مقالات و جامعات اور ان کے نگران مقالہ ”جاوید احسن شخصیت و فن”

Literature

Literature

تحریر : فرید ساجد لغاری، چوٹی بالا۔دیرہ غازیخان
گزشتہ چند سالوں سے مقتدر جامعات طلبہ و طالبات سے قدآور علمی و ادبی شخصیات پر ایم فل کے تنقیدی تحقیقی مقالہ جات رقم کرا رہی ہیں۔ جو کہ یہ اُن کا نا صرف احسن اقدام ہے بل کہ اپنے فرائضِ منصبی کو احسن طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچا رہی ہیں۔جن کے اس اقدام کو سراہنا ہمارا ادبی فریضہ ہے۔

علاوہ ازیں ان شخصی جامع مقالات کی تکمیل کے بعد ان کی طباعت جامعات کے دائرہ کارمیں شامل ہے۔یادرہے یہ مقالہ جات ایک خاص ترتیب، ترکیب اورابواب بندی سے مقالہ نگاروں کے سپرد کیے جاتے ہیں اور طالب علم کے لیے ایک نگران(جو نگرانِ مقالہ ہوتاہے) مقرر کیا جاتا ہے جو ایک ہشت پہلو اورکثیرالمطالعہ شخصیت ہوتا ہے۔تاکہ وہ مقالہ کی ترتیب ،ترکیب،ابواب بندی،طالب علم کے بشری تسامحات اورسرقہ کا بنظرِ غائرمطالعہ کرے۔بایں ہمہ مقالہ کی ابواب بندی اورحوالہ جات کی صحت پر کڑی نظررکھے۔یہ بھی دیکھے کہ مقالے کامواد طبع زادہے اورفراہم کردہ معلومات درست وصحیح ہے ۔کیوں کہ طلبہ وطالبات میں تنقیدوتحقیق کی صلاحیت پیداکرنا نگران اساتذہ کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ اس کارہائے سخت جانی کے بعداُستاد طالب علم کا زبانی امتحان لے کر اس کارِ مفروضہ کے عوض اُسے سندِ صلاحیت جاری کرے۔

حال ہی میں ایک شخصی مقالہ بعنوان ”جاویداحسن شخصیت وفن ”اپنی تحقیق کے تمام مراحل طے کرتا ہوا بہاؤالدّین زکریایونیورسٹی شعبہ اردو کے مقالات میں اضافے کا سبب بنا۔مقالہ نگاروں عبدالوحید رولنمبر ١٦ ،اور مقالہ کے نگران شعبہ اُردو کے فاضل پروفیسر ڈاکٹرمحمدساجدخان ہیں۔مقالہ سالِ تحقیق ٢٠١٣ء تا٢٠١٥ ہے اورمقالہ مذکورنے ٢٠١٦ء میںبہ حسن وخوبی تکمیل کے مراحل طے کیے۔مقالہ کی ضخامت ١٨٣ صفحات اور سائزA4پورٹریٹ ہے۔مقالہ کی اوّلیں فہرست صفحہ نمبر٢ پر یہ حلف نامہ تحریر ہے۔

”میں حلفیہ بیان کرتاہوں کہ مقالہ بعنوان ” جاویداحسن شخصیت وفن” میری ذاتی محنت اور کاوش کانتیجہ ہے۔اس عنوان کے تحت یہ مقالہ کسی بھی یونیورسٹی میں کسی ڈگری کے حصول کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔” یہ مقالہ مذکورہ حلف نامہ مع دستخطی طالب علم اورفون نمبر جامعہ بہاؤالدّین زکریا،ملتان میں جمع ہوچکا ہے اورراقم الحروف کے پاس ایک کاپی بطورریکارڈ محفوظ ہے۔جس کاجائزہ کچھ یوں بنتا ہے۔

ملاحظہ ہو! صفحہ نمبر٧:”سلیمان ادبی اکیڈمی ١٩٨٢ء میں جاویداحسن خان نے بانی کے طورپررکھی ۔اس تنظیم کے تحت دودرجن سے زائد اُردو،سرائیکی کتب شائع ہوئی ہیں” (مقالہ نگار) گرفت:کوئی حوالہ موجود نہیں ۔آیا اُردواورسرائیکی کی کون سی کُتب اس ادبی ادارے کے تحت مراحلِ اشاعت سے گزریں،اُن کاسنِ طباعت کیااورمصنف کون ہیں۔اصولِ مقالہ جات اور قواعدکی رُو سے اُن کتب کی ترتیب تفصیل وارواضح ونمایاں کرنی چاہیے۔ (ساجد)
٭مذکورہ بالا صفحہ پر لکھتے ہیں کہ:

‘پریس کلب کے لیے زمین لیز پر لی گئی ۔جس کے لیے عبدالرحمٰن غوری نے اہم کردار اکیا ۔ گرفت:تحقیق نادرست ہے ۔متعلقہ کتاب ”دیرہ غازیخان کے تہذیبی خدّو خال”میں عبدالرحیم غوری کا اندراج ہے۔نہ کہ عبدالرحمٰن خاں غوری کا۔

صفحہ نمبر٩: وہ بھی نیل گگن سے اُترے جھیل کے گہرے پانی میں
ہم بھی گھنٹوں گھنٹوں ڈوبے ،اشکوں کی طغیانی میں
گرفت:یہ ”گھنٹوں گھنٹوں”کیا بلاہیں۔مقالہ نگار کی کارستانی اورنگرانِ مقالہ کی مداہنت سے شعر معنوی سطح پر مجروح ہوا ہے۔یہیں پر مجھے جاویداحسن کا ایک شعر یادآرہا ہے۔جس میں انھوں نے کیا خوب کہا:
دستارِ علم اور ابوجہلوں کے زیب سر
جاوید ہم یہ ظلم گوارہ نہ کر سکے ١
بہر کیف مذکورہ بالا شعر درست صورت میں ملاحظہ فرمائیے:
وہ بھی نیل گگن سے اُترے جھیل کے گہرے پانی میں
ہم بھی گھٹنوں گھٹنوں ڈوبے ، اشکوں کی طغیانی میں ٢
صفحہ نمبر١٠: جاوید ہروجود کا اپنا ہے مرتبہ
ہر چیز ہے اپنے جمال میں
گرفت:شعرکا مصرع ثانی نامکمل ہے۔درست شعرملاحظہ ہو:
جاوید ہر وجود کا اپنا ہے مرتبہ
ہرچیز بے مثال ہے اپنے جمال میں ٣
صفحہ نمبر١١: پر ایک پیراگراف ہے!
”جاویداحسن خان بڑے شفیق اورمخلص انسان ……………تا………ان کی شخصیت اور فن کا اندازہ ان کے نام مختلف اخبارات اورکتب میں چھپنے والے تبصروں سے لگایا جاسکتا ہے”
گرفت:حالانکہ یہ پیرا گراف من وعن صفحہ نمبر آٹھ پر پہلے سے موجود ہے ثابت ہوا کہ نگرانِ مقالہ نے مقالے کامطالعہ ہی نہیں کیا۔

