تحریر : راشد علی گوتم بدھ 563 قبل مسیح میں پیدا ہوا اسکا اصلی نام گوتم سدھارتھ بتایا جاتاہے اسکی تعلیمات چار بنیادی اچھائیوں کے گرد گھومتی ہیں اول انسانی زندگی اپنی جبلی حیثیت میں دکھوں کا مسکن ہے۔ دوئم اسکی ناخوشی کا سبب انسانی خود غرضی اور خواہش ہے۔ سوم اسکی انفرادی خود غرضی اور خواہش کو ختم کیا جا سکتا ہے اور ایسی کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے جس میں خواہشات اور آرزوئیں فنا ہو جاتی ہیں چہارم اس خود غرضی اور خواہش سے فرار کا ذریعہ آٹھ راست راہیں ہیں یعنی راست نظر راست سوچ راست گوئی راست بازی راست طرزبودوباش راست سعی اور راست ذہن اور راست تفکر اور یہ بات بھی ہے کہ بدھ مت ہر کسی کے لیے اپنی آغوش واکیے ہوئے ہے نہ نسل کا مسئلہ ہے اور نہ ہندوؤں کے برعکس یہاں ذات برادری ہی کچھ اہمیت رکھتی ہے۔
تیسری صدی قبل مسیح میں عظیم ہندوستانی شہنشاہ اشوک نے بدھ مت اختیار کرنے کیا اس کی پشت پناہی کی وجہ سے ہندو ستان بھر میں اور ہندوستان کے باہر بدھ مت کے افکار تیزی سے پھیلے بدھ مت جنوب میں سیلون تک پھیلا اور مشرق میں برما تک جنوبی ایشاء میں اس نے اپنے قدم جمائے اور ملایا تک پھیلا اور پھر آگے علاقے میں سرایت کرتا گیا جسے اب انڈونیشیاء کہا جاتا ہے پھر تبت پہنچا اور پھر آگے شمال کی طرف افغانستان اور وسطی ایشیا تک اس کے پیروکار پھیل گئے ساتھ ہی چین جاپان اور کوریا میں بھی اپنے پیروکار پیدا کئے۔80 سال تک وہ اپنے نظریہ کی آبیاری کرتارہااور اپنی رواداری پر مبنی تعلیمات کی وجہ سے عیسائیوں اورہندئوں کی کثیر تعداد کو متاثر کیا اوراپنے مذہب میں شامل کیا مگر گوتم بدھ کی تعلیمات کے برعکس ر وہنگیا بدھسٹوں نے گزشتہ عشرہ میں انسانی تاریخ کی بدترین نسل کشی کی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کہا جاتا ہے کہ برما میں مسلمان نویں صدی عیسوی میں آئے جب اسلام اپنی آب وتاب کے ساتھ عرب ایشیاء اورچین اوریورپ میں اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا جناب عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے صاحب زادے محمدحنفیہ کے ذریعہ اسلا م کی کرنیں اہل برما کے لیے عافیت ،نجات فلاح وکامیابی کا زینہ ثابت ہو کر جلوہ گر ہوئیں کہا جاتا ہے۔
راکھن جو برما کے زیر قبضہ ریاست اراکان کا حصہ تھا یہ بیس ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی مسلم ریاست تھی جس پر 1778ء میں برمانے قبضہ کرلیا اوربعدازاں اراکان 1824سے لے کر 1947تک برطانیہ کے زیر تسلط رہا انگریزوں کی منافقانہ پالیسی یا مسلم دشمنی کی وجہ سے کشمیر ،حیدرآباد ،جونا گڑھ کی طرح اراکان مسلم اکثریتی خطہ کو بھی خود مختاری نہیں دی گئی اوراسے بدھسٹ برمی حکومت کے رحم وکر م پر چھوڑ دیا گیا بہت سے مسلمان برما حکومت کی ظلم وبریریت کی وجہ سے ہمسایہ مسلم ممالک میں ہجرت کر گئے اورکثیر تعداد ظلم وستم کے سائے تلے زندگی گزار رہی ہے یہ مسلمان اراکان کے قدیم نام روہنگ کی نسبت سے روہنگیا کہلواتے ہیں یہ بڑے محنتی ،وفادار اورخدا کی رضا پر صبروشکر کرنے والے لوگ ہیں فتنہ وفساد اورقتل وغارت کبھی ان کا شیوہ نہیں رہا ،اپنے خدوخال اورجمالی خوبصورتی میں ہندوستانی اورپاکستانی مسلمانوں کے مشابہ ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے بدھ انتہاپسند ریاستی عناصر مع برمی فوج روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔
اس ظلم وستم ،سفاک وبربریت پر دنیا خاموش تماشائی کاکردار ادا کررہی ہے بدھ بھکشواورمگھوں کے ذریعہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی گزشتہ 80سال سے جاری وساری ہے 1941سے لے کر 1951تک 5لاکھ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل اورہزاروں کو موت کی نیند سلادیا گیا ،1962ء میں برمی فوجی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے لیے تمام سرکاری اداروں کے دروازہ بندکر دیے اورجو روہنگیا مسلمان سرکاری اداروں میں نوکریاں کررہے تھے انہیں برخاست کر دیا گیا 1978میں ان کے خلاف ایک فوجی آپریشن کیا گیا اورلاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کردیا گیاہزاروں گھروں کومسمار کردیا گیا1980میں ان پر حج کرنے کی پابندی کے ساتھ ان کی برمی شہریت بھی منسوخ کردی گئی 1991میں ایک اورفوجی اپریشن اورفسادات کے ذریعہ ہزاروں مسلمانوں کو موت کی گھاٹ دیاگیا 2011ء میں برمی حکومت کی جانب سے روہنگ مسلمانوں کو ملک چھوڑنے کی وارننگ جاری کئی گئی اور2012ء فوج کے ہاتھوں 11روہنگ مسلمانوں کے قتل کرنے کی وجہ سے فسادات شروع ہوگئے بدھسٹ انتہاپسندوں نے مسلمانوں کی بسوں ،بستیوں کو آگ لگادی تلواریں ،خنجر،لاٹھیاں اوربندوقیں اٹھائے بدھسٹ بوڑھے جوان مرد عورت جتھوں کی شکل میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے پھر قتل عام کا ایسا سلسلہ شروع کیا گیا جس سے حیوانیت بھی شرماجائے ہزاروں گھر وں کو مسمار ہزاروں کو آگ کی نظر کر دیا گیا 30ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل ہزاروں کو سمندر کی موجوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔
