اپوزیشن جماعتوں اور حکومت میں ٹکراو? روز بروز شدت اختیار کر رہا ہے۔ جمہوری حکومت میں بعض اداروں کے معاملات کو جس طرح ہینڈل کیا جا رہا ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی مداخلت کے رنگ میں ڈھلے نظر آنے لگے ہیں۔ پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے گھر پر دو مرتبہ نیب کا چھاپہ مارنا مضحکہ خیز تماشا بن گیا۔ اس سے قبل سندھ کے سپیکر اسمبلی آغا سراج درانی کے گھر پر چھاپہ مارا جا چکا ہے۔ انہیں اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا تھا، نیز سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو نیب نے جس طرح گرفتار کیا وہ بھی کئی حلقوں کے لیے حیرانی کا سبب بنا تھا۔ حکومت ایک جانب خود کو تمام کارروائیوں سے بری الزمہ قرار دیتی ہے کہ نیب کے معاملات سے موجودہ حکومت کا کوئی واسطہ نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دوسری جانب نیب اپنے اقدامات کو ترجمان کے توسط سے واضح نہیں کرتا کہ چھاپے، گرفتاریاں یا جو بھی ریفرنس ہیں ان پر اٹھائے جانے والے اقدامات کی اصل بنیاد کیا ہے۔ نیب اپنے اقدامات و کارروائیوں کی خود وضاحت کر دیا کرے تو بہت سارے ابہام ختم ہو جائیں۔ ویسے بھی نیب اپنے اقدامات پر ذرائع ابلاغ کو اعتماد میں لینا شروع کر دے تو اس سے خوامخواہ کی بے یقینی کا ماحول بھی ختم جبکہ سیاسی میدان میں پراپیگنڈا کا جواز بھی باقی نہیں رہے گا۔ نیب جو بھی کارروائی کرتا ہے وہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو بہرحال عدالتوں نے ہی کرنا ہے، لیکن جب یہ تاثر حکومت کی جانب سے جائے کہ شریف فیملی اور زرداری پلی بارگیننگ کر لیں تو اس سے بہرحال عجیب تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اب تک تمام تر شکوک و شبہات صرف اسی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ نیب نے حمزہ شہباز کے حوالے سے خاموشی اختیار کی تھی لیکن دوسری جانب حکومتی وزراء اپوزیشن لیڈر پر منی لانڈرنگ، غیر قانونی اثاثوں سمیت مبینہ طور پر کئی ارب غیر قانونی روپے کی مکمل تفصیلات بتا رہے تھے، جس سے سنجیدہ حلقوں میں اچھا تاثر نہیں گیا۔
راقم اس بات کے حق میں ہے کہ احتساب کڑے سے کڑا اور بے رحم ہونا چاہیے۔ ایک روپے سے لیکر ایک ارب یا کھربوں روپے تک قومی خزانے کو لوٹنے والوں کی گردن پکڑ کر ایک ایک پائی نکالنی چاہیے۔ بیورو کریٹ، سیاست دان کسی بھی جماعت کا ہو، اس سے بے پروا ہو کر صرف کرپٹ اشخاص کو ایک ہی بار پوری طرح چھان لیا جائے۔ حکومت کے پاس انویسٹی گیشن ادارے ہیں۔ دنیا کی ماہر ترین ایجنسیاں ہیں۔ عدلیہ کا ایسا مضبوط نظام ہے جو کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج سکتا ہے، زندگی بھر کے لیے سیاسی عمل سے بھی نا اہل کر سکتا ہے۔ تو پھر سمجھ نہیں آتی کہ جب پہاڑ کھودتے ہیں تو اس سے چوہا ہی کیوں نکلتا ہے؟ وائٹ کالر کرائم کا سراغ لگانا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ نظام ایسا ہو کہ کوئی کرپشن کی کوشش کرے بھی تو کر نہ سکے۔ بلاشبہ کرپشن و وائٹ کالر کرائم ایک جدید صنعت کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ادارے موجود ہونے کے باوجود کرپٹ عناصر کا قلع قمع کرنا کبھی کبھار اس لیے بھی ناممکن ہو جاتا ہے کہ بدقسمتی سے اُن اداروں میں بھی کرپٹ عناصر کی بڑی تعداد ہوتی ہے، جو قانون توڑنے والوں کو قانون سے بچنے کے راستے بھی بتاتے ہیں۔ یہ ایک ناسور کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