صفحہ نمبر٢٠: ”جاویداحسناپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ !میں اگرانگریزی زبان میں لکھناچاہوں تولکھ سکتاہوں۔”
گرفت:یہ جملے مقالہ نگاری کی اختراع ہیں۔کیوںکہ جاویداحسن اس مقالہ سے پہلے ہی رحلت فرماچکے تھے۔مقالہ نگار کی اُن سے کوئی ملاقات نہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کن قومی اخبارات،جرائد یا کتب میں جاویداحسن نے لکھا ہے کہ مجھ میں English Language پردستگاہ اور creativityکی صلاحیت موجود ہے۔ (ساجد)
صفحہ نمبر٣١: میں نے صحرا میں کچھ پھول کھلے دیکھے ہیں

صرف گلشن کو ہی اعزاز نہ بخشا جائے گرفت:شعر کے مصرع ثانی میںالفاظ”کوہی” میں تعقید لفظی پیدا کی گئی ہے۔شعر مقالہ نگار کی عدم توجہی سے اپنافنی ترفع کھو چکا ہے ۔ اہلِ فکرونظر جانتے ہیں کہ فاعل کے فوراًبعد ”ہی ”آنا چاہیے۔درست شعرملاحظہ ہو

میں نے صحرا میں بھی کچھ پھول کھلے دیکھے ہیں
صرف گلشن ہی کو اعزاز نہ بخشا جائے ٤
صفحہ نمبر٣٢: ساون رُتوں میں ابرِ گوہر بار دیکھنا
برسے گا ٹوٹ کر سرِ کُہسار دیکھنا
گرفت:اچھا خاصا شعر بحرِ مضارع میں تخلیق ہوا تھا۔شعرکا مصرع اولیٰ مقالہ نگار کی کارستانی سے خارج ازبحرہوگیا ہے۔ درست شعردیکھیے:

ساون رُتوں میں ابرِ گُہر بار دیکھنا
برسے گا ٹوٹ کر سرِ کُہسار دیکھنا ٥

صفحہ نمبر٣٣: میں نے صحرا میں کچھ پھول کھلے دیکھے ہیں
کون کہتا ہے کہ حسن خرابوں میں نہیں
گرفت: شعرکے مصرع اولیٰ میں ایک سبب خفیف کم ہے اورمصرع ثانی تحریفِ بحرِ کاشکار ہے۔
میں نے صحرا میں بھی کچھ پھول کھلے دیکھے ہیں
کون کہتا ہے کوئی حسن خرابوں میں نہیں ٦
صفحہ نمبر٣٤: متاعِ شعر و سخن تخت و تاج ہے میرا
یہی زمیں ہے وہ جس پہ کہ راج ہے میرا
گرفت:شعرکے مصرع ثانی میں لفظ ”پہ ” کا اندراج غلط ہے ۔لہذا ”پر ”لکھاجائے۔دوسرا یہ کہ صفحہ نمبر٣٩پر بھی یہ شعردوبارہ اسی صورت میں ہے ۔اُسے بھی درست کرلیاجائے۔
صفحہ نمبر٣٥: بے صورت میری موت ہے میں چُپ نہ رہوںگا
گرفت:”بے صورت موت”کی ترکیب پہلی بارپڑھی ہے ۔لغت پریشان ہے کہ ”بے صورت موت ”کیابلا ہے۔صحیح مصرع ملاحظہ ہو۔
ع:بے صوت مری موت ہے میںچُپ نہ رہوں گا ٧
صفحہ نمبر٣٦: ع: امن وانصاف ہیں دنیامیں میری راہِ عمل
گرفت:لفظ ”میری،مری”کے دوتلفظ ہیں ۔پہلی بروزن دوسبب خفیف جبکہ دوسری بروزن وتدمجموع کے ہے۔شعرأہردو کو توازن کے تحت استعمال کرتے ہیں۔گویا مصرع ہٰذا لفظ ”میری ” کی وجہ سے بحرِرمل سے بحرِمتدارک مخبون مقطوع میں تبدیل ہوگیا ہے۔کیوں کہ مصرع کے اس مقام پر لفظ”مری”کا مقام ہے۔
ع: امن وانصاف ہیں دنیامیں مری راہِ عمل
صفحہ نمبر٣٧: اُڑتا ہوا فضامیں کوئی عکس ہی نہیں
مرمر کے جی رہاہوں تیرے انتظارمیں
گرفت:جیسا کہ میں مندرجہ بالا سطور میں لکھ چکا ہوں کہ بعض الفاظ کے تلفظ دو ہوتے ہیں ۔اسی طرح لفظ”تیرے” کے دوتلفظ”تیرے اورترے”ہیں۔مصرع مذکورمیں لفظ”ترے ”کامقام ہے۔
اُڑتا ہوا فضا میں کوئی عکس ہی نہیں
مرمر کے جی رہا ہوں ترے انتظار میں ٨
علاوہ ازیں اسی صفحہ کا آخری شعربھی لفظ ”تیرے”کی مرقومہ املاسے بے وزن ہوگیا ہے لہذادرست شعر ملاحظہ ہو:
ترے سادہ دلوںکی خیرساقی
زمانہ مہرباںہونے لگا ہے
صفحہ نمبر٣٨: گمراہی پھیلا رہے ہیں آگہی کے نام پر
لوگ اندھے ہوگئے دیدہ دری کے نام پر
گرفت:مصرع اولیٰ میں لفظ”گمراہی ” کے اندراج سے شعروزن سطح پر مضروب ہے۔جب کہ مصرع ثانی میں پروف کی غلطی سے ”دیدہ وری ” کے بجائے ”دیدہ دری”غلط املاہے ۔درست شعرملاحظہ ہو:
گمرہی پھیلا رہے ہیں آگہی کے نام پر
لوگ اندھے ہوگئے دیدہ وری کے نام پر ٩
صفحہ نمبر٤٠: بکھرگیا ہے ہر اک خواب خوشنما اپنا
چمن اُڑا گئی دشت کی ہوا اپنا
گرفت:معلوم ہوا کہ مقالہ نگار اورنگرانِ مقالہ کا اردوادب سے لگاؤ کم ہی ہے ۔ کیونکہ ہوا چمن کو اُڑاتی نہیں بلکہ اُجاڑتی ہے۔شعرکا مصرع ثانی الفاظ کے قطع وبرید سے بری طرح متاثرہوا ہے۔درست شعرملاحظہ ہو:
بکھر گیا ہے ہر اک خواب خوشنما اپنا
چمن اُجاڑ گئی دشت کی ہوا اپنا ١٠
صفحہ نمبر٤٤: جل رہا ہے بدن آلاؤ سے
گرفت:لفظ ”آلاؤ ”کی املا الف ممدودہ سے غلط ہے ۔مرقومہ املا سے شعربے وزن ہونے سے نہ بچ سکا۔لہذا مذکورہ لفظ الف مقصورہ سے ”اَلاؤ”لکھاجائے۔
صفحہ نمبر٤٧: تھل کی ہریالی کا ہے بارانِ رحمت پر مدار
دوپہر کی دھوپ میں ہر نخل ہے محشرِ بجاں
گرفت:ترکیب ”محشرِبجاں”اضافت کے بے محل استعمال نے شعرکا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔درست شعردیکھیے:
تھل کی ہریالی کا ہے بارانِ رحمت پر مدار
دوپہر کی دھوپ میں ہر نخل ہے محشر بجاں ١١
صفحہ نمبر٤٨: روہی کے ٹیلے ہیں عجب خواب جزیرے
آنکھوں میں ہے اک نیندسی سینے میں سوجھل
گرفت:شعرکے مصرع اولیٰ میں ایک ہجائے کوتاہ کم ہونے سے شعربے وزن ہے۔درست شعردیکھیے:
روہی کے یہ ٹیلے ہیں عجب خواب جزیرے
آنکھوں میں ہے اک نیند سی سینے میں ہے سوجھل ١٢
صفحہ نمبر٤٨تا٥٢:”تخلیق کائنات سے لے کرآج تک حیات وکائنات کے بارے میں بے شمارتنقیدوتحقیق ہوچکی ہے۔جس سے فلسفۂ جبروقدروجود میں آیا ہے……تا……جاویداحسن کے اسلامی نظریۂ حیات میں احسن کاعقیدہ روحِ توحیداورخطۂ ارض کی ہر قوم اُس کی ملت ہے۔”

