے درخواست کی افغانستان کے بارے ہمیں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔جس کو حکومت نے مانا اور اس کا انتظام کیا۔ بلاول زرداری نے عمران خان کے بریفنیگ میں شامل نہ ہونے پر تنقید کی۔ وزیر اطلاہات فواد چوہدری نے کہا کہ لیڈر آف اپوزیشن شہباز شریف نے دھمکی دی تھی کہ عمران خان شریک ہوئے تو میں شریک نہیں ہونگا۔خیر عمران خان تو پہلے ہی آئی ایس آئی کے ہیڈ کواٹر میں افغانستان پر تفصیلی بریفنیگ لے چکے ہیں۔ اپوزیشن نے دیکھا کہ پہلے کہ عمران خان نے پاکستان کی تاریخ میں پہلے دفعہ دوست نما دشمن امریکا کو اڈے مانگنے پر نہ دینے کا صاف اعلان کر کے پاکستان ، مسلم دنیا اور جمہوری ملکوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ اس سے قبل بھی ہمارے سپہ سالار اور وزیر اعظم نے کہا تھا۔ اب پاکستان فوج کی کسی پرائی جنگ میںشریک نہیں ہو گی۔

پاکستان نے دہشت گردی کو روکنے کے لیے جتنی قربانیاں دی ہیں ۔دنیا میں کسی بھی ملک نے اتنی نہیں دیں۔ اب ہمیں ڈور مور نہ کہا جائے۔ بلکہ دنیا ڈو مور کرے۔اس سے پاکستان اور مسلم دنیا میں عمران خان کے اس اقدام کو اندر ہی اندر سرایا گیا۔ پاکستان کے اسلام پسند عناصر جس میں سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن پیش پیش تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ امریکا کی جنگ ہے یہ ہماری جنگ نہیں۔یہ امریکا کی طرف سے ہم پر مسلط کی گئی ہے۔اس جنگ نہیں اس سے باہر نکلنا چاہیے۔اپنی عوام سے امریکا کے کہنے پر نہیں لڑنا چاہیے۔ ہر قسم کے فوج اپریشن کے خلاف تھے۔پاکستان میں صرف جماعت اسلامی نے گو امریکا گو کی مہم بھی جاری کی تھی۔ الیکشن سے پہلے امریکا کے سفیر منٹر نے نون لیگ، پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف سے امریکا خلاف مہم نہ چلانے کا عہد لیا تھا۔مولانا فضل الرحمان تو پہلے ہی امریکا سے وزیز اعظم بنانے کی درخواست کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے کیری لوگر بل نامنظور کے لیے پاکستان میں مہم چلائی تھی۔عوام کی طرف سے نامنظوری محضر ناموں کی بوریاں بھر بھر کے اسلام آباد حکمرانوں کے پاس پہنچائی تھیں۔

پاکستانی عوام نے کی تاریخ میں پہلی دفعہ فوج اورحکومت کے ایک پیج پر ہونے پر پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اب تومقتدر حلقوں نے منور حسن کی سوچ اپنا لی۔یہ پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔ عین ممکن ہے امریکا اپنا سخت رد عمل دے گا۔ تو پاکستانی قوم اس کا بھی توڑ کر لے گی۔ان شاء اللہ۔

اپوزیشن نے دیکھا کہ عمران خان پے در پے کامیابیاں حاصل کررہے ہیں۔ عمران خان حکومت کو پہلے دن سے ہی ٹف ٹائم دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کوئی بھی ممبر قومی اسمبلی حلف نہیں اُٹھائے گا۔ مگر سب نے مل کر حلف اُٹھا لیا۔مولانافضل ارحمان جب پی ڈی ایم کے سربرابنے تو فوج کو دھمکی دی کہ جیسے امریکی فوج کو افغانستان سے نکالا ہے آپ کو بھی نکالیں گے۔ افغانستان سے توجنگ جو طالبان نے ٢٠ سال کی جد وجہد سے امریکا کو نکالا۔ آپ تو ان کے مخالف رہے ہیں۔ نواز شریف نے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کہ آپ آئین کی دفعہ ٦٢۔٦٣ پر پورے نہیں اترے۔وہ سیاست سے یا حیات نال اہل ہیںمگر عدالت کا فیصلہ نہیں مانا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے اس وقت کے سیکر ٹیری جرنل جہانگیر ر ترین کو بھی ٦٢۔٦٣ پر پورا نہ اترنے پرسیاست سے تاحیات نا اہل قرار دے دیا۔نواز شریف نے پورے ملک میں ریلیاں جلسے جلوس نکالے۔ اپنے ملک کی معزز عدلیہ اور ملک کی حفاظت کرنے والی مایا ناز فوج پر تنقید کی۔پروپیگنڈہ کیا کہ ملک میں مارشل لا لگنے والا ہے۔

