تحریر: محمد قاسم حمدان میرے سامنے فیس بک پر ایک پوسٹ میں دو تصویریں ایک ساتھ لگی ہوئی ہیں ایک تصویر میں ساحل سمندر پر بہت سی مچھلیاں کسی طرح بھٹک کر آ گئی سمندر کی موجیں انھیں باہر پھینک کر واپس پلٹ گئیں یہ ماہی بے آب موت وحیات کی کشمکش میں تھیں ، ساحل پر موجود سیکڑوں لوگوں نے ان کی زندگی بچانے کے لئے انہیں سمندر میں دھکیلنا شروع کر دیا ۔بچے ،عورتیں اور مرد سبھی فکر مند تھے کہ اگر یہ مچھلیاں مر گئی تو شاید حشر میں ان کے نامہ اعمال میں پاپ نہ لکھ دیا جائے ، دوسری تصویر بھی ساحل سمندر کی ہے جہاں ویرانیوں کے مہیب سائے اپنی منحوس پرچھائیوں سے اٹے ہیں ، لہروں کا شور اس بات کا غماز ہے کہ ان کے آنسووں نے سمندر میں جولانی کی کیفیت بپا کر دی ہے۔
اس تصویر میں ایک معصوم برمی بچے کی لاش پڑی ہے اس ننھے کو ماں نہ جانے کیسے وحشی بھکشووں سے بچا لائی تھیمگر سمند ر کی بے رحم موجوں نے اس دکھیاری ممتا سے چھین لیا ۔دنیا کو ان مچھلیوں کی اتنی فکر تھی کہ وہ انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے ۔ہمارے پڑوس ہندوستان میں بی جے پی اور آر ایس ایس والوں نے گائے کی حفاظت کے لئے فورس بنا لی ہے اور یہ گائے اب تک چھ سو لوگوں کوکھا چکی ہے لیکن برما کے مسلمان تو ان جانوروں سے بھی بہت پست وحقیر ہیں جنھیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا جا رہا ہے ۔وہ اس وقت دوسان سوچیوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں جو ان کے لئے چکی کے دو پاٹ بن چکی ہیں ۔اراکانی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ہیں ان کی آب بیتی دلوں کو چیر دیتی ہے ،یہاں ظالموں نے پورے پورے خاندانوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا ہے ۔راکھائین کے علاقے طولا طولی میں میانمار کے فوجیوں نے لوگوں کو دریا کنارے جمع کیا ان میںسے کئی کو موقع پر ہی گولیاں مار کر شہید کر دیا جبکہ کئی ایک جان بچانے کے لئے دریا میں کود گئے لیکن دریا کی لہریں ان کو نگل گئیں ۔
دریا کے پار کھڑے ذاکر احمد یہ تکلیف دہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ ر ہے تھے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے پورے خاندان کو شہید کر دیا گیا او ر جنگلوں میں چھپتے چھپاتے تین دن کے پیدل سفر کے بعد ذاکر احمد بنگلا دیش پہنچا ۔ایسی ہی داستان ولی ،کبیر احمد اور طاہر کی ہے جس کی 55سالہ بیوی رابعہ ،چار جوان بیٹے اور چھ ماہ کی ننھی حسینہ سمیت چھ بیٹیاں اور پوتیاں وحشیانہ طریقے سے شہید کر دی گئیں ۔راکھین کے مسلمانوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس کے تصور سے ہی دل کانپ جاتا ہے ،کلیجہ منہ کو آتا ہے ،آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ پورا عالم اسلام عیدالاضحی کی آمد پر قربانی میں مصروف تھا راکھین میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی ،بے یارو مدد گار انسانوں کی لاشیں جل رہی تھی خواتین کی عصمت دری کر کے ان کی ننگی لاشوں کو درختوں پر لٹکایا جا رہا تھا ۔جوانوں ،بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں کو ایک خندق میں جمع کر کے ان کے اوپر بلڈوزر چلا کر انہیں زندہ دفن کیا جا رہا تھا ۔یہ سب کرنے والے امن کی علامت مہاتما بدھ کے پیروکار ہیں جن کے نزدیک اگر کوئی چیونٹی بھی نا گہانی میں قدموں تلے مسلی جائے تو مہا پاپ ہوتا ہے ۔دنیا پوچھتی ہے امن کے نام نہاد پجاریوں سے ،نوبل پرائز کے اجارہ داروں سے کیا مسلمانوں کی نسل کشی کا نام امن ہے؟ آج ظلم اپنی انتہاوں کو چھو رہا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ،دنیا ہر گز یہ نہ بھولے کہ ہر فرعون کے مقابل اللہ تعالی ایک موسی کو پیدا کرتا ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اقوام متحدہ کو ایک رپورٹ پیش کی گئی اس کے مطابق صرف پانچ دنوں میں 2100قصبے مسلمانوں کے وجود کے ساتھ نذر آتش کر دیے گئے ،رپورٹ کے مطابق 1500عورتوں کی عصمت دری کر کے انہیں فوجیوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ظلم کی ایک بدترین ریت چلائی گئی کہ ظالم درندے مسلمانوں کو مختلف جگہوں سے کاٹتے اور جب خون بہنے لگتا تو ان پر مرچیں ڈالتے جس سے ازیت انتہا کو پہنچ جاتی ہے ۔اس وقت ایک سو کلو میڑ پر آباد سارا علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے ۔ظلم ووحشت کا یہ سلسلہ ج سے نہیں بلکہ 1550سے ہے جب اراکان میں مسلمانوں کی تعداد چار ملین تھی جو اب سکڑ کر گیارہ لاکھ رہ گئی ہے اگر اقوام عالم کا ضمیر یونہی مردہ رہا ،اپنے اپنے مفادات کا اسیر رہا تو وہ وقت دور نہیں جب دنیا سے ان کی نسل ناپید ہو جائے گی۔
دوسری جنگ عظیم میں برمی بدھ جاپان کے حامی تھے جبکہ اراکانی مسلمان برٹش فورسز کے ساتھ تھے ۔اسی طرح 1937میں جب رنگون پورٹ پر اراکانی مسلمان لیبر ایشو پر ہڑتال پر چلے گئے تو انگریزوں نے انہیں دھمکانے کے لئے مقامی برمیوںکوبھرتی کرلیا لیکن اپنی ملازمتیں جاتی دیکھ کر مسلمان کام پر واپس آ گئے ۔برمیوں نے اس موقع پر برما صرف برمیوں کے لئے نامی تحریک کا آغاز کیا اور اس بہانے سے مسلمانوں کا خوب قتل عام کیا۔مارچ 1942سے جون 1942تک تین ماہ میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان شہید کئے گئے ۔1971 سے1978تک متعدد مرتبہ مسلم آبادی والیعلاقے راکھین میںراہبوں نے بھوک ہڑتال کر کے یہ مطالبہ کیا کہ ان مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا جائے ۔جنرل ون جب اقتدار میں آیا تو اس نے مسلم دشمنی کو انتہا پر پہنچایا اس نے 1982میں برمیز نیشنلز لا ء پا س کروایا جس کے تحت اراکانی مسلمانوں کی شہریت یک لخت قلم ختم کر دی گئی ۔فوج میں مسلمانوں کی ملازمت پر پابندی لگا دی گئی۔حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اراکان کے پہاڑ اراکانی مسلمانوں کے علاقے اور برما کے درمیان قدرتی سرحد کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن انگریز نے جیسے ہندوستان کی تقسیم اور کشمیر کے حوالے سے ڈنڈی ماری ایسے ہی اس مسلم اکثریت کے علاقے کو غیر فطری تقسیم سے برما سے نتھی کر دیا ۔1947میں اس علاقے کو پاکستان میں شامل کرانے کے لئے مسلم لیگ کاقیام عمل میں لایا گیا۔ اراکانی وفد نے قاہد اعظم سے ملاقات کرکے موجودہ راکھین کو پاکستان میں شامل کرانیکی درخواست کی لیکن شومئی قسمت سے قاہد کوشش کے باوجود ایسا نہ کر سکے ،اس وقت اراکانی مسلمانوں کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ کہ جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو اراکان کے ہر گھر اور چھونپڑی پر پاکستان کا پرچم لہرانے لگا جیسے آج مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر پر سبز ہلالی پرچم لہرارہا ہے ۔