(مقالہ نگار) گرفت: یہ مضمون سرقہ بالجبرکی ذیل میں آتا ہے۔راقم الحروف کا مضمون بعنوان”جاویداحسنکا نظریۂ حیات”سہ ماہی ”دامان”شمارہ نمبر(١ ) چوٹی بالا،دیرہ غازیخان ،تاریخ طباعت اکتوبرتادسمبر٢٠٠٦ء میں طباعت شدہ ہے۔جو اَب کے میری کتاب ”جاویداحسنشخصیت وفن” کا حصہ بھی ہے۔مقالہ نگار کواُس کی چوری اورسینہ زوری کی داد دینی چاہیے کہ انھوں راقم الحروف کامضمون مذکورمن وعن اپنی تحقیق اورتخلیق کا حوالہ بنایااورنگرانِ مقالہ بھی اس ادبی بددیانتی پر خاموش رہے ۔ غالب نے کیا خوب کہا :
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اورجزومیں کُل
کھیل بچّوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا

راقم الحروف کا مضمون مذکورہ ملاحظہ ہو: ” جاویداحسنکانظریۂ حیات تخلیقِ کائنات سے لے کرآج تک حیات وکائنات کے بارے میں بے شمارتنقیدوتحقیق ہوچکی ہے۔جس سے فلسفۂ جبروقدروجودمیں آیا۔شوپنہار نے انسان کوقیدوبند سے تشبیہ دی ہے۔اُس کے نزدیک یہ زندگی دارِ محن ہے۔شوپنہار نے تمام امکانات کوردّکردیا ہے۔لیکن نطشے نے اس کے برعکس حیات وکائنات کو اہمیت دی ہے۔نطشے ترکِ آرزو کوزیست کی توہین سمجھتاہے۔غالب کی زندگی دیکھیں توغالب کا فلسفۂ حیات فعال اورمعروضی ہے۔غالب کاانسان نمودکاخواہاں ہے۔غالب کے نزدیک انسان کی شخصیت لچک دار ہے ۔غالب زندگی کے اخیرتک خوشی کی تلاش میں سرگرداںر ہے۔غالب اس سے بخوبی واقف ہیں کہ موت سے قبل حزن وملال اور زندگی کے نشیب وفراز سے نجات ممکن نہیں۔چناںچہ کیوں نہ اس حیات پر قہقہوں کی قبا ڈال دی جائے۔ کیوں کہ زندگی اورادب لازم وملزوم ہیں ان کو ایک دوسرے سے جدانہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے زندگی آرزو اورادب اس کا سلسلہ ہے۔ مذکورہ فلسفہ غالب سے ہوتاہوا جاویداحسن تک یوں پہنچتا ہے!

عمر وقفِ گردشِ ایّام ہو کر رہ گئی
سعیِ لا حاصل مرا انجام ہوکر رہ گئی
جاویداحسن کاشمار عظیم آفاقی شعرأ میں ہوتاہے۔ آپ ”سرائیکی ثقافت، فی احسنِ تقویم اورجمالِ صحرا”کے خالق ہیں۔”جمالِ صحرا” جاویداحسن کاشعری مجموعہ ہے۔دراصل ”جمالِ صحرا” میں بھی فلسفۂ حیات ہے۔
قرض کی پیتے تھے مَے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
جاویداحسن بھی مارکس اورغالب کے فلسفۂ حیات کے قائل ہیں۔غالب کا نظریہ ہے کہ ہماری فاقہ مستی ایک دن رنگ لائے گی ۔لیکن جاویداحسن اس نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
وہی مقام کہ کہتے ہیں ” آبِ گُم ”جس کو
اسی مقام پہ ملتے ہیں فاصلے سارے
نطشے کی طرح جاویداحسن ترکِ آرزو کو زیست کی توہین سمجھتے ہے اورترکِ آرزو کے برعکس اپنی منزل پر تیربہ ہدف یوں پہنچتے ہیں:
آواز کی قوّت کاتمھیں علم نہیں ہے
میں گنبدِ افلاک کو دو نیم کروں گا

