سانحہ مشرقی پاکستان تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس کی تلخ یادیں آج بھی دونوں اطراف کے عوام کو رولا دیتی ہیں ۔اس بدترین حادثے نے لاتعداد سوالات کو جنم دیا جن کے جوابات تلاش کئے بغیر مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے عوام آئندہ ایسے حادثات سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی پاکستانی۔ اس قسم کے حادثات سے گزرنے کے بعد کوئی بھی باشعور قوم ایسی تمام وجوحات کو جڑھ سے اکھاڑے بغیر آگے نہیں بڑھتی جو ملک توڑنے میں کردار ادا کر سکتی ہوں لیکن بد قسمتی سے ہماری قیادت نے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا آج بھی بلوچستان اور کراچی سمیت کئی جگہ بدنیت دشمن نے دہشتگردی کا جال بچھا رکھا ہے جس میں ہمارے اپنے دشمن کا ساتھ دے رہے صرف اس وجہ سے کہ اُن کو اُن کے جائزحقوق نہیں ملتے۔ ناانصافی، ظلم و جبر اور حقوق پامال ہوتے رہیں گے تو کوئی بھی کسی بھی قوم کا اتحاد قائم رہنے کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں کس کس نے کردار ادا کیا یہ جاننا بہت ضروری ہے لیکن اُس سے بھی ضروری ہے کہ آج کون، کون اور کہا ں کہاں ملک کے خلاف سازشیں کرنے میںمصروف ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی 41 ویں برسی کے موقع پر عبدالقادر ملا کی سزائے موت نے ایک مرتبہ پھر تحریک پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کی یاد تازہ کر کے سوئے زخموں کوہوا دے دی ہے۔
ہر محفل میں تحریک آزادی پاکستان سے لے کر آزادی پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے۔ آج رہ، رہ کر گاندھی کے وہ لفظ یاد آرہے ہیں۔ جو اُس نے قائد اعظم محمد علی جناح کو مخاطب کر کے کہے تھے۔ پاکستان کے وجود کو بھارت نے پہلے دن سے لے کر آج تک تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کے وجود میں آتے ہی گاندھی نے قائد اعظم سے کہا کہ آپ نے پاکستان تو بنا لیا لیکن یہ 50 سال سے زیادہ نہیں چل سکے گا۔ پھر وہی ہوا سازشی دشمن اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجہ میں 25 برس بعد ہی پاکستان دو لخت ہو گیا۔ جس پر گاندھی نے بیان دیا کہ ہمارا پاکستان کو توڑنے کا منصوبہ 76ء تک تھا لیکن کچھ مہربانوں نے اس قدر تعاون کیا کہ 71ء میں ہی کامیابی مل گئی۔ گاندھی گروپ کے پاکستانی مہربان کون تھے یہ بات اہل علم تو جانتے ہیں لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش کے میرے جیسے عام عوام آج تک نہیں سمجھ سکے کہ آخر کس آفت نے پاکستان کو دو لخت کر دیا اسی وجہ سے ہم آج تک دونوں طرف گاندھی کے اُنہیں مہربانوں کی باقیات کوووٹ دے رہے ہیں۔
میں تو صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان دو لخت کرنے میں اُن حرص کے پجاریوں نے دشمن کاساتھ دیا جو حوس اقتدار اور دولت و حکومت کے نشے و لالچ میں اس قدر اندھے ہو چکے تھے کہ اُن کو کسی نہ کسی قیمت پر خرید کر دشمن ملک و قوم سے غداری کیلئے استعمال کرنے کامیاب ہو گیا، ایسے بدکردار لوگ آج بھی موجود ہیں جن کو ملک وقوم سے زیادہ اپنی حرص عزیز ہے۔ ہٹلر اور مسو لینی کی یہی حرص دوسری جنگ عظیم کا باعث بنی جس میں بڑی تباہی مچی۔ سچ تو یہ ہے جب کسی قوم کی قیادت حریص اور لالچی ہوجائے اُس کا مقدر تباہی کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ ایسی ہی قیادت نے پاکستان کو دولخت کیا 1970ء کے عام انتخابات کے موقع پر 11 مارچ کو ڈھاکہ میں ایک بڑے جلسے میں شیخ مجیب نے مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے آقائوں کے ذریعے بنگال کی لوٹی ہوئی دولت واپس کریں۔ بنگال کے عوام اب زیادہ دیر تک ایسی ناانصافیاں اور حقوق کی پامالی برداشت نہیں کریں گے،بنگال کے عوام غداروں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں تاکہ اپنی مقدس سرزمین کو سیاسی گندے انڈوں وعناصر سے پاک کرسکیں ۔کچھ اسی طرح کے الفاظ 10 مارچ 1970ء عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری تاج الدین نے ڈھاکہ میں ایک جلسے کے دوران استعمال کئے ۔اس کا کہنا تھا کہ آزادی پاکستان سے اب تک ڈاکوئوں اور لٹیروں نے بنگالی قوم کے خون اور گوشت سے اپنے پیٹ پال رکھے ہیں۔ مغربی پاکستان کے ایک استحصالی طبقے نے نہ صرف پچیس برسوں سے مشرقی پاکستان کا خون چوسا ہے۔