اسمبلیوں توڑ دی جائیں گی۔ مگر نہ ملک میں مارشل لا لگا۔ نہ اسمبلیاں توڑی گئیں ۔ بلکہ نواز لیگ کے شاہد خاکان عباسی کو ملک کا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔ سینیٹ کے الیکشن بھی ہوئے ۔ جمہورت چلتی رہی۔ ہاں نا اہل نواز شریف کو نیب عدالت نے کرپشن کے مقدمے میں ثبوت اور منی ٹرائیل نہ پیش کرنے پر گیارا سال کی قید کی سزا سنائی۔ نواز شریف بیماری کا بہا نہ بنا کربھائی شہباز شریف کی ضمانت پر چھ ہفتوں کے لیے انسانی ہمدردی پر عدالت کے فیصلہ پر لندن علاج کے لیے چلا گیا۔ اشتہاری اور مفرور آج تک واپس نہیں آیا۔ جہانگیر ترین نے معزز عدالت کا فیصلہ مان کر شریفانہ طریقے سے ایک طرف ہو گیا۔کسی پر بھی الزام تراشی نہیں کی۔نواز شرف کہتا ہے کہ میں تین مرتبہ ملک کا وزیر اعظم رہا ہوں ۔ مجھے کیوں نکالا۔ ووٹ کوعزت دو۔بھائی پہلے تو آپ کو بقول سراج الحق امیر جماعت اسلامی، آپ کے کرتوتوں کی وجہ سے اللہ نے نکالا۔ آپ کو عدلیہ نے صادق و امین نہ ہونے کی بنیاد پر آئین کی دفعہ ٦٢۔٦٣ پر نا اہل قرار دیا۔ آپ کو کرپشن کرنے پر سزا ملی۔چاہے آپ کتنی بار وزیر اعظم رہ چکے ہوں کرپشن کرپشن ہے۔ کرپشن کرنے ہر شخص کو سزا ملی چاہیے اور آپ کو سزا ملی۔

فوج نے افغانستان کے معاملے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو اعتماد میں لیا۔ فوج نے کہا کہ امریکا سی پیک کی وجہ سے ناراض ہے۔ امریکا کے جانے سے طالبان افغان

حکومت پر قبضہ کی کوشش کریںگے ۔ اس سے خانہ جنگی کا امکان ہے۔ تاہم پاکستان، چین، روس، ایران چاہتے ہیں کہ افغانستان میں خانہ جنگی یا جغرافیائی تقسیم نہ ہو۔طالبان سے ہماری کوئی لڑائی نہیں۔ ان پرہمارا کوئی دبائو بھی نہیں۔ افغان طالبان کی فیملیز عرصہ سے پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کے دو سو مدارس ہیں۔ ٹی ٹی پی اور پاکستان دشمن مہاجرین کی شکل میں آ سکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشت گردوں کے چھ ہزار سے زاہد لوگ موجود ہیں۔ داعش کے دو تین ہزار بھی ہیں۔ نیٹو کے سات ہزار اور امریکا کے پندرہ سو فوجی موجود ہیں۔بھار ت کا طالبان سے ابھی تک برائے راست رابطہ نہیں ہوا۔ اسپیکر اسد قیصر کے کہنے پر سپہ سالار نے کہا کہ کشمیر میں بریفنگ بعد میں کسی وقت کریں گے۔