گر وقت نے ہاتھوں سے قلم چھین لیا بھی
میں حرفِ جنوں نوکِ زباں کرکے رہوں گا

جاوید مرے شعر ہیں تنویرِ محاسن
میں دامنِ تخلیق کو تاروں سے بھروں گا
جاویداحسن کی شاعری کا لینڈ سکیپ آئیڈیل ورلڈ (مثالی دنیا )ہے ۔غالب کے ہاتھ بے جنبش ،آنکھوں میں دم ہے۔”رہنے دو” ساغرو مینا مرے آگے!
لیکن جاویداحسن کے عقل و خرد میں ایک اورجہاں ہے۔سنیئے ! جاویداحسن کی زبانی:
انیسِ جسم و جاں ذاتِ مکرّم ہے جہاں ہم ہیں
بساطِ زندگی مثلِ بریشم ہے ، جہاں ہم ہیں
شاعر کی بلند خیالی قابلِ تحسین ہے۔”جہاں ہم ہیں”سے مراد کیا ہوگا۔کیا اس کا مفہوم ہے (جس جہاں میں ہم ہیں وہی مکرّم اوربریشم ہے)نہیں ہرگزنہیں، لفظوں کی تطبیق اورقوّتِ متخیّلہ وممیّزہ بھی اس امرکی شہادت دیتی ہیں۔”جہاں ہم ہیں” کامطلب مذکورہ بالا نہیں، شاعرکہتا ہے ہمارے ذہن میں جو جہاں ہے ”وہ ذاتِ مکرّم اور مثلِ بریشم ”ہے۔آگے دیکھیے:
ہماری سلطنت میں مختلف ہے قدرِ انسانی
فقیرِ بے نوا سب سے معظّم ہے ،جہاں ہم ہیں
زندگی کے کسی حصّہ میں جاکے دیکھو کہ کلیدِ کامرانی سعیِ پیہم سے مربوط ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں جاویداحسن کس طرح اس مضمون کوقلم بندکرتے ہیں:
کسی انسان کی محنت یہاں ضائع نہیں جاتی
کلیدِ کامرانی سعیِ پیہم ہے ، جہاں ہم ہیں
جاویداحسن کا نظریۂ حیات قابلِ قدر ہے ۔جاویداحسن کے ذہن میں جو جہاں ہے اُس میں سبز پرچم لہرا رہا ہے اورسعیِ پیہم رائگاں نہیں بل کہ کلیدِ کامرانی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا!
آدمیّت احترامِ آدمی
با خبر شو از مقامِ آدمی
علامہ اقبال فلسفۂ جبر کے مقابلے میں فلسفۂ قدر کو مقدم سمجھتے ہیں۔ہمارا عظیم مذہب اسلام بھی ہمیں یہی درس دیتا ہے۔علامہ اقبال کے اس تصور سے معلوم ہوتا ہے کہ بات صرف مسلم اورغیرمسلم کی نہیں ”آدمیّت احترامِ آدمی”اولادِ آدمۖ کے لیے ہے۔جاویداحسن اپنی نظم ”دستورِ حیات”میں فلسفہ قدرمیں اس طرح روح پھونکتا ہے :
امتیازات میں محدود نہیں میری نظر
ہے مرا بھائی ، ہو کافر کہ مسلماں کوئی

