تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ قائد اعظم ایک سچے اور کھرے مسلمان تھے۔ انہوں نے برصغیر کے اندر رہنے والی مردہ اور بکھری ہوئی مسلم قومیت کو اسلام کے آفاقی پیغام کی دعوت دیکر ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا تھا اور اسلام کے نام پر دنیا کی آبادی کے لحاظ چھٹی اور مسلمان ملکوں میں سب سے پہلی اسلامی ریاست حاصل کی تھی۔ اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے اسلام کے نام پر لاکھوں بے گناہ لوگوں نے قربانی دی گھر بار چھوڑے خوشی خوشی مال اسباب کا نقصان برداشت کیا اور عزتیں لٹائیں۔اس نئی قائم ہونے والی اسلامی ریاست کے منشور کو بیان کرتے ہوئے قائد محترم نے دنیا پر واضع کیا تھا کہ یہ ریاست مثل مدینہ اسلام کی فلاحی ریاست ہو گی ۔جس میں ایک شہری کے لحاظ سے سب کے برابر کے حقوق ہونگے۔ قائد اعظم نے ١١ اگست ١٩٤٧ء کی تقریر میں واضع کیا تھا کہ اسلامی فلاحی ریاست میںسب کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی کھلی اجازت ہو گی۔ ایک موقعہ پر لوگوں کے سوالوں کے جواب میں جہاں تک کہا تھا کہ میں کون ہوتا ہوں مثل مدینہ فلاحی ریاستِ پاکستان کے قانون بنانے والا اس کا قانون تو ہمارے پیارے پیغمبرۖ نے آج سے تیرہ سو سال پہلے بنا دیا تھا۔ بس ہم نے اس پر عمل کرنا ہے۔ قائد اعظم کے ان بیانات کو سامنے رکھ دیکھاجائے توکہاں مثل مدینہ اسلامی فلاحی ریاست جس میں اسلام کے قوانین جاری وساری ہونے تھے اور کہاں اس زمانے کے مغرب کے وضع کردہ سیکولر حکومتوں کے قانون جس کے لیے سیکولر حضرات ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں؟ جس میں قانون انسانوں کی مرضی سے بنتے ہیں نہ کہ اللہ کے حکم کے مطابق۔اے کاش! کہ قائد اعظم کچھ مدت ا ور زندہ رہتے اور اپنے ارادوں پر عمل کر کے پاکستان کو مثل مدینہ اسلامی فلاحی ریاست بناتے مگر اللہ کی مشیعت کے تحت اللہ نے قائد اعظم کو واپس بلا لیا اور قائد اعظم پاکستان کو اسلامی ریاست نہ بنا سکے۔
لیاقت علی خان مرحوم کے بعد اقتدار کی جنگ میں آئے روز پاکستان کے حکمران بدلتے رہے اور اس تبدیلی پر پاکستان کے ازلی دشمن نہرو نے فقرہ چشت کیا تھا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں حکمران بدلتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس خرابی پرتجزیہ کرتے ہوئے ہم اس سے قبل آزادیِ پاکستان کے سلسلے کے اپنے پچھلے چار کالموں میں پاکستانیوںکے سامنے یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ انگریزوں نے برصغیر کا اقتدار مسلمانوں حکمرانوں سے حاصل کیا تھا اس لیے انگریزوں نے مسلمانوں کر دبا کے رکھا اور ہندوئوں کو خوب ترقی دی اور بلا آخر جب انگریز بر صغیر سے واپس جانے پر مجبور ہوئے تواس وقت کہا جاتا تھا کہ ہندوستان میں صرف دو ہی قوتیں ہیں ایک گانگریس اور دوسرے انگریز۔ اس کے علاوہ اور کوئی قوت نہیں۔ قائد اعظم نے انتھک کوششیں کر کے دو قومی نظریہ کے بنیاد پریہ ثابت کیا تھا کہ ہندوستاں میں ایک تیسری قوت ٩ کروڑمسلمان کی بھی ہے۔