مشاہد حسین نے کہا کہ اپوزیشن خاص کر نون لیگ پر ہاتھ ہولا رکھیں۔ سپہ سالا نے مسکرا کر کہا فوادچودھری ساتھ کھڑے ہیں ۔ کھانے کی میز رانا ثنااللہ اوررانا تنویر بھی آ گئے۔ سپہ سارلانے کہا کہ میری بیوی راجپوت ہے۔ میرے چھوٹے بیٹے کی منگنی پشتون خاندان میں ہوئی ہے۔فوج میں ٤٠ فی صد پشتون ہیں۔شرکابریفینگ کے دوران ڈسک بجاتے رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف،بلاول زرداری سمیت الگ الگ بھی آرمی چیف سے ملے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ پانچ سے سات لاکھ مہاجرین پاکستان آنے کی توقع ہے۔ اس دفعہ انہیں ایران کی طرح سرحد کے قریب کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ پاکستان افغانستان میں کسی بھی دھڑے کی حمایت نہیں کرتا۔ افغان عوام کی مرضی سے جو بھی حکومت بنے گی وہ پاکستان کو منظورہو گی۔افغانستان پر حملے کرنے کے لیے امریکا کو کسی بھی قسم کے اڈے نہیں دیے جائیں گے۔

محسن دوڑ نے سپہ سار سے کہا فوج کو سیاست میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ سپہ سالار نے جواب دیا اگر فوج جانب دار ہوتی تو آپ انتخابات میں جیت کر کیسے آتے؟بلاول زرداری نے درخواست کی کہ علی وزیر کو معاف کر دیں۔ آرمی چیف نے جواب میں کہا کہ علی وزیر کو پہلے معافی مانگنا چاہیے۔ کسی صورت بھی فوج پر تنقید برداشت نہیں کی جائے گی۔نواز شریف اور ایاز صادق نے مجھ پر تنقید کی۔ہم نے برداشت کیا۔ مگر فوج پر تنقید برداشت نہیں کی جائے گی۔سپہ سار قمر جاوید باجوہ نے خود سوالوں کے جواب دیے۔ پہلا سوال مشاہد حسین،دوسرا شہباز شریف، تیسرا بلاول زرداری نے اور چھوتھا شاہ محمود قریشی نے کیا۔ اپوزشن نے بریفنگ پر اطمینان کااظہار کیا۔حکومتی سپوک پرسن شہباز گل کے مطابق بلاول اس نازک موقعہ پر امریکا اپنی ہمدردیاں پیش کرنے کے لیے جارہے ہیں۔

پی پی کو حکومت میں لائیں ہم آپ سے تعاون کریں گے۔ یہ کوئی بات نہیں زرداری امریکا سے معاہدہ کر صدر بنے۔ امریکا کی جنگ کو کہا یہ ہماری جنگ ہے۔سلالہ میں ہمارے فوجیوں کی شہادت پر نیٹو سپلائی بند کی گئی توخیبر پختونخواہ میں پیپلز پارٹی اور ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی نے نیٹو بحال کرنے کی مدد کی۔ زرداری نے امریکا سے کہا کہ فوج سے ہماری جان چھڑائیں ہم ایٹمی پرگرام کو سیز کر دیں گے۔ ڈراون حملوں سے امریکا پریشان ہو تا ہے ہم کوتو کوئی فکر نہیں۔ زرداری کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی امریکا سے کہہ چکے کہ آپ ڈراون حملے کرتے رہیں ہم پارلیمنٹ میں شور مچاتے رہیں گے۔ زرداری نے امریکا کے کہنے پر بیان دیا تھا کہ بھارت کے ساتھ کہ مغربی سرحد محفوظ ہے۔ افغانستان کے ساتھ مشرقی سرحد کی فکر ہے۔ ایک لمبی داستان ہے کس کس کو بیان کیا جائے۔ نواز شریف بھی امریکا کے پرانے مطالبے کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔کہ بھارت کوبڑا مان کر رہا جائے۔ اس سے تجارت کی جائے۔ کشمیر کے مسئلہ کو ایک طرف رکھ دیا جائے۔

بحر حال عمران خان کی کامیاب سیاست اور پہلے سے بہتر فارن پالیسیوں کی وجہ سے اپوزیشن کو بھی گھٹنے ٹیکھنے پڑے۔پاکستانی عوام کو اس بات کی خوشی ہے۔ اب پاکستان کی اپوزشن بھی حکومت کی طرح فوج سے ایک پیج پر آ گئی ہے۔یہ پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔اللہ مثل مدینہ مملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان