تحریر : ممتاز ملک. پیرس جن گھروں میں بہوؤں کو نماز کے بعد پانچ سات منٹ سے زیادہ تسبیح کرنے کی اجازت یہ سوچ کر نہ دی جاتی ہو کہ وہ گھر والوں کے خلاف وظائف کرنے لگیں گی، جہاں خواتین کے استعمال کی مخصوص اشیاء تک سسر صاحب ہی لا کر دیں گے، جہاں سسر صاحب کی ٹانگیں دبانے کی ذمہ داری بیٹوں کے بجائے بہوؤں کی ہو گی، جہاں پردے کے نام پر میکے جانے پر پابندی جبکہ دیور جیٹھ ایک گھر میں رہ رہے ہوں وہاں شوہر اور تمام سسرال والوں سے چھپ چھپ کر اپنے پاس موبائل رکھنا اور اُس سے ایک سال قبل ملی ہوئی ماں کو میسج کرنا یا بات کر لینا کیا یہ جرم ہے۔
یہ ہیں وہ مسائل جو ہمیں سننے کو آج کل ملے کچھ بہنوں کی زبانی . اب کوئی ایمانداری سے بتائے کہ یہ سب جس کی بہن یا بیٹی کیساتھ ہوا ہو تو ظلم ہے, اور اگر بیوی یا بہو کیساتھ ہو تو ہماری خاندانی روایت یا رواج … کچھ لوگ یہ بھی سوچتے ہونگے کہ جناب کس زمانے ک بات کر رہی ہیں. آجکل ایسا کہاں ہوتا ہے ؟ تو جناب سو فیصد نہیں تو چالیس فیصد گھروں میں آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے باقی تیس فیصد گھروں میں یہ مظالم کم ہو جانے کی وجہ ان حالات میں الگ گھر بسا لینا ہوتا ہے . جبکہ باقی تیس فیصد گھرانوں میں بہوؤں نے ظالمانہ انداز حکمرانی اختیار کر رکھا ہے.. اور بیاہ کر آتے ہی سسرال والوں کو مرچی کی دھونی دینے کا مشن لیکر کر ہی ڈولی سے اتری ہیں… ہم سے یہ سب جب پڑھی لکھی خواتین نے کہا کہ کیا کریں ظلم سہنے پر مجبور ہیں تو بہت افسوس ہوا.. ان کے لئے ایک ہی جواب ہے کہ جی نہیں پیاری بہنوں ہم خود اپنے لیئے مجبوریاں پیدا کر لیتے ہیں۔
سب سے پہلے تو بچے پہ بچہ پیدا کر کے آپ اپنے آپ کو خود آزمائشں کی بھٹی میں جھونک رہی ہیں کہ جن کی نہ اس سسرال کو ضرورت ہے نہ ہی میاں کو ضرورت یا خوشی تو کیوں آپ اپنی اکیلی جان کو دلدل میں دھنسا رہی ہیں. اوراس پر طرًہ یہ کہ اس قسم کے حالات اور غلامانہ انداز زندگی میں آگر آپ کے باپ یا بھاٹی ہمدردی دکھا کر آپ کا ساتھ دینے کی کوشش بھی کریں تو خاتون اپنے بچے اپنے ساتھ چمٹا کر میاں کو سانڈ کی طرح کھلا اور آذاد چھوڑ دیتی ہیں کہ جاؤ میاں چھڑے چھانٹ عیش کرو ہم بچے اپنے باپ بھائی سے پلوا لینگی..یا خود خوار ہو کر پالیںنگی جوان ہو جائینگے کسی قابل ہو جائینگے تو اٹھا کر لیجانا ہو ابا بنکر آ جانا. ۔… ایسی ہی عورت کی عزت نہ باپ کی گھر میں رہتی ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے اس کے بھائیوں کے گھروں میں سکون رہتا ہے۔
سو الگ ہونے یا ناراض ہونے کا فیصلہ کریں تو بچے ہمیشہ میاں کی گود میں ڈال کر نکلو کہ یہ میکے کا تحفہ نہیں ہے تمہاری نسل ہے میاں پالو اسے…. چار دن میں دماغ ٹھکانے پر آ جائیگا موصوف کا . اور چھوڑے گا تو بھگتے گا بھی خود ہی… سچ پوچھیں تو ہم تو اس قسم کی خواتین میں قطعا شامل نہیں ہیں جو سسر کی ٹانگیں دبائے بلکہ اس کے بجائے گلہ نہ دبا دیں ایسے سسرے بے حیا کا .. اور کوئی روک کر تو دکھائے ہمارے ماں باپ بہن بھائیوں سے ملنے سے ہمیں ..جب تک کہ اس کی کوئی مضبوط شرعی اور سماجی وجہ نہ ہو.کیونکہ ہم بیاہ کر آئے ہیں بک کر نہیں. رہی بات یہ سوچنا کہ میرا میاں مجھے چھوڑ نہ دے تو یہ یقین رکھیں جناب ہمارا جوڑا جب تک اللہ پاک نےجوڑ رکھا ہے تب تک کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکتی چاہے میں کتنی بھی بری ہو جاؤں اور نہیں جوڑا تو میں اسے کبھی جوڑے نہیں رکھ سکتی چاہے میں فرشتہ ہی کیوں نہ ہو جاؤں. اس لیئے شادی کے رشتے میں میں کسی دھونس دھمکی یا بلیک میلنگ پر یقین نہیں رکھتی . یہ محبت اور اعتبار کا رشتہ ہے۔
یہ ہمدردی اور پیار کا رشتہ ہے. سو اسے محبت اور پیار سے ہی چلنا چاہئے. کسی سے ناانصافی مت کیجئے. عورت کو خصوصاً ہمارے معاشرے میں بہو اور بیوی کے روپ میں بہت زیادہ ہمدردی کی ضرورت ہے اسے انسان سمجھنے کی ضرورت ہے. لیکن اس کا مطلب اسے سر پر چڑھا کر باقی رشتوں کی توہین ہر گز ہیں ہے. بطور مرد یہ آپ کا ذمہ داری ہے کہ اپنے رشتوں کے بیچ محبت میں توازن پیدا کیجئے. اور بطور عورت یاد رکھیں کہ ظلم اسی پر ہوتا ہے جو ظلم سہتا ہے . اور اللہ نے دونوں کی سزا ایک ہی مقرر کر رکھی ہے۔
نوٹ(کوئی بھی بات سو فیصد لوگوں کے متعلق نہیں ہے) .