اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صوبائی خود مختاری اور اختیارات کے نچلی سطح پر منتقلی سے عوام کی ترقی کا عمل تیز ہوتاہے مگر وہ لوگ کس قدر ظالم لوگ ہونگے جو اس انداز عوام کا وقتی طور پر دل بھی خوش کردیں اور بعد میں ان کو چونا بھی لگاجائیں ۔ملک میں اٹھارویں ترمیم کا مقصد صوبوں کے ساتھ محکموں خاص کرکے دو اہم محکمے محکمہ صحت اور تعلیم کی صورتحال میں تبدیلیاں لانا تھی کیوں ان دونوں ہی اداروں کا تعلق خاص طور پر عوام کی فلاح وبہبود کے ساتھ جڑاہواہے مگر جب اس ترمیم کے نفاز کے بعد ہم ان محکموں کی کا رکردگی کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آجائے گا کہ ہمیں ان نو سالوں میں مایوسیوں کے سوا کچھ نہ حاصل ہوسکاہے اور آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے پاپا اور پپو اس بات کے لیے خاصے فکر منددکھائی دیتے ہیں کہ کہیں وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم کو ختم تو نہیں کرنے جارہی ہے ؟۔سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اٹھارویں ترمیم کو کیوں بچانا چاہتی ہے اور اس کے اس سلسلے میں کیامفادات ہیں اور یہ کہ اس اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں میں کسقدرترقی ہوئی اور صوبے مظبوط ہوئے ،8اپریل 2010کواٹھارویں ترمیم لاکر سارے اختیارات جو کے کبھی صدر مملکت کے پاس ہواکرتے تھے وہ ایک وزیراعظم کے حوالے کردیئے گئے اس سارے عمل میں جہاں ایک الگ سے تاثر پھیلایا گیا وہاں کچھ معاملات میں جو اہم تبدیلیاں کی گئی ان میں یہ بھی تھا کہ وفاق کے بہت سارے معاملات بھی صوبوں کے حوالے کردیئے گئے تھے اس کے لیے پیپلزپارٹی کی حکومت کے زہن میں یہ بات بھی ضرور ہوگی کہ اگلی بار اگر ان کی وفاق میں دوبارہ حکومت نہ بھی بن سکے تو سندھ میں توان ہی کے لوگ کامیاب ہونگے۔
یہ تاثر رکھنا کافی نہیں تھا بلکہ صوبوں کی مظبوطی اور خودمختاری میں جو اس کی ترقی میں استعمال ہونے والے فنڈ کا معاملہ تھا اس پربھی کچھ لوگوں کی نظرٹکی ہوئی تھی کہ اس ترمیم سے عوام کو تو کیا خاک عزت وترقی ملنے والی ہے ہاںیہ ضرورہے کہ یہ تمام تر کرپٹ عناصر اپنی مظبوطی کا ایک حصارضروراپنے اردگردکھینچ لیں گے اور جتنا چاہیں گے مال بنائیں گے اوراس طرح کبھی وفاق کو جواب دہ بھی نہیں ہونگے،اس ترمیم کے آنے سے بہت سی وزارتوں کے جملہ حقوق بھی صوبوں میں منتقل ہوچکے ہیں تھے جن میں محکمہ صحت ،محکمہ تعلیم ،محکمہ داخلہ ،محکمہ ایری گیشن سمیت بہت سے دیگر اہم اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل ہوئے اب ہم اگر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا نہ ان وزراتوں نے سندھ میں کیا کیا کارنے سرانجام دیئے ہیں عوام خود ہی بتادیں کہ کیا،محکمہ صحت سندھ بھر میں اپنا کرداربخوبی سرانجام دے رہاہے ؟ کیالوگوں کاعلاج معالجہ اور ہسپتالوں میں ادویات اور عملہ موجودہوتاہے کیا ان ہسپتالوں میں بروقت ڈاکٹرز اور وہ تمام تر سہولیات میسر ہوتی ہیں ؟ اس پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین صاحب میاں نوازشریف کی نامعلوم بیماری کا نسخہ تلاش کرنے کے لیے انہیں سندھ سے علاج کروانے کا مشور ہ دے ہیں یعنی ان کافر مان ہے کہ نوازشریف صاحب اپنا علاج لندن سے کروانے کی بجائے ان کے پیرس سے کروالیں جس کا نام صوبہ سندھ ہے۔
