تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب برما کے روہنگیا مسلمانوں پرایک بار پھر قیامت ٹوٹ پڑی ہے،ان پر ڈھائے جانے والے مظالم نے انسانیت کو منہ چھپانے پر مجبور کردیا ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جاری قتل عام کو انسانیت کی تذلیل کہا جائے، شیطنیت یا چنگیزیت،ان مظالم کے سامنے تمام الفاظ و تعبیرات ناکافی نظر آتی ہیں،تو دوسری طرف ترکی اور مالدیپ کو چھوڑ کر مسلم ممالک اور عالمی برداری کی جانب سے ان مظلوموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر بھی بے حسی اور سنگ دلی کی نمایندگی کرنے والا ہر لفظ ہیچ نظر آتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب چنگیزخان بغداد کو تاراج کررہا تھا،تو وہاں کے اہل علم میں جہاد کے فرض عین ہونے،نہ ہونے جیسی لایعنی بحثیں چھڑی ہوئی تھیں۔ایسی ہی کیفیت بالعموم مسلم امہ اور بالخصوص پاکستان کے” دانش وروں” کی بھی نظر آتی ہے۔کوئی کہتا ہے کہ روہنگیا کے قتل عام کا مسئلہ امریکا نے اٹھایا،وہ مسلم دنیا کوچین کے خلاف اکسانا چاہتا ہے،تاکہ چین کی مسلم دنیا بالخصوص ایشیا ء میں مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی پیش رفت کو سبوتاژکیا جائے۔کوئی اس مسئلے کے پیچھے بھارت کے عزائم تلاش کررہا ہے،کسی کا کہنا ہے کہ یہ سب برما کے نام نہاد جہادیوں کے کرتوتوں کا نتیجہ اور ردعمل ہے،کوئی اسے برما کی مسلم قیادت کی کارستانی قرار دے رہا ہے،کہ وہ الگ ریاست کے حصول کی راہ ہم وار کرنے کے لیے اس قسم کے واقعات کو اپنی مظلومیت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں
۔غرض بے وقت کی راگنیاں ہیں،جن کی موجودہ حالات میں قطعی کوئی ضرورت نہیں،اس وقت ضرورت وہاں برپا ظلم وسربریت اور قتل عام کو روکنے کی ہے،وہاں کے لٹے پٹے ،زخمی،بے یارومددگار،جاں بلب لوگوں کی آنکھوں میں موجود زندگی کی مدھم ہوتی امیدوں کو تعبیر دینے کی ہے،لیکن لایعنی بحثوں میں اس اصل مسئلے کی طرف کسی کی توجہ نہیں جارہی،فیا اسفا! یہ وقت بدھ مت کی تعلیمات کے حوالے دینے کا بھی نہیں ،بلکہ ضرورت بدھ مت کے موجودہ پیشواؤں کی سوچ کو پڑھنے اور ان کے عزائم کی راہ روکنے کی ہے،جن کا ببانگ دہل اب بھی یہ اعلان ہے کہ روہنگیامسلمان واجب القتل،ان کی عورتوں کی عصمت ریزی جائز اورزندہ بچ جانے والوں پرعرصہ ٔحیات تنگ کرنا بدھ مت کی تعلیمات پر عمل کی واحد صورت ہے۔ان نام نہادمذہبی پیشواؤں،جن کے منہ کو مسلمان کا خون لگ چکا ہے، پر جنگی جرائم کی عدالت میں مقدمہ چلانا ضروری ہوچکا ہے۔اس قتل عام کے پیچھے برمی حکومت ہے،جس کا سفارتی اور معاشی بائیکاٹ کرکے اس کواپنی اوقات یاد دلانے کی ضرورت ہے،محض مطالبات اور مذمتی بیانات سے اب یہ سلسلہ رکنے والا معلوم نہیں ہوتا۔
جہاں تک عالمی برادری کاتعلق ہے،تواس کا ہر اقدام اس کے اپنے مفادات کے تابع ہوتا ہے،لہٰذااس سے اس سلسلے میں خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔اقوام متحدہ کا وہاں سفارتی مشن بھیجنا اور روہنگیا مسلمانوں کو خطے کی مظلوم ترین اقلیت قرار دینا ہو،امریکا اور دیگر یورپی ومغربی ممالک کے مذمتی بیانات ہوں،عرب لیگ کی قراردادیں ہوں یا اوآئی سی کے اجلاس،سب کے پس پردہ اپنے مقاصد ہیں۔اگر عالمی برادری اس قتل عام اور خون آشام سلسلے کی روک تھام میںمخلص ہوتی توحال ہی میںچین کے شہر” شیامن” میں ہونے والی چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کی تنظیم برکس کی کانفرنس میں روہنگیا میں بدترین مظالم پربھی کوئی بات کی جاتی۔اس بدترین انسانی المیے کو ایجنڈے کا حصہ نہ بنانے سے ہی سمجھا جاسکتا ہے کہ عالمی برادری کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مسلمان مرتا ہے یا جیتا ہے۔بقول شاعر
