چند یوم قبل ابائی شہر سے لاہور آتے ہوئے راستہ میں ایک انڈین فلم دیکھنے کا اتفاق ہو ایہ فلم ایک معزز شہری سے کریمینل بننے تک کے سفر پر مشتمل تھی جس میں ولن کا کردار ایک ایس پی جبکہ سائیڈ ہیروز میں سے ایک سیاستدان اور دوسرا انسپکٹر تھا اور ہیرو ظاہری طورپر ایک کریمینل تھا جس کاا صلی چہرہ فلم کے اینڈ پر سامنے آیا کیونکہ شروع میں ولن ہیرو محسوس ہو رہا تھا جبکہ ہیروز سائیڈ ولن اور ولن محسوس ہو رہے تھے۔
فلم کا اینڈ ہونے پر معلوم ہوا کہ اصل میں یہ کریمینل نہیں بلکہ ایک عام شہری تھا جسے ولن ایس پی کی جانب سے کئے گئے ایک آپریشن نے قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور کیا جوکہ بذاتِ خود ایک قانونی کریمینل تھا اور ملک دشمن قوتوں کے اشاروں پر ایک پُر امن علاقہ کو کریمینلز کا گڑھ قرار دیتے ہوئے چند سکوں کے عوض کیا گیاتھااس آپریشن میںکئی گھر جلا دیئے گئے تھے اور ہزاروں لوگ گولیوں سے چھلنی کر دیئے گئے تھے جس سے کئی ہستے بستے گھر اُجڑ چکے تھے کئی گھروں کو جلا دیئے جانے کی وجہ سے سینکڑو یتیم ہوچکے تھے اور کئی بیوائیں ہوچکی تھی۔
رہی سہی کثر یہاں کے شہریوں کو کریمینلز قرار دے کر اِس علاقہ کو سیل کر تے ہوئے ان کی خوراک وغیرہ بند کرکے نکالی جا رہی تھی جس کے سبب وہ خودکو ہی کاٹ کاٹ کر کھانے پر مجبور ہو چکے تھے سائیڈ ہیروز( انسپکٹر ) اور سیاستدان اس کاروائی کے سخت مخالف تھے مگر اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتے تھے ،خیر تھی تویہ فلم ہی اور تھی بھی انڈین مگراس میں چہرا مجھے اپنی پولیس کا نظر آرہا تھا کیونکہ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا پولیس کے پاس بیش بہا اختیارات ہیںجن کا درست استعمال کم جبکہ غلط استعمال زیادہ ہو رہاہے،ان اختیارات کی بدولت وہ جس کو چاہتی ہے کریمینل ریکارڈ یافتہ بنا دیتی ہے اور جسے چاہتی ہے۔
ممبر پر بٹھا دیتی ہے ،کسی مسجد کے امام کو شرابی و زانی قرار دے دے تو ہماری پولیس دے دے ،ہاتھ میں بوتل اٹھائے بگل میں لڑکی لئے کسی فٹ پاتھ پر بیٹھے کو امام بنا دے تو ہماری پولیس بنا دے ، اسی ہی طرح ہمارے ہاں مقدمات کی تفتیشیں بھی ٹھوس شواہد کی بنا پر نہیں ہوتیں بلکہ ووٹنگ ،بذریعہ روپیہ پیسہ، یا سفارشات کی بنیاد پر کی جاتی ہیں کیونکہ جب بنیاد ہی مختلف قیمتوں کے عوض اور سنی سنائی باتوں پر خوشنودیاں وسستی شہرتیںحاصل کرنے کیلئے رکھی جائے (مراداندراج مقدمہ )تو اس کی انویسٹی گیشن میرٹ پر کیسے ہو سکتی ہے؟ جس کے نتیجہ میں ان تفتیشوں میں 70فیصد بے گناہ لوگ گناہ ہوکر جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہیں جبکہ گناہ گار بے گناہ ہو کرآزادانہ گھومتے پھرتے ہیں ،اور جب تک ان بے گناہوں کی رہائی کا وقت آتا ہے تب تک انہیں رہا کروانے والے ان کے اہلِ خانہ گھر کے برتن تک بیچ چکے ہوتے ہیں،پھرنہ کھانے کیلئے کچھ بچتا ہے نہ پہننے کیلئے نہ سر چھپانے کو جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی سونے کیلئے چارپائی رہتی ہے ،اور رہی سہی کثر اس رہائی پانے والے سے نفرت کرنے والے نکال دیتے ہیں۔
Punjab Government