گزشتہ دنوں میں نے خود سندھ اسمبلی میں سندھ بھر میں صحت کی ناقص ترین صورتحال کے پیش نظر ایک قرارداد جمع کروائی تھی جس میں یہ تک درج تھا کہ لاڑکانہ میں ہسپتالوں کی حالت زار یہ ہے کہ وہاں ایمبولینس تک نہیں جبکہ سجاول ٹھٹہ ،کھوسکی اور دیگر مقامات پر توکتے کے کاٹنے کی ویکسین تک موجود نہیں یہ کیا بھلا کسی سابق وزیراعظم کا علاج کرینگے ،یہاں چھ کروڑ کی آ بادی میں جتنے بھی ہسپتال کام کررہے ہیں وہاں صرف 13ہزار بستروں کی گنجائش ہے مطلب کے 13سو مریضوں پر ایک ڈاکٹر کو خدمت پر لگارکھاہے نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے ،جبکہ یہ ادویات کے معاملے میں اس قدر سنگ دل ہیں کہ جہاں یہ خود مریضوں کے نام پر اپنی جیبیں بھرتے ہیں وہاں یہ غیر ملکی اور پاکستانی رضاکارانہ تنظیموں کی جانب سے دیے جانے والا امدادی سامان کو بھی نہیں بخشتے ہیں ، اب زرا یہ جانتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں کیا سنھری دور رقم ہواہے ،آج سندھ بھر میں اس بوسیدہ تعلیمی نظام کے نگرانوں نے اسکولوں کو اپنی زاتی جاگیروں کا نام دے دیاہے جہاں بچوں کو علم کی شمع سے روشناس کروایاجاتاہے وہاں آج جانوروں کو باندھنے کی جگہ میں تبدیل کردیاگیا ہے سندھ کے وڈیروں نے مقامی اسکولوں کو اوطاقوں کی شکل دیدی ہے ،کہیں بچوں کے سروں پر چھت نہیں ہے تو کہیں بچو ں کے بیٹھنے کے لیے انہیں ٹاٹ تک میسر نہیں ہے۔
گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں سندھ بھر میں حیرت انگیز طور پر پانچ ہزار سے زائد اسکول بند ہوچکے ہیں اور طالبات کی تعداد میں لاکھوں کی تعداد میں کمی آئی مگر اساتذہ کرام کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہاہے جو اپنی تنخواہیں لیتے ہیں لیکن بچوں کو پڑھانے تک نہیں آتے اور نہ ہی اس معاملے میں ان سے کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے،وجہ پیسہ لے کر بھرتی کرنا ہی ہوسکتاہے جبکہ تقریباًبیس ہزا ر سے زائداسکول بیت الخلاتک سے محروم ہیں اور تقریباًاتنے ہی اسکولوں میں پانی اور بجلی کا نظام موجود نہیں ہے یہاں ہزارو ں اسکول چھتوں اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم ہیں اور اس ریسرچ کے شوقین افراد کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ سندھ کے حلقے میں ہی جاکردیکھ لیں کہ وہاں پر کون کون سے اسکول جدید تعلیم نظام سے آرستہ ہیں مگر ان لوگوں کی باتیں سن کر تو ایسا لگتاہے کہ جیسے دنیا کا جدید ترین تعلیمی نظام اگر کسی نے دیکھنا ہے تو وہ سندھ میں آکر دیکھیں بقول محترم خورشید شاہ کے اگر کسی نے لندن اور پیرس دیکھنا ہے تو سندھ میں آکر دیکھے۔
جبکہ میں یہ کہتا ہوں کہ سندھ بھر میں اگر کسی نے گھوسٹ اسکولوں اور اساتذہ کی جعلی بھرتیوں کے اسیکنڈل دیکھنے ہیں تو وہ سندھ میں آکر دیکھے ،بلکل یہ ہی حال باقی ان وزارتوں کا بھی ہے جو صوبے کی خود مختاری کے نام سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو ملے ہوئے ہیں مطلب کے پورے سندھ میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے 18ویں ترمیم کو لیکر 2010میں جو سپنے عوام کو دکھائے گئے وہ د رحقیت وہ اس قدر بھیانک خوابوں میں بدل جائیں گے یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب واضح ہوتا جارہاہے ،ان نو سالوں میں دل کھول کر عوام کی درگت بنائی گئی اور خوب مال بنایا گیا ان صوبوں کو برابر فنڈاور سہولیات ملنے کے باوجود عوام کو خاک کا ایک دانہ بھی میسر نہیں ہے ہاں ایک تبدیلی ضرورہے کہ جن کے محلات پانچ ہزار ایکڑ پر ہواکرتے تھے ان کے محلات اب مزید وسیع ہوگئے ان رقبوں میں حیرت انگیر طورپر اضافہ ہواہے جیسے کہ اس اٹھارویں ترمیم کی بدولت اب ان سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے کہ یہ مال کہاں سے بنایاہے ۔یعنی یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ اس ترمیم نے صوبوں کو مزید مشکل میں ڈال دیاہے اس تکلیف کو ایک عام آدمی تو محسوس کرسکتاہے مگر پاپا اور پپو اس مسئلے پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکتے کیونکہ یہ وہ راز کی باتیں ہیں جو ایک ایک کر کے سب کھلنے والی ہیں۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار ہے گا۔