تحریر : علی عمران شاہین روئے زمین کے تمام علاقوں اور تمام خطوں میں ہر قوم اور ہر تہذیب و مذہب کے ہاتھوں طرح طرح سے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے مسلمانوں کے زخموں میں سے ایک زخم میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کی انتہائی تکلیف دہ شکل میں تازہ ہو گیا ہے۔ محض چند دنوں میں کرہ ارض کی مظلوم و مجبور ترین مخلوق روہنگیا مسلمانوں کے ہزاروں بچے ،عورتیں اور جوان ذبح کر دیئے گئے اور گھر جلا ڈالے گئے۔ 5لاکھ سے زائد روہنگیا ساحلی دلدلی علاقوں میں مرتے گرتے پڑتے اس بنگلہ دیش میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ان سے میانمار (برما) سے بھی زیادہ برا سلوک ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت عالم اسلام سراپا احتجاج ہے۔لیکن اقوام متحدہ ہو یا دنیا کا کوئی دوسرا انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر بنا ادارہ یا دنیا کی کوئی اور طاقت، انہیں نہ اس قتل عام کی کوئی پروا ہے نہ مسلمانوں کے احتجاج کی،کیونکہ ساری دنیا نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مکمل طور پر ایکا کر رکھا ہے۔
سب اس پر متفق ہیں کہ اسلام کو دنیا سے ختم کیا جائے گا اور ان پر جو کوئی جتنا ظلم ڈھائے گا، کوئی اس پر معمولی آواز نہیں اٹھائے گا۔ تین سال پہلے وسطی افریقی جمہوریہ میں 15لاکھ مسلمانوں کو مار مار کر بھگا دیا گیا،ہزاروں کو زندہ جلایا اور ذبح کیا گیا لیکن اس سب کی کسی کو ہوا تک نہ لگ سکی۔ پھر کانگو میں مساجد کو بلڈوزروں سے مسمار کر کے مسلمانوں کا قتل ہوا، کوئی نہ بولا۔ آج یورپ ہو یا امریکہ، کینیڈا ہو یا آسٹریلیا… خود کو دنیا میں انسانیت و تہذیب و تمدن کے سب سے بڑے علمبردار کہلانے والے ان ملکوں میں ہر روز مسلمانوں پرحملے ہوتے ہیں۔ ان کی مذہبی عبادات روکی جاتی ہیں۔ مساجد پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور ان کی بندش ہوتی ہے۔ جلائو گھیرائو ہوتا ہے لیکن کوئی بات نہیں کرتا۔ براعظم ایشیا کو دیکھ لیں جو آبادی کے لحاظ سے دنیامیں پہلے نمبر پر ہے تو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو برتائو کیا جا رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس بھارت نے ماہ اگست کے وسط میں اعلان کیا کہ وہ اپنے ملک سے ان چند ہزار روہنگیا مسلمانوں کو نکال رہا ہے جو گزشتہ طویل عرصہ کے دوران مسلسل مظالم کی وجہ سے تھوڑے تھوڑے کر کے باقی ساری دنیا کی طرح بھارت میں بھی ہجرت کر کے آئے تھے۔
ان کی سب سے زیادہ تعداد مقبوضہ کشمیر کی طرف آئی تھی کہ انہیں اس بات کا پتہ چلا تھا کہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں مسلمان سب سے زیادہ آباد ہیں۔ سو انہیں ان کے پاس جانا چاہیے۔ ان روہنگیا مسلمانوں کو بھارتی سکیورٹی اداروں نے مقبوضہ جموں سے آگے نہ بڑھنے دیا تو انہوں نے وہیں ڈیرے ڈال دیئے اور معمولی گھاس پھونس کی جھونپڑیوں میں رہائش اختیار کر لی۔ انہیں یہاں آرایس ایس کے ہندو غنڈے کتنی بار ستاتے رہے۔ چند ہفتے پہلے انہوں نے ان کی ایک جھونپڑ بستی مکمل طور پر جلا ڈالی جس میں کئی روہنگیا مظلوم زندہ جل گئے۔ عین اس وقت جب لاکھوں برمی مسلمان خاک و خون میں تڑپ رہے تھے، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے میانمار کا دورہ کیا اور وہاں کی حکومت کے ساتھ کئی یادداشتوں اور معاہدات پر دستخط کئے۔ ساتھ ہی یہ بات دہرائی کہ وہ اپنے ملک سے روہنگیا مسلمانوں کو نکال باہر کریں گے۔ اس عمل سے یہ ثابت ہو گیا کہ ان روہنگیا مسلمانوں کو مروانے، قتل کروانے اور حالیہ خونریزی میں براہ راست بھارت کا ہی ہاتھ ہے، جس کا کوئی نام لینے کو تیار نہیں۔ اس بھارت کی حالت زار یہ ہے کہ بی بی سی جیسے اسلام کے حوالے سے انتہائی متعصب ادارے کو بھی چند دن پہلے لکھنا پڑا کہ بھارت میں اسلام دشمنی کا کارڈ چلتا ہے اور نریندر مودی اسلام دشمنی کو اپنی مقبولیت اور مضبوطی کیلئے ہی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پرمظالم کے بعد مسلم دنیا کے جن ممالک نے کوئی بامعنی آواز اٹھائی تو وہ ترکی، سعودی عرب، ملائشیا اور ننھا منا ملک مالدیپ تھا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے آنگ سان سوچی کو فون کیا۔ بنگلہ دیش کو مہاجرین کیلئے تمام خرچ اٹھانے کا وعدہ دیا اور پھرخاتون اول امینہ رجب طیب اردوان بنگلہ دیش پہنچ گئیں۔ سعودی عرب نے مہاجرین کے تمام اخراجات اٹھانے اور معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کی بات کی۔ ملائشیا نے اپنی سرحدیںکھولنے، امداد روانہ کرنے کا اعلان کیا تو مالدیپ نے ینگون سے تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔ افسوس تو58مسلم ممالک میں سے واحد ایٹمی و میزائل قوت اور سب سے طاقتور فوج رکھنے والے ملک پاکستان کے حکمرانوں پر ہے کہ جو محض قراردادیں پاس کر کے سمجھتے رہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ اسلام سے وفاداری کا حق نمک ادا کر دیا ہے۔ کیسی حیران کن بات ہے کہ دنیا کے سواسو ملکوں میںپاکستان کے سفارتخانے موجود ہی نہیں اور جس میانمار کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں، اس کے ساتھ ہمارا کسی قسم کا کوئی معمولی مفاد تک وابستہ نہیں اور ہم اس میانمار سے اس قدر لرزیدہ ہیں کہ جیسے وہ امریکہ سے بھی کہیں بڑی طاقت کا نام ہے۔ اسلام کا قلعہ کہلانے اور نظریہ بنیاد پر قائم ملک سے اس قسم کے رویے کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی جو مسلسل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اول دن سے سب سے زیادہ پاکستان سے محبت کرنے اردو بولنے والے روہنگیا مسلمانوں کے لئے ہماری حکومت نے معمولی سی امداد تک کا اعلان کرنا گوارہ نہ کیا۔
ان حالات میں مسلم دنیا کو دیکھنا ہو گا کہ کیسے اپنا تحفظ کر سکتی ہے۔ مسلم دنیا میں کسی بھی غیر مسلم کو معمولی گزند پہنچے تو ہر طرف طوفان کھڑا ہو جاتا ہے، اپنے ملک کی مثال ہی دیکھ لیں، یہاں اگر کبھی کسی عیسائی کو معمولی تکلیف پہنچی (اگرچہ اس میں بھی ظلم و زیادتی کا پہلو مسلمانوں کی جانب سے قطعی نہ بھی ہو تھا) توفوری طورپر ویٹی کن سے لے کر واشنگٹن تک ہمارے خلاف میدان سجا دیا جاتا ہے۔ ہم سابق گورنر سلمان تاثیر کو گولیاں مارنے والے ممتاز قادری کو تو پھانسی پر لٹکا سکتے ہیں لیکن جس وجہ سے سلمان تاثیر کے قتل کا واقعہ پیش آیا، اس کی بنیاد یعنی گستاخ خاتون آسیہ مسیح کو ہائیکورٹ سے سزا ہونے کے باوجود ہم سزا نہیں دے سکے بلکہ ممتاز قادری کو سزائے موت دینے والی سپریم کورٹ آسیہ کا مقدمہ ہی سننے پر تیار نہیں۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آسیہ کے دنیا میں دعویدار اور پہرے دار اتنے طاقتور ہیں کہ ہم اس کا فیصلہ کبھی نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے انسانوں میں لاوارث تو صرف مسلمان ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک ایک کر کے باری آ رہی ہے اور جو اس ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والوں کا باہر بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں ان کے دشمن انہیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اگر ہم روہنگیا مسلمانوں کے لئے نہ اٹھے تو ظلم کا یہ سیلاب آگے سے آگے ہی بڑھتا جائے گا۔ ان حالات میں فوری طور پر او آئی سی کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ برما کے ساتھ مسلم دنیا کے تعلقات توڑنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ پر دبائو ڈال کر فوجی و عسکری کارروائی کرنے اور کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی ایک جھوٹی خبر پر عراق میں دس لاکھ سے زائد مسلمان قتل کر سکتے ہیں تو مسلمانوں کو کیا تکلیف ہے کہ وہ دنیا میں کسی ایک مسئلہ پر کبھی نہیں اٹھ سکتے۔ اگر ہم میانمار کے خلاف اس موقع پر بھی اسلام کی بنیاد پر اکٹھے ہو کر سامنے نہ آ سکے تو پھر مسلم دنیا کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح سارا عالم صرف مذہب کی بنیاد پران کے خلاف یکجان و متحد ہے وہ وقت بہت قریب ہے کہ تمہاری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