ن حالات میں رہائی پانے والا اس ہر پل کی موت کے بجائے ایک ہی بار مرنے کو ترجیح دیتے ہوئے ہاتھ میں بندوق اٹھائے کسی نا کسی روڈ پر ناکہ لگا بیٹھتا ہے اور حقیقی مجرم بن جاتا ہے جس کی ذمہ دار بھی کوئی اور نہیںہماری حکومتیں ہی ہیں ،جو آئے روز اِس محکمہ کی تنخواہیں و اختیارات تو دوگناہ کر دیتی ہے مگر ان کی تعلیم، تربیت یا چیک اینڈ بیلنس پر ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دیتیں،جیسا کہ آج کل حکومت پنجاب نے پولیس کو پولیس مقابلوں میں ڈاکوئوں کو مارنے کے اختیارات تو دے دیئے ہیں مگر یہ چیک نہیں کیا جارہا کہ پولیس یہ مقابلے اصلی کر رہی ہے یاجعلی و فرضی ؟اور ان مقابلوں میںکتنے بے گناہ ،کتنے حراستی اور کتنے حقیقی ملزم مارے جا رہے ہیں؟اور نہ ہی آج تک کسی حکمران نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم کس نوعیت کے انسان کو کتنے اختیارات دے رہے ہیں،اور وہ ان کا استعمال کہاں کر رہا ہے بلکہ یہ سوچتے ہیں کہ کس کے پیچھے کتنی بڑی سفارش ہے۔
کون کس کاوفا دار ہے اور کون کتنی منتھلی دے سکتا ہے جس کے نتیجہ میں ایک انٹر میڈیٹ آدمی کو ستر سے اسی ہزار شہریوں کی جان و مال وعزت وآبرو کا مالک بنا دیا جاتا ہے ،جبکہ ایمانداراورپی ایچ ڈی جیسی ڈگریاں رکھنے والے لوگ سڑکوں کنارے چنے بیچ کر پیٹ پالنے پر مجبور ہیںیہی معیار اتنی ساری ایجنسیز میڈیا اور فورسز ہونے کے باوجود جرائم میں کمی کرنے کی بجائے آئے روز اضافہ ہی اضافہ ہوتا کرتا چلا جا رہا ہے ،جس کی بدولت اب ہر شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے عدلیہ اور میڈیا کا رُخ کرنے لگا ہے ،کیونکہ آزاد عدلیہ پر اُنہیں پورا یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمیںانصاف فراہم کرے گی اور وہاں سے یعنی کہ اعلیٰ عدلیہ سے انصاف ملتا بھی ہے کیونکہ وہاں وسیع اختیارات کی دستیابی ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ علم کی دستیابی اور کسی بھی قسم کی کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی جبکہ میڈیا کا رُخ اس لئے کرتے ہیں کہ میڈیا پرسنز ہماری آواز اعلیٰ حکام تک پہنچائیں گے جس کی بدولت حکومت سسٹم میں موجود یہ خرابی درست کر تے ہوئے ہمیں سکھ کا سانس لینے کی فرصت دے گی مگر ایسیا ہوتا بہت کم ہے کیونکہ اعلیٰ عہدیدار بھی میڈیا رپورٹس سے اتفاق کرنے کی بجائے زیادہ تر محکمانہ رپورٹس سے ہی اتفاق کرتے ہوئے سسٹم میں موجود خرابیوں کی درستگی کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ،جبکہ رپورٹس کرنے والے (مُرادپولیس)میڈیا پرسنز کے پیچھے پڑھ جاتاے ہیںجیسا کہ پاکپتن پولیس حقائق کی اشاعت پرایک رپورٹر کو جیل بھیجنے کیلئے دِن رات سر گرم عمل ہے۔
خیراگرحکومت میڈیا و حساس اداروں کی رپورٹس سے اتفاق کرتے ہوئے اس محکمہ کی تربیت وچیک اینڈ بیلنس اور انویسٹی گیشن کا نظام بہتر کرتے ہوئے اس کام کیلئے تھانوںمیںاعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تعینات کر دیں تو یقینا آدھے جرائم یک دم ختم ہو جائیں۔
اس امر سے حکمران بھی بخوبی واقف ہیں ،مگر افسوس کہ ہماری سیاست کا محور بھی تو تھانہ کچہری ہی ہے جس کے خاتمے کے نعرے تو ہر حکومت ہی لگاتی ہے مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد منحرف ہو جاتی ہے ،کیونکہ کسی بھی فرد سے لے کر ادارے اور معاشرے تک کی اصلاح اُس وقت ہی ممکن ہوتی ہے جب اصلاح کرنے والا خود صحیح ہوگا یعنی کہ کسی دوسرے کی برائیوں کی درستگی کرنے والا خود ان تمام تر برائیوں سے پاک ہوگا تو ورنہ وہ اسی ہی بُرے کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر ہمارے موجودہ و سابقہ حکمرانوں کی طرح چُپ سادھ لے گا،اس چُپ کے ساتھ ہی اگلے کالم تک کیلئے اجازت چاہوں گا اللہ ربُ العزت ہم سب کو اپنی اپنی خامیاں درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین (فی ایمان ِللہ)۔
Muhammad Amjad khan
تحریر : محمد امجد خان Email:Pardahchaak@gmail.com Mobe No:0343 6999818