میں نے انسان کی عظمت سے محبت کی ہے
میرے اخلاق میں شودر نہیں انساں کوئی
جاویداحسن زندگی کو فلسفیانہ نگاہ میں دیکھنے کی بجائے زندگی کے مسائل کو آئینۂ دل سے دیکھتے ہیں۔جاویداحسن زندگی کے نامساعد حالات اورناسازگار ماحول میں ہمیں جینے کا درس دیتے ہیں۔کائنات سے کٹ کر جینے کو گناہ سمجھتے ہیںاوراتحادویگانگت کے داعی نظرآتے ہیں۔ کچھ اشعار دیکھیے:
میں جی رہا ہوں جینا مرا فریضہ ہے
جہانِ نو کی فضا گرچہ ساز گار نہیں
مرا وجود عبارت ہی کائنات سے ہے
میں کائنات سے کٹ کر جیوں تو کیسے جیوں
جاویداحسنکے ہاں زندگی کی تمام صورتیں جلوہ گر ہیں۔وہ زندگی اور لوازماتِ زندگی سے بے انت محبت کرتے ہیں۔ان کا یہ انداز فلسفیانہ اورحکیمانہ ہے۔ جوہمیں زندگی کے متعلق سوچنے پرمجبورکرتاہے۔جاویداحسن کے نظریۂ حیات میںان کااحسن عقیدہ روحِ توحیداورخطۂ ارض کی ہرقوم اس کی ملّت ہے۔
روحِ توحید ہے احسن یہ عقیدہ میرا
خطّۂ ارض کی ہرقوم ہے ملّت میری ” ١٣
٭٭٭
صفحہ نمبر٥٥: ”١٩٢٠ء تا١٩٨٠ء کے دودہائیوں کازمانہ ہمارے ادب میں کئی ادبی اورفکری تحریکات کازمانہ ہے۔” (مقالہ نگار)
گرفت: ١٩٢٠ء تا١٩٨٠ ء تک کازمانہ دودہائیاں نہیں بل کہ چھے دہائیوں کومحیط ہے ۔معلوم ہوا مقالہ نگار کا ریاضی بھی کمزور ہے۔ (ساجد)
صفحہ نمبر٥٧: ع:حریم ذا ت میں ہے شورش فغاں تیری
گرفت: لفظ”حریم ” اور”شورش”پراضافت لازمی ہے ۔بغیراضافت شعرکے آہنگ کانظام درہم برہم ہورہاہے۔
ع:حریمِ ذا ت میں ہے شورشِ فغاں تیری ١٤
صفحہ نمبر٥٨: مرے وطن تیری مٹی سے بدن میرا
ہے تُو ہی میرا نشیمن ،تو ہی چمن میرا
تیرے اناج پہ قائم ہے زندگی میری
تیری کپاس سے بنتا ہے پیراہن میرا
گرفت:مصرع اوّل میںلفظ”تیری” سوم میں ”تیرے”اورمصرع چہارم میں ”تیری ”وزن میں مخل ہیں۔لہذا یہ بہ تخفیف ”ی” ہونے چاہئیں ۔دوسرایہ کہ لفظ ”پیراہن” سے مصرع خارج از بحرہوگیا ہے۔مقالہ نگار اورنگرانِ مقالہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ لفظ”پیراہن” کے دوتلفظ ہیں۔ایک تلفظ اشباع کے ساتھ اور دوسرابغیر اشباع کے ہے۔قطعہ ہٰذا کے مصرع چہارم میں بغیر اشباع ”پیرہن” ہونا چاہئیے۔
مرے وطن تری مٹّی سے ہے بدن میرا
ہے تُو ہی میرا نشیمن ، تُو ہی چمن میرا
ترے اناج پہ قائم ہے زندگی میری
تری کپاس سے بنتا ہے پیرہن میرا ١٥
صفحہ نمبر٦٣: لوٹے گا نہ زردار شبستان کے اُجالے نادار کے حصے میں شبِ تار نہ آئے گی
گرفت:مصرع اولیٰ لفظ”شبستان”کے اعلانِ نون سے مصرع خارج ازبحرہوا ہے۔لہذا لفظ ”شبستاں”ہونا چاہیے۔ (ساجد)
صفحہ نمبر٦٨: جب کبھی بکتا ہے بازارمیں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پر غریبوں کا لہو بکتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے کہ نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو نہیں رہتا ہے۔
گرفت :قطعہ کا مصرع سوم مقالہ نگار کی کارستانی سے بے وزن ہوگیا ہے۔صحیح قطعہ ملاحظہ ہو:
جب کبھی بکتا ہے بازارمیں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پر غریبوں کا لہو بکتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو نہیں رہتا ہے ١٦
صفحہ نمبر٧١: گرمیٔ سوزِ دروں سے مجھ پہ افشاں ہوا
جسم کے زنداں سے باہر کربلا کوئی نہیں
گرفت:مصرع اولیٰ میں ایک سبب خفیف کم ہونے کے باعث مصرع خارج ازوزن ہوگیا ہے۔علاوہ ازیں مصرع ثانی میں لفظ ”افشاں” بے محل ہے۔ درست شعر ملاحظہ ہو:
گرمیٔ سوزِ دروں سے مجھ پہ یہ افشا ہوا
جسم کے زنداں سے باہر کربلا کوئی نہیں ١٧
صفحہ نمبر٨١: ”عربی کے دوسرے شاعر جنہیں نعت گوئی میں خاص شہرت حاصل ہوئی ہے کعب بن ثابت ہیں۔” (مقالہ نگار)
گرفت:عربی زبان کے دوسرے نعت گو شاعر جنھیں نعت گوئی میں خاص شہرت حاصل ہے کعب بن زہیرہیں ۔کعب بن ثابت غلط تحقیق ہے۔ (ساجد)
صفحہ نمبر٨٣: ”مندرجہ ذیل قطعہ شاہ عبداللطیف دہلوی کا ہے ” (مقالہ نگار)
یا صاحب الجمالُ یا سیّدُ البشر
مِنْ وَّ جْہَک المنیر لقد نُور القمر
لا یمکن الثناء کمَ کان حقہ’
بعداز خدابرزگ توئی قصّہ مختصر
گرفت : شاہ عبداللطیف دہلوی نام کا کوئی شاعر نظر سے نہیں گزرا ۔مقالہ نگار کی تحقیق نادرست ہے ۔البتہ اس قطعہ کے حوالے سے جاویداحسن اپنی کتاب ”فی احسنِ تقویم ” میں لکھتے ہیں کہ”یہ قطعہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا ہے ”١٨۔مگر کلام کی اُٹھان شیخ سعدی کے اسلوب کی نشاندہی کرتی ہے۔حالانکہ اس پر مزیدتحقیق کی ضرورت ہے۔ (ساجد)
صفحہ نمبر٨٨: ہر نفس شام وسحرم وردِ زباں رکھتے ہیں
ہم کو محبوب ہے اتنا ، ترانام اے ساقی
گرفت:مصرع اولیٰ کی محرّرہ صورتِ خطی شعری لوازمات سے متصادم ہے۔درست شعردیکھیے:

ہر نفس شام و سحر وردِ زباں رکھتے ہیں
ہم کو محبوب ہے اتنا ، ترا نام اے ساقی ١٩
صفحہ نمبر٩٢: ترے رفیق کامیاب ، ترے غلام با مراد
فاتح و سرخرو ہوئے ، پورا ہوا کہا ترا
گرفت:شعرمذکور مرقومہ املاسے تحریفِ بحر کا شکار ہے۔یوں سمجھیے! شعرتوازن کے لحاظ سے دو لخت ہوگیا ہے۔مصرع اولیٰ بحرِ ہزج مثمن مقبوض مذال میں ہے جب کہ مصرع ثانی بحرِ رجز مثمن مطوی مخبون میں جا گھسا ہے۔یہ مقالہ نگار کی مندرجہ املا اورنگران کی غفلت کا نتیجہ ہے۔شعرمذکورہ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ لفظ ”میرے’مرے،تیرے،ترے”کے استعمال کے اسباب کیا ہیں۔صحیح شعرملاحظہ ہو:
تیرے رفیق کامیاب ، تیرے غلام با مراد
فاتح و سرخرو ہوئے ، پورا ہوا کہا ترا ٢٠
صفحہ نمبر٩٤: اک مدّت سے تمنا ہے یہی دل میںکریم
نعت کہنے کا مجھے خاص قرینہ دیدے
گرفت:مصرع اولیٰ لفظ ”اک ” کے استعمال سے بے وزن ہوگیا ہے۔ درست شعرملاحظہ ہو:
ایک مدّت سے تمنا ہے یہی دل میں کریم
نعت کہنے کا مجھے خاص قرینہ دیدے ٢١
صفحہ نمبر٩٤: محمدۖ کا صدقہ ہے روزی ہماری ہیں نوری حضوری گدائے محمدۖ
گرفت:شعرہٰذا پہلے صفحہ نمبر٨٩ پر رقم ہوچکا ہے۔ (ساجد)
صفحہ نمبر٩٧: یہ کس نے ہم گناہگاروں پہ لطفِ خاص فرمایا
ہماری خوش نصیبی کہ ستارے جگمگائے ہیں
گرفت:مصرع اولیٰ لفظ ”گناہگاروں”کی مندرجہ املا سے بے وزن ہے۔مذکورہ لفظ کے تلفظ ہیں”گناہگاروں”بروزن مفاعلاتن ،یہ بحرمرکّن کا رُکن ہے اور”گنہگاروں”بروزن مفاعیلن ”بحرہزج کا رُکن ہے۔مصرع ثانی میں لفظ ”کہ ” کیوجہ سے معنوی ابہام سے محفوظ نہ رہ سکا۔درست شعردیکھیے:
یہ کس نے ہم گنہگاروں پہ لطفِ خاص فرمایا
ہماری خوش نصیبی کے ستارے جگمگائے ہیں ٢٢
صفحہ نمبر٩٨: مرا غم ، مری خوشی ، مرے دل و جاں حضور
دین و دنیا ، مرا قبلہ ، مرا ایماں حضور
گرفت:راقم الحروف مندرجہ بالاسطور میں دلائل سے واضح کر چکا ہے کہ لفظ”مرا،میرا،میری،مری ” کا غلط استعمال توازن کے نظام کو درہم بر ہم کردیتا ہے۔شعرہٰذا بھی اسی کارستانی کا شکارہے۔دوسرایہ کہ قوافی میں اعلانِ نون کو حذف کرنے سے شعرنہایت بے وزن ہوا ہے۔درست شعر دیکھیے:
میرا غم ، میری خوشی ، میرے دل و جان حضور
دین و دنیا ، مرا قبلہ ، مرا ایمان حضور ٢٣
صفحہ نمبر٩٩: ترے بلاد میں گزرے ہیں وہ عظیم انساں کہ فرد فرد تھا اپنی جگہ ایمانِ زماں
گرفت:شعرکے مصرع ثانی میں لفظ ”ایمان کااندراج کتابت کی غلطی ہے ۔درست شعردیکھیے:
ترے بلاد میں گزرے ہیں وہ عظیم انساں
کہ فرد فرد تھا اپنی جگہ امامِ زماں ٢٤