ہزاروں عورتوں کوجنسی حوس کا نشان بنا کر ان کے ٹکڑے ٹکڑ ے کردیے گئے بین الاقوامی دنیا خاموشی سے یہ تماشا دیکھتی رہی اپنے اوربیگانے سب ہی موت کے اس بھیانک کھیل میں لبوں پر سکوت سجائے انسانی آنکھ پر الو کی آنکھ کا خول چڑھائے یوں خاموش تماشائی بنے رہے جیسے برما میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا یہ کھیل ابھی بند نہیں ہوا ہے آئے دن روہنگ مسلم بدھسٹوں کی ظلم وبریت کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں اورہم ہر موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہیں اورپھر خاموش !ایسا کیوں ہے کیا ستاون سے زائد اسلامی ملکو ں کے پاس طارق بن زیاداورعمربن عبدالعزیز جیسا ایک بھی لیڈر نہیں ہے کیا ستاوں سے زائد مسلم ممالک کا پاس طاقت نہیں ہے ،کیا ستاون سے زائد ممالک کے پاس وسائل نہیں ہیں ؟کیا ایسا تونہیں ہے کہ ستاون سے زائد مسلم ممالک اپنی پہچان کھو چکے ہیں ؟جبکہ عرب مسلم آئل وگیس کے ذخائز سے مالا مال ہیں ،ازبکستان ،تاجکستان کرغستان سونے اورالمونیم سے مالا مال ہیں زرعی ذخائر سب سے زیادہ مسلم ممالک کے پاس دنیا کے آٹھ ملک ایٹمی پاور ان میں سے ایک مسلم ملک پاکستان ہے مسلم ممالک کی تنظیم اوآئی سی غیرفعال اوراپاہج اوربانجھ ہوچکی ہے اس کے لیے ان للہ وانا الیہ راجعون ضرور پڑھ لینا چاہیے یہ تمام اسلام کے آفاقی سبق کو بھلاچکے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ زمین پر مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام جاری و ساری ہے۔
اصل کردار ایک اورچہرے مختلف ہیں شیطان اورشیطانیت کے خونی کھیل میں انسانیت ظلم وستم کی آگ میں سسک رہی ہے اگر اب بھی ہم مسلمان نہ جاگے اور دنیا کی مظلوم مسلم اقوام کا دفاع کرنے کے لئے متحد و منظم نہ ہوئے تو پھر انجام مستقبل ہی نہیں، حال کی آنکھ سے ہم دیکھ سکتے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے دشمن تو اپنے ملکوں میں امن و سکون سے رہ رہے ہیں لیکن ہمیں مار بھی پڑ رہی ہے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں ہمیں مروایا بھی جارہا ہے آخر ہم مسلمانوں کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عالم اسلام کے حکمران ہی نہیں عوام بھی خواب غفلت سے اٹھنے کو تیار نہیں ہر کوئی اپنے اپنے حال میں مست ہے ہر طرف ہنوز دلی دور است کی کیفیت ہے تو انجام برما کے مسلمانوں سے کم نہیں ہو گا اس لئے اے امت مسلمہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیے اوراپنے بھائیوں کی مدد کی جیئے یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے روہنگیا مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد بنگلہ دیش میں داخل ہوچکی ہے تقریبا 6لاکھ روہنگیا مسلمان اس وقت بنگلہ دیش میں قیام کیے ہوئے ہیں بنگال حکومت جلدازجلد روہنگیا مسلمانوں کو واپس برما منتقل کرنا چاہتی ہے برمی مسلمانوں کے لیے بنگلہ دیش پرامن ثابت نہیں ہوا یہاں بچوںکو گرداگری اورلاچار عورتیں جنسی حوس کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جارہا ہے یعنی عزتیں نہ برما میں محفوظ تھیں نہ ہی بنگلہ دیش میں میں میڈیا میں نشر ہونے والے متعدد واقعات کی تفصیل بتاسکتا ہوں طوالت کی پیش نظر اشارے پر ہی اکتفا کررہا ہوں دوسری جانب انتہاپسند بھدہسٹوں نے منصوبہ بنایا ہے جیسے ہی روہنگیا مسلمان واپس لوٹیں ان پر حملے حملے کیے جائیں تاکہ ان کے وجود کو ختم کیا جاسکے یہ وہ حقائق ہے جنہیں میڈیا دانستہ عوام کے سامنے نشر نہیں کرتا درجنوں برمی مسلمان آج بھی مختلف طریقے سے موت کے نیند سلائے جارہے ہیں اورمسلم امہ خاموش تماشائی کا کردار اد ا کررہی ہے پوری مسلم امہ کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے صہیونیوں کی سازشوں کی سمجھنے اوران کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔۔جاری ہے