1971میں جب را اور مکتی با ہنی کی سازش سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو اراکانیوں نے پاک آرمی کے لوگوں اور سویلین پاکستانیوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور یہ ان کے لئے پاکستان پہنچنے کے لئے ایک بہترین بیس کیمپ تھا۔آج حسینہ واجد کا نفرت انگیز کردار برمیوں کی پاکستان سے محبت کا ردعمل ہے ۔پاکستان نے ہمیشہ اراکانی مسلمانوں کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے۔ اس وقت تین لاکھ پچاس ہزار اراکانی پاکستان میں موجود ہیں ۔اراکان میں ظلم وستم کی موجودہ لہر پر پاکستان کا ہر گھر درد میں ڈوبا ہوا ہے ان کے حق میں مظاہرے بھی جاری ہیں لیکن اقوام عالم کی بے حسی نے برمی بھکشووں کے حوصلے بلند کر رکھے ہیں۔ویٹی کن سے پوپ نے مذمت کابیان جاری کیالیکن اس میںوہ کرب اور ہمدردی ناپید تھی جو ایسٹ تیمور،سوڈان میں عیسائی ریاست کے قیام اور بھارت میں راہبوں کے قتل پر نظر آئی ۔عالم اسلام ابھی تک سوچ میں غرق ہے لیکن اگر کسی نے حق ادا کیا تو وہ ترکی ہے ۔ترکی نے بیانات سے آگے بڑھکر ثابت کیا کہ وہ عالم اسلام کے مصاہب کے حل کے لئے مخلص ہیں ۔ہم امینہ اردوان کو سلام پیش کرتے جو اراکانیوںکے کیمپوں تک پہنچی اور ان کے زخموں پر مرحم رکھا۔ صدر رجب طیب اردوان تو روز اول سے اراکانی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔انہوں نے میانمارکے حکام کو متنبہ کیا کہ روہنگیامسلمانوںکے قتل عام پر دنیا خاموش رہے تو بھی ترکی خاموش نہیں رہے گا۔
صدر اردوان نے اپنی جماعت کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میںنے اسلامی تعاون تنظیم کے موجودہ چیئرمین کی حیثیت سے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں تنظیم کے رکن ممالک سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے ۔میں نے اقوام متحدہ کے سیکڑیری جنرل سے بھی رابطہ کیا ہے اور روہنگیامسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو فوری طور پر رکوانے کی اپیل کی ہے۔ صدر اردوان نے کہا کہ روہنگیا مسلمان جغرافیائی طور پر ترک عوام کے دلوں میں بستے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا ماسک پہن کر کی جانے والی اس نسلکشی پر خاموش رہنے والا ہر کوئی اس قتل کا ساجھے دار ہے ۔صدراردوان نے کہاکہ روہنگیا مسلمانوں کی جان بوجھ کر نسل کشی کی جا رہی ہے۔ ایک لاکھ مظلو م ومقہور اور مجبور بے بس انسانوںکے دیہاتوں کونذر آتش کر دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ انسانیت کے احترام کا دعوی کرنے والوں کی نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن افسوس کہ انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں نے اپنے مفادات کی غرض سے چپ سادھ رکھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کی نصف صدی قبل کی چار ملین کی آبادی کو قتل عام اور دباوکی پالیسوں کے ذریعے ایک تہائی تک گرا دئے جانے پر عالم اسلام کی خاموشی ایک دردناک المیہ ہے ۔صدر اردواننن نے ر وہنگیا مسلمانوں کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان مسلمانوں کے تحفظ اور ان مسلمانوں کو دوسرے علاقوں میں بسانے پرجو اخراجات آیئںگے ترکی ان کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہے۔صدر اردوان نے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی آواز کو مضبوط بنانے کے لئے 19ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کا کیس پیش کرنے کا مصمم عزم کیا ہے ۔امید ہے ان کی کاوشیں رنگ لائیں گی اور تمام مسلم ممالک ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کرظلم کو مٹانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