صفحہ نمبر١٠٠: ہنوز وقت ہے اپنی خودی کو پہچانے
عدو کی چال کو سمجھیں ، فریب کو جانیں
گرفت:شعر کے مصرع اولیٰ میں قافیہ غلط رقم کیا گیا ہے۔صحیح قافیہ ”پہچانیں”ہے۔
صفحہ نمبر١٠١: السّلام اے رحمة اللعالمین ،خیرالوریٰ
ساقی کوثر ،شہ ،بطحا ،محمد مصطفی
گرفت:لفظ”رحمت اللعالمین” کے اعلانِ نون سے مصرع اولیٰ بے وزن ہوااورمصرع ثانی اضافتیں حذف کرنے سے بے بحرہوا۔مصرع ثانی میں ”ساقیٔ کوثر،شہِ بطحا”کی تراکیب ہونی چاہئیں۔
صفحہ نمبر ١٠٢: اُن کی انگشت کے اشارے کی قسم
چاندکو چیرکے رکھ دے یہ ہے طاقت اُنۖ کی
گرفت:شعرکا مصرع اولیٰ الفاظ کی قطع و بریدسے بے وزن ہوا۔درست شعرملاحظہ ہو:
اُنۖ کی انگشتِ شہادت کے اشارے کی قسم
چاند کو چیر کے رکھ دے یہ ہے طاقت اُنۖ کی ٢٥
صفحہ نمبر ١٠٣: جیسے خلّاق عالم نے بنایا اُس کی مرضی سے
اُسی محبوب کے جلوے مرے دل میں سمائے ہیں
گرفت:مصرع اولیٰ کے عروض میں لفظ ”جیسے ” وزن میں مخل ہے۔درست شعرہے کہ!
جسے خلّاق عالم نے بنایا اُس کی مرضی سے
اُسی محبوب کے جلوے مرے دل میں سمائے ہیں ٢٦
صفحہ نمبر١٠٤: ادب سے گام اے دیوانۂ شوق
ہرایک ذرہ حریمِ کبریا ہے
گرفت:مقالہ نگار نے شعرسے خوب آنکھ مچولی کی ۔اس طرح شعراپنی شعریت کھوچکا ہے۔درست وصحیح شعر دیکھیے:
ادب سے گام اے دیوانۂ شوق
ہر اک ذرّہ حریمِ کبریا ہے ٢٧
صفحہ نمبر١٠٥: دائم آباد رہے ارش معلّیٰ ترا
ہم کومحتاج کسی کا نہ خدایا کرنا
گرفت:مصرع اولیٰ میں لفظ ”ارش” کااملا غلط ہے۔صحیح املا ”عرش” ہے۔لفظ ”ترا”وزن میں مخل ہے۔درست شعرملاحظہ ہو:
دائم آباد رہے عرش معلّٰی تیرا
ہم کو محتاج کسی کا نہ خدایا کرنا ٢٨
صفحہ نمبر١٠٦:”جاویداحسن خان کی یہ کتاب نعتیہ شاعری کی تنقید پر مبنی ہے لیکن کتاب کانام اس متن (text)سے کسی طور بھی مطابقت نہیں رکھتا ……کتاب کا مافیہ بیشتر تنقید لوازمے پر مشتمل ہے…………مصنفِ اعلام نے تفہیمی مقدمات کرتے ہوئے کچھ نکات اُجاگرکیے ہیں مثلاً وہ لکھتے ہیں ۔ا۔نعت حدیثِ دلبری نہیں…………وغیرہ وغیرہ” (مقالہ نگار)
گرفت:مقالہ نگار نے پھر سے صفحہ نمبر١٠٦تا١٠٧ چوری کیے ہوئے مال سے بھردیا۔راقم الحروف نے کتاب”فی احسنِ تقویم ” کو تقویم کی صورت دیکھتے ہوئے اس پر مثبت انداز میں تبصرہ کیا تھا ۔جب کہ مقالہ نگارنے اس پر منفی تاثرات قائم کیے اورالفاظ وتراکیب واسلوب راقم کا لے صرف نافی ہوئے ہیں۔ ایسی چوری کو ادبی لوازمات میں سرقہ سلخ والمام کہتے ہیں ۔راقم الحروف کامضمون ملاحظہ فرمائیے:
”کتاب کا نام ”فی احسنِ تقویم” ایک جامع حیثیت کا حامل ہے ۔اگرکتاب میں موجودموضوعات کو ژرف نگاہی سے دیکھا جائے تو”فی احسنِ تقویم” اسم بامسمّیٰ ہے۔قرآن مجیدمیں ”فی احسنِ تقویم” کا استعمال مکمل اورمتوازن انسان کے لیے ہے۔فاضل مصنف نے ”فی احسنِ تقویم”کی اصطلاح نعتیہ شاعری درست اورمبّاح تجویز کی ہے جس میں نعتیہ شاعری کا انتقاد بھی شامل ہے۔
کتاب ہٰذامیں مصنف نے”عرضِ مصنف”میں اپنے تنقیدی شعور کے تحت چیدہ چیدہ اعلامِ نعت کے نکات اُجاگرکیے ہیں ،ملاحظہ ہوں:
١۔ نعت حدیثِ دلبری نہیں بل کہ احسن الحدیث اورمعنیٔ احسنِ تقویم ہے۔
٢۔ نعت مدحتِ رسولۖ یابیانِ سیرت ہی نہیں بل کہ حسن وعمل کی تحریک وتبلیغ بھی ہے۔
٣۔ نعت ایک نخلِ طوبیٰ ہے جس کی جڑیں پاتال تک اورشاخیںمقامِ محمود تک پھیلی ہوئی ہیں۔
٤۔ نعت محض رسمی عقیدت مندی ،مصنوعی شگفتگی،بے روح لفاظی ، خالی قافیہ پیمائی اور بے مقصد سخن طرازی کا نام نہیں بل کہ ایک روحانی، وجدانی اورایمانی داعیہ ہے۔
٥۔ نعت کا بنیادی وصف شانِ نبوّت ۖاورپیغام رسالتۖ کا حسنِ ابلاغ ہے۔ حضوراکرمۖ کی ذاتِ گرامی اپنے جمال میں اتنی مکمل ہے کہ اس کی مدحت میں کے لیے مجازی استعارے لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپۖکا اُسوۂ حسنہ اتنا جامع ہے کہ اس کے لیے حاشیہ آرائی قطعاً درکار نہیں۔”
مصنف کاشعور نعتیہ شعری تاریخ میں رسول اکرمۖ کے حوالے سے تفہیم کا ایک ہالہ بناتا ہے۔شعرأ کے لیے شعری لوازمات کا ایک اہم اورجامع باب وا کرتا ہے۔لہذا جاویداحسنکی کتاب ”فی احسنِ تقویم”نعتیہ شاعری کا ایک بصیرت افروز تنقیدی مطالعہ ہے۔جس سے نعتیہ ادب کی تخلیق،تنقیدوتحقیق کے میدانوں میں کام کرنے والے اہلِ فکرونظر بھرپوراستفادہ کرسکتے ہیں۔کتاب کی اہمیت وافادیت کا منہ بولتا ثبوت اُس کے ابواب اورمتنوّع موضوعات ہیں ۔”
صفحہ نمبر١٦٨:”جناب ہاشم شیر خان راقم ہیں۔جاویداحسن جیسی شخصیت روز بروزپیدا نہیں ہوتی ۔اس کا فنِ ادب شعرأ کی آبروتھااورڈیرہ غازیخان جیسے بنجرخطے کے لیے سرمایۂ افتخار تھا۔جاویداحسن خان نے اردوشاعری میں اپنی آوازکوگم نہیں ہونے دیا۔بلکہ اس کی آواز پورے عصری شعورکے ساتھ اُبھر ہے۔اس لیے کہ وہ بے وقت موت ہے۔اوریوں اعلیٰ معیاری شاعری کی موت ہے۔جس کی باگ ڈور بلاشبہ جاویداحسن کے ہاتھ میں تھی۔اورموت کے کرخت ہاتھوں نے یہ باگ ڈور اس چھین لی لیکن جو شاعری سرمایہ وہ چھوڑگیا ہے ۔شاعری اس پر نازاں رہے گی” (مقالہ نگار)
گرفت:اس تحریر سے صریحاً ثابت ہے کہ یہ تحریرجاویداحسن کی رحلت کے بعد کی ۔ مقالہ نگار نے یہ تحریرہاشم شیرخاںکے حوالے سے مقالے کا حصہ بنائی اوربحوالہ موصوف کی معروف کتاب ”دیرہ غازیخان کے تہذیبی خدّوخال”رکھا۔کتاب محولہ بالا کا سنِ اشاعت ١٩٩٧ء ہے ۔جاویداحسن کاسانحۂ ارتحال٢٠١٤ء پیش آیا۔لہذا حوالہ درست کیا جائے تاکہ ادبی تاریخ درست وصحیح مدوّن ہو۔ (ساجد)
صفحہ نمبر١٧١:”اس موقع پر ساجد فریدلغاری (جبکہ راقم کاقلمی نام فریدساجد لغاری ہے)جاویداحسن کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیاتھا۔”جاویداحسن عصری اورمعاشرتی تقاضوں نظراندازنہیں کرسکتے ۔وطنِ عزیز میں دنیا کے کسی گوشے میں جہاں بھی کوئی اہم تحریک اُٹھی۔جاویداحسن اس سے ضرورمتاثرہوئے اوراسے اپنی شاعری کاایک حصہ بنایا۔جاویداحسنکی نظمیں صرف خیالات ہی کی توانائی کی حامل نہیںبلکہ شاعرانہ اظہار کا حسن بھی اپنے اندررکھتی ہیں۔اوراُن کی خوداعتمادی کی آئینہ دارہیں۔” (مقالہ نگار)
گرفت:مذکورہ بالا تحریرکو راقم الحروف کے حوالے سے شاملِ مقالہ کیاگیاہے۔جب کہ یہ تحریر راقم الحروف کی نہیں حوالہ غلط ہے حوالہ درست کیا جائے۔” (ساجد)
صفحہ نمبر١٧٥:ساجد فریدلغاری کا یہ قطعہ جاوید احسن کے فن کی بھرپورعکاسی کرتاہے۔
خوب تھا اسلوب تیرا ،خوب تر طرزِ بیاں
نطق کو سو ناز تجھ پر فکر تیری ہے جواں
تیرے علم و فکر و فن کا معترف تھا اک جہاں
بخش دی اشعار کو تو نے بہارِ جاوداں
(مقالہ نگار)
گرفت:تعجب ہے کہ مقالہ نگار ایم فل اردو کے طالب علم ہیں لیکن موصوف کو اصنافِ سخن پرگرفت نہیں۔راقم الحروف نے جاویداحسن کا مرثیہ ”مسدس ”شکل میں تحریرکیاہے۔یہ قطعہ نہیں ۔دوسرا یہ مقالہ نگارنے پورے مقالے میں راقم الحروف کانام ساجدفریدلغاری غلط تحریرکیا ہے۔راقم الحروف کا صحیح قلمی وادبی نام فریدساجد لغاری ہے۔لہذمقالہ میں راقم الحروف کانام درست وصحیح لکھا جائے۔مذکورہ بالا مسدس ملاحظہ ہو:
خوب تھا اسلوب تیرا ،خوب تر طرزِ بیاں
نطق کو سو ناز تجھ پر فکر تیری ہے جواں
تیرے علم و فکر و فن کا معترف تھا اک جہاں
بخش دی اشعار کو تو نے بہارِ جاوداں
نکہتِ گُل تھا کہ تُو ، بادِ صبا تھا دوستا
نغمۂ اقبال کا تُو ہم نوا تھا دوستا ٢٩
جاویداحسن ایک پہلودار اورہمہ جہت شخصیت تھے۔ادبی دنیا میں اُنھیں ناصرف سندکے طورپر لیاجاتاتھا بل کہ موصوف شعرگوئی اورشعرفہمی میںمسلّمہ حیثیت کے حامل تھے۔مقالہ نگارکے جنبشِ قلم اورنگران مقالہ کی عدم دلچسپی سے جاویداحسن کے فکروفن کا نظام درہم برہم ہوا ہے۔اُن کے بطوراستدلال لکھے گئے تین درجن اشعار بری طرح مضروب و مجروح ہوئے ہیں۔اس طرح یہ سب اشعار لوازماتِ شعرسے متصام ہیں۔مقالے کاقاری جاویداحسن کو بے وزن اورمہمل شاعرکہنے میں کوئی تامّل اختیار نہیں کرے گاحالاں کہ جاویداحسن کافکروفن ان سب لغزشوں سے پاک ہے۔
المختصر یہ کہ ! مقالہ مذکورسے جاویداحسن کی شخصیت بری طرح متاثرہوئی ہے۔کیونکہ جاویداحسنکی بہت سی ادبی جہات پرتبصرہ نہیں کیاگیاہے۔ وہ ایک شاعرونقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے تقریظ نگار اورمکتوب نگار بھی تھے۔جاویداحسن کے ان خصائص کو پردۂ اخفامیں رکھا گیاہے۔علاوہ ازیں جس طرح اُن کاشماراردوزبان کے اُستادشعرأ میں تھا ۔اس طرح وہ سرائیکی زبان کے Legandاُستادشاعرتھے۔افسوس صدافسوس کہ ان حوالوںسے ایک سطرتک بھی مقالہ میں نہیں ملتی۔اس چشم پوشی ،کاہلی اورعدم توجہی کے بارے میں جاوید احسن نے کیا خوب کہا کہ!
ثبوتِ علم نہیں ہے نصاب کی تعلیم
یہ ڈگریاں ہیں حقیقت میں پرمٹوں کی طرح

