ظلم و زیادتیاں دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہیں لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہوگا کہ ظلم و زیادتیاں کرنے والے مجرمین سے اظہار ہمدردی کی جائے یا ان کی پذیرائی کی جائے۔لیکن ہمارا ملک جسے وطن عزیز کہا جانا چاہیے،اسی عزیز وطن میں ایسے وحشی بھی بستے ہیں جو ظلم و زیادتیوں پر خوش ہوتے ہیں، ان کی پذیرائی کرتے ہیں، مجرمین سے اظہار ہمدری کی جاتی ہے اور انہیں اس وقت تک تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جب تک کہ تحفظ فراہم کرنے والے خود پوری طرح نہ گھر جائیں۔ہمارے ملک میں گزشتہ چند سالوں میں تقاریر کے ذریعہ بیٹوں کی خوب باتیں کی گئیں۔ ان کے پڑھنے لکھنے کے چرچے ہوئے ،ان کو عزت و وقار فراہم کرنے کے دعوے ہوئے، انہیں سماج میں برابری کا حصہ دلانے کے سہانے خواب دکھائے گئے اور نہ جانیں کیا کیا۔لیکن ہمارے ہی وطن عزیز میں بیٹوں کی عزت و عصمت کو تار تار بھی کیا جاتا ہے،انہیں ذلیل و رسوا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ،ان کے نفس کو ٹھیس پہنچانے میں بھی ہم پیچھے نہیں رہتے،اور ایسے واقعات بے شمار ہیں۔لیکن اگر ان بے شمار واقعات میں اس ہفتہ کے دو مزید واقعات ،انائو اور کٹھوا کے واقعات کوبھی شامل کر لیا جائے توسماج کی بدترین شکل ہمارے سامنے آجا تی ہے۔خصو صاً اس سماج کی جسے اپنی تہذیب و ثقافت پر بڑا ناز ہے۔وہیں اُن دعووں کی بھی پول کھل جاتی ہیں جو درحقیقت کھوکھلے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک جانب دیش کے پردھان بیٹی پڑھائو بیٹی بچائوکے نعرے لگاتے نظر آئیں گے تودوسری جانب ان ہی کے ‘پریوار’کے ممبران بیٹیوں کی عزت و عصمت کو تار تار کرنے سے بھی گریز نہیںکرتے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ جہاں کٹھوا کے واقعہ کے بعد پورا ملک صدمے سے دوچار تھا وہیں ہندو ایکتا منچ نے کٹھوا عصمت دری و قتل کیس کے ایک ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کی رہائی کے حق میں ترنگا ریلی نکالی اور اس میں بی جے پی کے دو لیڈر وں نے شامل ہوتے ہوئے شرم تک محسوس نہیں کی ۔اس سے بھی آگے یہ کہ جب مجرمین کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس پہنچی تو ‘جے شری رام’کے نعرے لگائے گئے۔ایسا کیوں ہوا؟یہ تو وہی جانیں جو اس میں ملوث تھے،لیکن جو ہوا اس نے مزید ان نفرتوں کو اجاگر کردیا جو کسی حد تک دبی ہوئیں تھیں۔
کٹھوا کا واقعہ دراصل جموں کے تحصیل رسانہ گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن آصفہ بانو کا ہے جسے10 جنوری 2018کوپہلے اغواکیا گیا اوربعد میں 17 جنوری2018 کواس کی لاش ہیرا نگر کی جھاڑیوںمیں ملی۔ کرائم برانچ کی دائرکردہ فرد جرم کے مطابق مندر کے اندر ہوس کا شکار ہونے والی آصفہ کا قتل گلا دبانے کے بعدپتھرسے مار کر کیا گیا۔ اورمعاملے کو رفع دفع کرنے کے لئے تفتیشی ٹیم کو ڈیڑھ لاکھ روپئے بطور رشوت دیئے گئے۔ اس جرم میں 18فراد ملوث ہیں جن میں سے ایک وحشی صفت وشال جنگوترا کو میرٹھ سے بلایا گیا ۔ اس مذموم سازش کا سرغنہ محکمہ محصول کا سبکدوش افسر سنجی رام ہے جس نے اپنے بھتیجے سے آصفہ کو اغوا کروایاتھا۔ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا افسر کھجوریاانہیں گرفتار کرنے کے بجائے ان کا شریک کار بن گیا اور قتل سے قبل خود کھجوریا نے اپنا منہ کالا کیا۔ پولس نے زانیوں، قاتلوں، ان کے مددگار افسران اور وکلاء کیخلاف بھی مقدمہ درج کیا ہے۔وہیں دوسری جانب انائو کا واقعہ اس وقت سامنے آیا جب متاثرہ نے خود کشی کرنے کی کوشش کی اور اس کے عوض لڑکی کے والد کو رکن اسمبلی سینگرکے بھائی نے سرعام پیٹا۔اس واقعہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملزم کو گرفتار کیا جاتا، اسے کیفر کردار پہنچایا جاتا، اسے جیل کی ہوا کھلائی جاتی۔لیکن ہوا اس کے برخلاف۔ملزمین کھلے گھومتے رہے اور لڑکی کے باپ کو جیل بھیج دیا گیا۔پھر اُس لاچار باپ پر مزید ظلم توڑے گئے یہاں تک کہ جیل کے اندر اس کی موت ہوگئی۔ان حالات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پردھان کی پردھانی میں ملک کس جانب پیش قدمی کر رہا ہے اور یہاں موجود اقلیتوں،دلتوں ،پسماندہ طبقات، کمزور طبقات ،قبائلی اور عام لوگوں پر کیا کچھ گزررہی ہے۔لیکن اس موقع پر یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا کے اس نظام پر ایک بہت بڑی طاقت کا کنٹرول ہے اور یہی طاقت ایک دن اُن تمام مجرمین سے ان کے جرم اور مظالم کا حساب لینے والی ہے جو آج چہار بڑی بے فکری کے ساتھ زیادتیوں میں مصروف ہیں۔