ہندوستان کے وائسرائے مسلم دشمنی میں آزادی ِہندوستان کی میٹنگوں میں صرف گانگریس کے لیڈوروں کو بلایا کرتے تھے۔ جب قائد اعظمنے مسلمانوں کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے ایک قوت بنایا اور اس کا مظاہرہ بھی دیکھایا تو وائسرائے نے پہلی دفعہ قائڈ اعظم کو بھی آزادی کی میٹنگ میں بلایا تو ہندوکانگریسی لیڈروں کو انتہائی ناخوش گوار گزا تھا۔ اس کاتذکرا قائداعظم نے ١٩٤٠ء میں منٹو پارک لاہور کے اجلاس میں مسلمانوں کی اجتماع میں صدارتی خطاب میں بھی کیا تھا۔ صاحبو!قائد اعظم نے انگریزوں اور ہندوئوں سے کامیاب قانونی جنگ لڑ کر دو قونی نظریہ کی بنیاد پر مثلِ مدینہ ریاست مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان حاصل کی تھی۔ اس میں قائد اعظم کے بیانیہ کے مطابق اسلامی نظام حکومت قائم ہونا تھی۔ مگر مقتدر لوگوں نے انگریزوں اور ہندوئوں کے سیکولر بیانیہ پر رفتہ رفتہ عمل شروع ہوا۔
پہلے ١٩٥٦ء کا مشترکہ آئین کو منسوخ کیا گیا۔پھر ڈکٹیٹر ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ دس سال ملک پر حکومت کی۔ امریکا کی شہ پر مسلمانوں کے عائلی قوانین کو تبدیل کر کے سیکولرزم کو تقویت پہنچائی بلکہ سیکولر امریکا کو گود میں جا بیٹھا۔ سیاست دانوں پر ایبڈو پابندیاں لگائیں۔جب امریکا نے بے جا مطالبے شروع کیے تو اپنی کتاب فرینڈ ناٹ ماسٹر( جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی)میں اپنا شکوہ شکایت اور مدعا بیان کیا۔ ایک وقت آیا اور اس کے خلاف سیاست دانوں نے مہم شروع کی اور اقتدار دوسرے ڈکٹیٹر یخییٰ ٰخان کو منتقل کر گیا۔ یخییٰ خان اور بھٹو کے گھٹ جوڑ سے پاکستان ٹکڑوں میںتقسیم ہو گیا۔ بھٹو پاکستان میںدنیا کا پہلا سولین ڈکٹیٹر بنا۔ قائد اعظم کے اسلامی بیانیہ سے ہٹ کر اپنے آپ کو مغرب کی خوشنودی کے لیے سیکولر اور روشن خیال کہا مگر مغرب پھر بھی اس سے خوش نہ ہوا۔ بھٹو نے پاکستان کی تاریخ میں کئی روشن با بوں کااضافہ بھی کیا ۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ ١٩٧٣ء کا متفقہ اسلامی آئین دیا گو کہ بعد میں اس کا حلیہ بھی بگاڑ دیا اور اس پر عمل بھی نہیں کیا۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ بھٹو پرالیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا۔ پاکستان قومی اتحاد نے نئے الیکشن اور پاکستان میں نظامِ مصطفےٰ کا مطالبہ کیا۔ پھر ڈکٹیٹر ضیا الحق نے بھٹو کو معزول کر کے ملک میںمارشل لگا دیا اور دس سال تک پاکستان پر حکومت کرتا رہا۔ ایک رائے کے مطابق ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی وجہ سے امریکا نے بھٹو کی پھانسی میں مدد کی تھی۔ڈکٹیٹرضیا الحق کے دور میں کچھ اسلامی دفعات منظور کی گئیں۔مگران پر بھی ان کی رواج کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ ڈکٹیٹرضیا الحق کا کارنامہ تھا کہ اس نے افغان جہاد کے دوران امریکا کی مدد سے روس کو شکست دے کر پاکستان توڑنے میں بھارت کی مدد کا بدلہ لے لیا۔ کہا جاتا ہے جہاد کو فروغ دینے کی وجہ سے امریکا نے ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں ضیا الحق کو راستے سے ہٹا دیا۔الیکشن ہوئے اور سیاسی حکومت قائم ہوئی۔نواز شریف نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا۔ پہلے پاکستان کے صدر سے لڑائی مول لی۔ فوج کے سب سپہ سالاروں سے بھی جھگڑا کیا۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے مارشل لا لگا دیا۔ دس سال پاکستان پر حکومت کرتا رہا۔ اپنے آپ کو روش خیال کہا۔ اپنے آپ آئیڈیل اتاترک کو بنایا۔ اس نے بھی قائد اعظم کے اسلامی بیانیہ سے روگردانی کی۔ ملک میں سیکولرازم کو جاری کرنے کی کوشش کی مگر اس کو بھی عوام نے ذلیل کیا اور اقتدارے این اور آر کے ذریعے چھوڑنا پڑا۔پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی زرداری صدر بنے۔
