لاہور (جیوڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے شہر میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے راستے میں آنے والی 11 تاریخی عمارتوں کے قریب تعمیراتی کام کے تمام اجازت نامے منسوخ کرتے ہوئے ان عمارتوں کے قریب دو سو فٹ کی حدود میں ہر قسم کی تعمیرات پر پابندی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
اس معاملے کی سماعت مکمل ہونے پر 11 جولائی کو محفوظ کیا جانے والا فیصلہ جمعے کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سنایا جس میں اس سلسلے میں حکومتِ پنجاب کی درخواستیں خارج کر دی گئیں۔
عدالت کے اس حکم سے ایک روز قبل ہی تعلیم، سائنس اور آثارِ قدیمہ کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نےاپنے بیان میں حکومتِ پاکستان نے کہا تھا کہ وہ لاہور میں شالامار باغ کے نواحی علاقے میں، جو دنیا کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے، اورنج ٹرین منصوبے پر کام کو بند کرے اور متبادل راستہ فراہم کرے۔
جمعے کو عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے مختصر حکم نامے کے مطابق اس سلسلے میں 16 نومبر 2015، 30 نومبر 2015 اور چھ مئی 2016 کو حکومتِ پنجاب کی جانب سے جاری کیے جانے والے تجدیدی این او سی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے رواں سال 28 جنوری کو اپنے حکم نامے میں تاریخی مقامات کی حدود سے 200 فٹ کے فاصلے پر کام روکنے کے سلسلے میں حکمِ امتناع جاری کیا تھا جس کے خلاف حکومتِ پنجاب نے درخواست دی تھی۔
جن عمارتوں کے اطراف میں تعمیر روکنے کے احکامات دیے گئے تھے ان میں شالامار باغ، گلابی باغ، بدھو مقبرہ، چوبرجی، زیب النسا مقبرہ، لکشمی بلڈنگ، جنرل پوسٹ آفس، سپریم کورٹ رجسٹری بلڈنگ، ایوانِ اوقاف، سینٹ اینڈریوز چرچ اور بابا موج دریا دربار اور مسجد شامل ہیں۔
اپنے فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے این او سی قانونی طور پر مجاز اتھارٹی کے بغیر جاری کیے گئے اس لیے ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
عدالت عالیہ نے محکمہ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سے کہا ہے کہ وہ عالمی معیار کے ایک غیر جانبدار مشیر کے ذریعے اس منصوبے کی تازہ رپورٹ تیار کریں۔
تاہم عدالت نے اورنج لائن ٹرین منصوبے سے ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کے سلسلے میں دائر کی گئی درخواست بھی خارج کر دی ہے۔
لاہور سے صحافی عبدالناصر خان کے مطابق اورنج لائن منصوبے کے خلاف درخواست گزاروں کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ یہ منصوبہ تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے طے شدہ عالمی اصولوں کے منافی ہے اور عالمی ماہرین اور تاریخی ورثے کی حفاظت کے اداروں نے اسے لاہور کے تاریخی ورثے کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
تاہم پنجاب حکومت کا اصرار تھا کہ منصوبہ وسیع تر قومی مفاد میں ہے اور یہ مستقبل کے میگا پراجیکٹس کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے جس کی تکمیل سے مستقبل کے بڑے منصوبوں کے بارے میں ترجیحات طے ہوں گی۔
ماضی میں سماعتوں کے دوران اظہرصدیق نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ ’محکمہ آثار قدیمہ کے سابق ڈائریکٹر کو پانچ عمارتوں کا این او سی جاری نہ کرنے پر تبدیل کر دیا گیاجبکہ دیگر چھ عمارتوں کا این او سی چیف سیکریٹری سے لیا گیا۔‘
عدالتی حکم نامے سے قبل اقوامِ متحدہ سے منسلک ماہرین نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ نئی میٹرو لائن بنانے کے لیے لوگوں سے زبردستی علاقہ خالی کروانے اور عمارتوں کو مسمار کرنے کا عمل بند کیا جائے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے محکمے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ادارے کے دو نمائندوں نے حکومتِ پاکستان سے کہا ہے کہ لاہور میں اورنج میٹرو لائن کی تعمیر کا کام روکا جائے جس کے لیے متعدد جبری انخلا کے واقعات پیش آئے ہیں اور اس کی وجہ سے کئی ثقافتی مقامات اور تاریخی عمارتوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