Peoples Party Flag
انہی دنوں شیخ مجیب نے بھارت کے ساتھ اپنے رابطے مزید تیز کر دیئے تھے۔ اس طرف سے بھی کوئی کمی نہیں رہی۔ انتخابات کے فورا بعد بھٹونے ایسے بیانات جاری کیے جو عوامی لیگ کی قیادت کو اشتعال دلانے اور بین الصوبائی کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اقتدار کی سیاست میں بھٹو کو فوج کی پوری حمایت حاصل تھی اور وہ اسے تیسری پارٹی کا نام دیتے تھے۔ 21 اکتوبر کو انہوں نے لاہور میں کہا کہ اگر صدر مملکت، عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو آئین مقررہ مدت سے پہلے ہی تیار کیا جا سکتا ہے اور اگر یہ دونوں جماعتیں افہام و تفہیم میں ناکام رہیں توصورتحال قابوسے باہر ہوجائے گی اور مغربی پاکستان سے پیپلزپارٹی کے علاوہ دوسرے اراکین کی مدد سے آئین سازی کے لئے کی جانے والی کوششوں کے نتائج تباہ کن ہوں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی کے تعاون کے بغیر کسی حکومت کا چلنا ناممکن ہے۔اقتدار میں دونوں پارٹیوں کی شرکت ضروری ہے اور ان کی پارٹی کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے پرمجبور نہیں کیا جاسکتا۔
1971ء میں راقم پیدا بھی نہیں ہوا تھا لیکن جہاں تک بات ہے حکمرانوں کے ظالم ہونے کی تو وہ آج بھی ہیں، آج اگر شیخ مجیب یاتاج الدین زندہ ہوتے تو میں اُن سے سوال کرتا کہ خون اور گوشت کھانے والے انسان نماء درندے صرف بنگالیوں کا شکار کرتے ہیں؟کیا مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کے بعد وہاں سے ظلم ستم ختم ہو گیا؟ عبدالقادر ملا نے اگر اپنے وطن سے محبت کی تو کیا جرم کیا؟ جہاں تک میری معلومات میں ہے دنیا کے کسی قانون میں بھی اپنے وطن سے محبت کو جرم قرار نہیں دیا گیا۔عوام کیوں نہیں سوچتے، کیوں نہیں سمجھتے کہ شیخ مجیب نے بھی تو گاندھی گروپ میں شامل ہو کر پاکستان سے غداری کی تھی جس کاثبوت یہ ہے کہ شیخ مجیب نے 1972ء میں رمنا کورس ڈھاکہ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ گزشتہ 20برس سے آزادی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا ہے اور اب آکر اُس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔ کیا یہ غداری نہ تھی؟ پھر اُس کی باقیات کو کیوں آج تک عوام منتخب کرتے ہیں؟ بھارت کی خاطر پاکستان سے غداری کرنے والا بنگالیوں کا خیرخواہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ پاکستان کو دولخت ہوئے آدھی صدی بیت گئی میں تو آج بھی دونوں طرف ظالم اور ناانصاف حکمران دیکھ رہا ہوں۔
آج بھی عوام حکمرانوں کی ٹھوکروں میں ہیں ۔ایک بزرگ کو پھانسی چڑھا کر بنگلہ دیشی حکمران پتا نہیں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ نجانے کس آقا کو خوش کرنے کیلئے ایسا کیا اُنہوں نے؟جیل کی کال کوٹھری میں پڑا ایک بوڑھا شخص کس قدر خطرناک تھا جو اُسے پھانسی چڑھا کربہادری کا مظاہرہ کیا گیا ۔میں تو اس اقدام کو بھی ظلم کہوں گا جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور عذاب ضرور برسے گا دیر ہوسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنا ان کے بس کی بات نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان بنتے ہی غلامی پسند زہنیت رکھنے والوں نے علاقائی وسائل پر اپنی نظریں جما کر اُن پر قابض ہونے کیلئے ملک دشمن عناصر سے گٹھ جوڑ کرلیا تھا جو آج تک جاری ہے ۔میرے خیال میں آج بھی حکمران طبقہ صرف ریاستی وسائل کو اپنا سمجھتا ہے عوام کو نہیں۔