امریکا کی خوشنودی میں پانچ سال مکمل کیے۔ملک کی اسلامی تشخص کو پس پشت ڈالے رکھا ۔ نواز شریف نے ٢٠١٣ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دے کر دو تہائی اکثریت سے حکومت بنائی۔ اس سے قبل دو دفعہ اقتدار میں رہ کر سبق نہیں سیکھا اور پھر فوج سے لڑائی مول لی۔ فوج پر اقتدار سے ہٹانے کے الزام لگائے۔ فوج کے جوابی وار سے شکست کھا کر اپنے سینیٹر کو معزول کیا جسے اب عبوری حکومت میں پھر وزیربنا دیا۔ اس نے بیان دیا کی ٹارزن کی واپسی ہوئی ہے۔ڈان لیکس میں بھی اپنی حکومت کے تین لوگوں کو عہدوں سے ہٹایا۔ اب کچھ کو پھر واپس لے لیا۔اللہ کی قدرت کہ نوز شریف کی فیملی کے پاناما لیکس میں آف شور میں نام آئے۔ ملک میں شور مچا اپوزیشن، خاص کر تحریک انصاف نے گرفت کی۔ عدلیہ کے حکم کے مطابق نواز شریف کی اکثریت والی پارلیمنٹ میں ٹی اورآر نہ بن سکے۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ سپریم کورٹ گئے۔ سپریم کورٹ کے دو ججوں نے نواز شریف کو عوامی عہدے سے نااہل قراردیا۔ تین ججوں نے کہا کہ ساٹھ دن کی مہلت دی جائے ۔جے آئی ٹی بنی اس کی رپورٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو عدلیہ کے پانچ ججوںنے عوامی عہدے سے ناہل قرار دے دیا۔ آئین کے مطابق پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپناعبوری وزیر اعظم چن لیا۔ ملک میں جمہوریت چل رہی ہے انشاء اللہ چلتی رہے گی مگر افراد آتے جاتے رہیں گے۔دانشور کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ نواز شریف نے قائد اعظم کے اسلامی بیانیہ سے روگردانی کرتے ہوئے اعلانیہ خود کو سیکولر کہا۔ مغرب کے کہنے پر رسولۖ اللہ کے جان نسار قادری کو پھانسی چڑایا۔ جبکہ سیکڑوں دوسرے بھی موت کی سزا پانے کے لیے موجود تھے اس وجہ سے نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آئے ہیں۔
سیکولر حضرات کوا نعام سے نوازا۔ سیکولر اور بھارت نوازنجم سیٹھی اور دوسروں کو اپنی حکومت میں عہدے دیے۔سیکولر بھارت کے جارحانہ رویے کے خلاف سے معزرتانہ رویہ رکھا۔ بھارت کے وزیر اعظم کو اپنی نواسی کی شادی میں بغیر ویزے کے لاہور بلایا جس میں بھارت کے خفیہ کا فرد اور بھارت کااسٹیل ٹائیکوں بھی شامل تھا۔پھر اسی اسٹیل ٹائیکون کو اچانگ مری میں اپنی نجلی فیملی میٹنگ میں بلایا جسمیں بھارتی جاسوس گلبھوشن یادیو کے متعلق بھارت وزیر اعظم کی موت کو ختم کرنے کی پیغام کے شک شبحات نے جنم لیا۔مغل شہزادوں جیسے طرز عمل کو ناپسند کیاگیا۔پھر بھی نواز شریف کو سمجھ نہیں آرہا۔ ٹکرائو کی پالیسی ترک کریں اسی میں نواز شریف کی بھلائی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اور اپوزیشن کے مطابق عدلیہ اور فوج کے خلاف پاور شو کی خبط میں مبتلا نواز شریف پہلے سے زیادہ نقصان اُٹھانے کی روش پر چل پڑے ہیں۔ اے کاش کہ نواز شریف سیدھے سادے قائد اعظم کے بیانیہ پرپاکستان کو چلاتے اور اپنی عزت میں اضافہ کرتے ۔ بیرونی سیکولر حضرات پاکستان میں افتراتفری پھیلا اوراپنا کام نکال کر ایک طرف ہو جاتے ہیں ۔مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا اللہ محافظ ہو آمین۔