تم سے امید وفا ہوگی،جسے ہوگی ہمیں تو دیکھنا یہ ہے کہ تو ظالم کہاں تک ہے
روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم کی داستان نئی نہیں ۔یہ قسمت کے مارے بے چارے لوگ کئی بار حکومتی مظالم سے تنگ آکر ہجرت کرچکے ہیں ۔ان کی ایک بڑی تعداد بنگلا دیش اورپاکستان میں موجود ہے۔پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے ان لوگوں کونہ صرف اپنے یہاں آباد کیا ،بلکہ شہریت بھی دی، بے شمار روہنگیا بنگلا دیش اور انڈیا کے راستے پاکستان میں آکر آباد ہوئے، اراکان ہسٹوریکل سوسائٹی کے مطابق اس وقت بھی دو لاکھ سے زائد برمی مسلمان کراچی میں آباد ہیں۔اکستان اور برما کے تعلقات مثالی رہے ہیں،برما کی تجارت کا پاکستان ایک بڑا منبع ہے،پاکستان سے برما کے مسلمانوں کو جذباتی تعلق ہے،تقسیم برصغیر کے وقت بھی ان کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوں،لیکن یہ خواہش بوجوہ پوری نہ ہوسکی۔پاکستان سے یہی جذباتی وابستگی ہے ،جس کی پاداش میںبنگلا دیش کی بھارت نواز حکومت ان مظلوموں کو اپنی سرزمین میں بسانے کے لیے تیار نہیں۔
اب بھی پاکستان پر بڑی ذمے داریاں عاید ہوتی ہیں۔ پاکستان کے چین کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں اور برما کی عملاًحیثیت چین کی کالونی کی سی ہے،اس لیے برادرانہ طور پر چین سے درخواست کی جائے کہ وہ روہنگیا کے قتل عام کا سلسلہ رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے ،اسی طرح ترکی کی طرح پاکستان کو بھی ان مظلوموں کی آبادکاری، بہبود اور بقاکے لیے آگے آنا چاہیے۔یہ خوش آیند امر ہے کہ ملک ریاض سمیت تاجر برادری نے اس حوالے سے اپنی خدمات حکومت کو پیش کردی ہیں،کئی رفاہی ادارے بھی پر عزم ہیں،اگر ہماری حکومت ان مظلوموں کو گود لینے کا اعلان کرے ،توکوئی بعید نہیں کہ ہر پاکستانی اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کردے ،جیساکہ ماضی قریب میں کشمیر اور شمالی علاقوں میں آنے والے قیامت خیز زلزلے میں پاکستانیوں نے اپنے آفت زدہ بھائیوں کی امداد کرکے دور نبوی کی مواخات کی یادیں تازہ کردی تھیں۔ اہل وطن کی غالب اکثریت دینی غیرت وحمیت سے سرشار ہے اور یہ اسی کا اثر ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے،تو اہل وطن بے تاب ہوجاتے ہیں،کہ یہی دینی اخوت کا تقاضا ہے،اقبال نے سچ کہا
اخوت اس کو کہتے ہیں ،چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستاں کا ہر پیر وجواں بے تاب ہوجائے
اسی تناظر میں،برمامیں ”جہاد ”کے لیے نوجوانوں کی جانب سے جہادی تنظیموں کے پاس ناموں کے اندراج کی خبریں پاک فوج کی ذمے داریوں میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔حال ہی میں سفیروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف محترم قمر جاوید باجوہ نے بجا فرمایا ہے: جہاد کا حق ریاست کے پاس رہنا چاہیے۔اس تناظر میں پاک فوج کو برما میں” پرائیویٹ جہاد ”کی راہ روکنے کے لیے تسلی بخش پالیسی وضع کرنی ہوگی،ورنہ نوجوانوں کے گرم لہو کو محض طفل تسلیوں اور دھمکیوں سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ ماضی میں کارگر ثابت ہوئی ہے اور نہ اب ہوسکتی ہے۔