یہ خواندگی کے مراکز ہیں جامعات نہیں
اساتذہ کی بھی حالت ہے جاہلوں کی طرح
بہاؤالدّین زکریایونیورسٹی ،ملتان کے منتظمِ اعلیٰ سے التماس ہے کہ ایم فل کے طالب علم عبدالوحید رولنمبر١٦ جاویداحسن کی شخصیت وفن کا احاطہ نہیں کرسکے ۔مقالہ میں غلط حوالہ جات کاانبار ہے۔سرقہ بھی خالی ازتبصرہ نہیں۔الفاظ کی قطع وبرید اورکمی وبیشی سے اُن کے تین درجن اشعار اپنافنّی ترفّع کھو چکے ہیں۔لہذایونیورسٹی طالب علم کوحکمِ ثانی صادرفرماکر مقالہ کی نوک پلک درست وصحیح کرائے ۔تاکہ صحیح متن اورحوالہ جات کے ساتھ صحف ادبی تاریخ مدوّن ہوسکے جو کہ یہ امرِ قرینِ انصاف اور یونیورسٹی کے دائرۂ اختیار میں ہے۔
٭٭٭٭٭
(حوالہ جات)
١۔”چشمِ غزال” طباعت٢٠١٣ء ،سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازیخان ۔ص١٧٢ ٢۔”چشمِ غزال” طباعت٢٠١٣ء ،سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازیخان ۔ص٨٤
٣۔”چشمِ غزال” طباعت٢٠١٣ء ،سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازیخان ۔ص٤ ٤۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٧
٥۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٣١ ٦۔”چشمِ غزال” طباعت٢٠١٣ء ،سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازیخان ۔ص٨٣
٧۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٨٩ ٨۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٣٨
٩۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٧٨ ١٠۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٩٣
١١۔”چشمِ غزال” طباعت٢٠١٣ء ،سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازیخان ۔ص٩١ ١٢۔”چشمِ غزال” طباعت٢٠١٣ء ،سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازیخان ۔ص٧٧
١٣۔سہ ماہی ”دامان”اکتوبرتادسمبر٢٠٠٦ء شمارہ چوٹی بالا دیرہ غازی خان ص٢٣ ١٤۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٢٣
١٥۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٢٦ ١٦۔”نسخہ ہائے وفا”سن طباعت لاہور ۔ص٧٢
١٧۔”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٢٢٠ ١٨۔”فی احسنِ تقویم”اشاعت ١٩٩٧ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٧٣
١٩۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٩١ ٢٠۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٦٥
٢١۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٣١ ٢٢۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٦٣
٢٣۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٧٣ ٢٤”جمالِ صحرا”اگست ١٩٩١ء سلیمان ادبی اکیڈمی ،دیرہ غازی خان ۔ص٧٧
٢٥۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٧٤ ٢٦۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٦٣
٢٧۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص٨٨ ٢٨۔ ”لوح شفاعت”٢٠٠٩ء سلیمان ادبی اکیڈمی دیرہ غازی خان۔ص١٠٣
٢٩۔٢٦نومبر٢٠١٤ء روزنامہ ”نوائے وقت ”ملتان

تحریر : فرید ساجد لغاری، چوٹی بالا۔دیرہ غازیخان