آج ہندوستان میں دلتوں ،کمزور طبقات اور اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہ واقعات بہت پرانے ہیں۔لیکن بچپن میں ہم سے کسی نے پوچھا کہ ہندوستان میں ہر دن جو مظالم انجام دیے جاتے ہیں اور جو اخبارات کی زینت بھی بنتے ہیں،ایسا کیوں ہے؟ہر دن عصمتیں تار تار ہوتی ہیں،لوگوں کو حقیر سمجھ کے ان کے ساتھ نا انصافیاں کی جاتی ہیں،مظالم کی داستانیں چہار جانب پھیلی ہوئی ہیں،اس کی وجہ کیا ہے ؟تو ہم نے کہا کہ کیونکہ ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے،کروڑوں لوگ یہاں بستے ہیں،مختلف تہذیبیں یہاں پائی جاتی ہیں،ایسے میں چند واقعات کا رونما ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔جب زیادہ لوگ ہوں گے تو چند زیادتیوں کے واقعات بھی سامنے آئیں گے ہی۔لیکن سننے والے نے سنا اور خاموش رہا،غالباً وہ ہماری IQکا امتحان لے رہا تھا ۔لیکن کچھ عرصہ بعد احساس ہوا کہ جواب جو دیا گیا وہ صحیح نہیں تھا بلکہ واقعہ اس کے برخلاف ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ کل یعنی 14اپریل ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کا یوم پیدائش تھا۔ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر 14اپریل 1891ء میں مدھیہ پردیش کے مہو میں پیدا ہوئے۔امبیڈکر کی زندگی جدوجہدسے بھری ہوئی ہے۔اپنے ماں باپ کی چودیں اولاد تھے جوبچپن میں ہی یتیم ہو گئے۔اس وجہ سے ان کی زندگی کے ابتدائی دن بہت دشوار گزار اور غریبی میں گزرے۔تھوڑے بڑے ہوئے تو سماجی سطح پر ذلت ورسوائی اور جلاوطنی کا سامنا ہوا ۔حددرجہ پریشانی کی زندگی گزارنے کے باوجود اِس یتم اور سماجی سطح پر پچھڑے بچے کو کلاس سے باہر بیٹھ کے پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔ڈاکٹرا مبیڈکر جو بچپن ہی سے ذات پات کا شکار تھے،اور جنہیں مسلسل اس سلسلے میں مزاحمت کا سامناکرنا پڑاتھا،تمام دشواریوں کے باوجود انہوں نے ملک اور بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کئی سبجیکٹس میں ایم اے کیا۔یہی وجہ ہے کہ امبیڈکر نے اپنی تقریروں میں معاشرتی سطح پر چھوت چھات کی بیماری اور حد درجہ پست سماجی نظام پر گرفت کی اور لوگوں کو آگاہ کیا۔
اچھوت جو اس زمانے کی بدترین معاشرتی برائی تھی کے خلاف امبیڈکر نے 1927میں19-20مارچ کو ستیہ گرہ کرتے ہوئے مہاراشٹر کے مہاڈ میں تقریباً پندرہ ہزار دلتوں کے ساتھ تالاب میں داخل ہوئے اور دونوں ہاتھوں سے پانی پیا۔اس سے پہلے دلتوں کے لیے اُن مقامات پر جانامنع تھا جہاں پانی موجود ہوساتھ ہی اس کو چھونا یا استعمال کرنا بھی منع تھا۔اس واقعہ کے بعد معاشرتی سطح پر تقسیم شدہ سماج کے دونوں حصوں میں ایک طویل جدوجہد کا سامنا ہوا۔آخر کار 17مارچ 1937میں فیصلہ ہوا کہ تالابوں سے دلت بھی پانی استعمال کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی کے اس مختصر پس منظر میں کل یعنی 14اپریل2018کے دن کو یاد کر لینا چاہیے۔جہاں چہار جانب امبیڈکر کے نظریات سے حددرجہ اختلاف رکھنے والے ،خصوصا’پریوار’کے لوگ امبیڈکر کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑے اس انتظار میں کھڑے تھے کہ کسی طرح ایک فوٹو ان کی بھی خبروں کی زینت بن جائے اور وہ یہ ثابت کر دیں کہ ہم بھی امبیڈکر کے شیدائی ہیں۔لہذا جب ووٹ دینے کا وقت آئے تو وہ لوگ ہمیں نہ بھولیں جو دلت ہیں ۔برخلاف اس کے امبیڈکر نے کہا تھا کہ ہندومذہب میں دلیل،آزادنہ سوچ کے ارتقاء کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔وہیں امبیڈکر نے یہ بھی کہا تھا کہ میں ایسے مذہب کو مانتا ہوں جو آزادی ،برابری اور بھائی چارہ سکھاتا ہے۔ساتھ ہی امبیڈکر یہ بھی کہہ کر گئے تھے کہ جب تک آپ سماجی سطح پر آزاد نہیں ہو جاتے،قانون آپ کو جو بھی آزادی فراہم کرتا ہے ،وہ آپ کے لیے بے معنی ہے!
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com