اس کے علاج کے لیے حکومت کسی کی بھی ہو اگر صرف اس بنیاد پر منتخب ہو کہ مملکت کو کرپٹ عناصر سے نجات دلانی ہے تو یقین کیجئے کہ عوام ترقیاتی کام کی ڈیمانڈ کریں گے نہ مہنگائی کا رونا روئیں گے اور نہ ہی نوکریاں مانگیں گے۔ لیکن عجیب معاملہ یہ ہے کہ یہ علم نہیں ہو رہا کہ اونٹ کی کونسی کل سیدھی ہے۔ موجودہ حکومت کو 8مہینے سے زائد عرصہ ہو گیا ہے۔ احتساب کے نام پر بڑے بڑے ناموں کی گرفتاریاں کی گئیں۔ طویل ترین ریمانڈ پر رکھا گیا۔ بڑے بڑے مالیاتی سکینڈل میں ملوث ہونے کے دعوے کیے گئے لیکن اس کے نتائج کیا برآمد ہوئے؟ اس سے سب بہت اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ہم حکومت کے اس استدلال کو درست مان لیں کہ دباو? بڑھانے کے لیے اپوزیشن جلسے جلوس کر رہی ہے تا کہ حکومت کو بلیک میل کیا جا سکے این آر او لیا جا سکے۔
یہاں تو یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اپوزیشن مہینے میں کوئی ایک جلسہ کرتی ہے لیکن حکومتی وزراء تو دن رات ایک بیانیہ دوہراتے رہتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ان کے الزامات اور کامیاب ہونے کے دعووں کی کتاب لکھتے لکھتے سیاہی ہی ختم ہو گئی ہے۔ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت کہتی ہے، اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے، اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم نے تو کوئی این آر او نہیں مانگا۔ جس نے مانگا اُس کا نام لیں۔ طرفہ تماشا یہ ہو ہے کہ وزیر اعظم سے لیکر کابینہ کے تقریباً سبھی وزراء این آر او لینے کا کہہ رہے ہیں کہ پیسے دے دو ہم چھوڑ دیں گے، کبھی کہتے ہیں نہیں چھوڑیں گے۔ کبھی عدلیہ کو سراہتے ہیں تو ضمانت مل جانے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔
دراصل ریاست کو حکومت پر اعتماد ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اپنے اداروں پر اعتماد نہیں رہا اور مطلوبہ اہداف نہ ملنے کے سبب خلفشار اور ڈپریشن کا اظہار واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی جلسے جلوس شروع کر دیے ہیں۔ ماحول ایسا بن رہا ہے کہ جیسے پھر کسی ”میدان” کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اب یہ انتخابی میدان ہو گا یا پھر اس کی کوئی دوسری شکل۔ لیکن عوام کے دماغ یہ سوچنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ موجودہ نظام سے عوام کو مکمل مایوس کر کے صدارتی نظام لایا جائے گا۔ بالفرض صدارتی نظام لانا ہی ہے تو انہیں چلانے والے فرشتے تو نہیں ہونگے بلکہ یہی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہو گی۔ پارلیمان نظام کئی ممالک میں کامیاب ہے تو صدارتی نظام میں بھی کوئی بُرائی نہیں۔ دنیا اس وقت کئی ایسے نظام ہیں جو کہیں کامیاب ہیں تو کہیں ناکام۔ اصل بات اتنی ہے کہ اس کے چلانے والے اپنی مملکت سے کتنے مخلص اور انہوں نے اپنے اداروں کو کتنا مضبوط کیا ہوا ہے۔ بس جس دن ہم نے بھی اپنے ملک کے اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک اور با اختیار بنا دیا، کسی حکومتی وزیر کو کسی بھی ادارے کا ترجمان بننے کی ضرورت بھی نہیں پڑے۔