کراچی (جیوڈیسک) کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کے شادی ہال کے ٹینک سے ملنے والی 6سالہ بچی کو آہوں اور سسکیوں میں سپردِ خاک کردیاگیا،نازک سی بچی کو ڈاکٹر بننے کا ایسا جنون تھا کہ خود کو پاکیزہ نہیں، ڈاکٹر پاکیزہ کہلوانا پسند کرتی تھی۔
چمکتی ہوئی پرعزم آنکھیں، گلاب چہرہ اور لبوں پر فرشتوں کی سی مسکراہٹ،افسوس کہ مسکراہٹ بکھیرنے والی تو فنا کر دی گئی، مگر اپنے پیچھے خون رُلانے والا ایسا غم چھوڑ گئی ہے، جو کبھی فنا نہیں ہوگا۔
کسی انسان کی سمجھ میں یہ حیوانیت آہی نہیں سکتی کہ کوئی پاکیزہ جیسے بچوں کے ساتھ ایسی ناپاک درندگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے اور مسئلہ صرف جرم کرنے والوں کا نہیں، بچی کے باپ کو جرائم روکنے والوں سے بھی کئی شکوے ہیں۔
بیٹیاں ماں کی سہیلی بھی ہوتی ہیں، اُن کے دکھ درد اور ذمے داریاں بانٹنے والی جبکہ پاکیزہ کی ماں سے مستقبل کی سہیلی ہی نہیں، زندگی کا سب سے بڑا خواب بھی چھین لیا گیا ہے، وہ بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتی تھی تاکہ لوگوں کا علاج کرسکے، مگر اُس کی موت ایک لاعلاج غم بن چکا ہے۔
کہتے ہیں، انسان جتنی محبت اولاد سے کرتا، اُس سے کہیں زیادہ اولاد کی اولاد سے کرتا ہے، اسی لئے پاکیزہ کی دادی پر قاتلوں کو اپنے ہاتھوں سے مارنے کا جنون سوار ہے، کہتی ہیں، ذرا اُن سورماوں کو سامنے تو لاؤ، اپنے ہاتھوں سے ماروں گی اُن کو۔
پاکیزہ کی لاش 7دن پرانی ہے، جسم گلنے کے باعث اس بات کا تعین نہیں ہوسکا کہ اُسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، یا وہ ڈوبنے کی وجہ سے ہلاک ہوئی تاہم زیادتی کی تصدیق ہوگئی ہے۔ پولیس نے قتل مقدمہ درج کرکے ہال کے مالک سمیت 16 افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