تحریر : عبدالجبار خان دریشک آج پاکستان ایک آزادوخود مختیار مملکت ہے تو ان لاکھوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جو پاک وطن کے حصول کے لئے دی گئیں تھیں وطن کی خاطر ہمارے بزرگوں نے جتنی تکالیف اور مصائب برداشت کیے یہ خدا جانتا ہے کہ ان پر کتنے ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے پاکستان کے اندر رہنے والے دشمنوں کے وظیفہ خور تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو ایک ایک صفحے پر شہیدوں کا لہو ہی نظر آئے گا ان ماو ¿ں کی سسکیاں اور آہیں ہی سننے کو ملیں گی جن کی آنکھوں کے سامنے شیرخوار بچوں کو درندوں کی طرح چیر پھاڑ کر شہید کر دیا گیا تھا آزادی کے فوراً بعد دشمن کے پیٹ میں تکلیف شروع ہو گئی تھی اس وقت سے لے کر اب تک دشمن کسی نہ کسی طرح پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے وہ شروع دن سے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنی مکار سازش میں لگا ہوا ہے یہ اللہ پاک کا خاص کرم ہے پاکستان تا حال قائم ہے اور تا قیامت قائم رہے گا۔
قائداعظم محمد علی جناح کے بعد وطن عزیز کو ایسی کوئی قیادت نہ مل سکی جو ہر محاذ پر دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کو مضبوط بنا سکے بس جو بھی آیا اس نے دوسرے کو اپنے مفاد کی خاطر چلتا کیا اور یہ سلسلہ تاحال جارہی ہے جمہوری حکومتوں کا شکوہ رہا ہے انہیں مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور ڈکیٹروں نے کہا یہ سیاسی لوگ ملک کے لئے نقصان دہ تھے پھر ایسے ہی ہوتا رہا سب مل کر میوزیکل چیر کا کھیل کھیلنے لگے ایک ایک کر کے سب ایک دوسرے کے نیچے سے کرسی کھینچنے لگے اس اقتدار کے کھیل اور ذاتی مفاد نے ملک کو ہر طرح سے نقصان پہنچایا ان کے ذاتی مفادات نے دہشت گردی کو بھی دعوت دی اور ملکی وقومی ساکھ کو داو ¿ پر بھی لگایا گیا منافع بخش اداروں کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ کھایا گیا جو اب وجود تو رکھتے پر اندر سے مکمل طور پر کھوکھلے ہو چکے ہیں جن کے اوپر قرضوں اور بیل آوٹ پیکج کا پینٹ لگا کر کچھ دن زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے پر کب تک اپنے ہی مفاد کی خاطر سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگ بنائے گئے جو جماعتیں کبھی عوامی خدمت کی دعودار ہوتی تھیں وہی اپنے ہی لوگوں سے بھتہ لینے لگیں اسمبلوں میں قانون بنائے جاتے ہیں جن کا اطلاق صرف عام پاکستانیوں پر ہوتا ہے جب اپنے اوپر بجلی گرتی ہے تو قانون میں فوری تبدیلی کر کے اپنے آپ کو محفوظ بنا لیا جاتا ہے غریب بچارے انیس انیس سال جیلوں میں سٹر مرتے ہیں یا ساری زندگی جیل گزارنے کے بعد جب رہا ہوتے ہیں تو ان پر کوئی جرم ہی ثابت نہیں ہوتا وہ بے گناہی کی سزا بھگت چکے ہوتے ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو میوزیکل چیر کا کھیل زوروں سے جاری ہے کہ کرسی کب اور کیسے کس کے ہاتھ آتی ہے بلکہ کچھ امیدیں لگائی جاتی ہے کوئی مہربان بغیر گول چکر لگائے کرسی ان کے حوالے کر دے گا اقتدار کے حصول کے لئے لگائے جانے والے گول چکروں سے ان کے سر اتنا چکرا چکے ہیں کہ عوام اور ملکی مسائل نظر ہی نہیں آ رہے دشمن ہر ممکن شازش میں لگا ہوا ہے کہ وہ پاکستان کو کسی نہ کسی طرح ناکام ریاست بنا دے دوسرا ملک کے اندر کرپشن نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا ہے قوم کی فلاح کے لئے پوری دنیا سے قرض لیا جاتا ہے وہ قرض ایک راستے سے پاکستان میں آتا ہے تو چور راستے سے باہر شفٹ ہو جاتا ہے سوئس بنک ایسے تو نہیں بھر گئے یہ ہم سب پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی ہے جو باہر کے ملکوں میں بنک بیلینس اور جائیدادوں کی صورت میں موجود ہے ملک پر قرضوں کا بوحھ جس کا حجم 25 ہزار ارب روپے تک بڑھ چکا ہے وہ کس نے ادا کرنا ہے ہر پاکستانی بچہ ایک لاکھ روپے تک کا مقروض ہوتا ہے جب وہ پیدا ہوتا تو وہ آزاد باشندے کی بجائے قرضے کے پنجرے کا قیدی بن چکا ہوتا ہے ملک میں ہر روز سات ارب کی کرپشن ہوتی ہے سیاست دانوں کی کرپشن دیکھ کر پھر سب اپنی اپنی تجوریاں بھرنا شروع کر دیتے ہیں چپڑسی سے لے کر بڑے سے بڑے آفیسر کا جہاں بس چلتا ہے وہ چلا لیتا ہے جب سارے ہی گھر کے فرد گھر کو کھانے پر لگ جائیں گے تو گھر کا کیا ہو گا۔
عام پاکستانی کو کیا مل رہا ہے ہر طرف مافیائ اور طاقت ور لوگوں نے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں عام پاکستانی کے بچے کے لئے دودھ یوریا کھاد اور کیمکل والا گھی اور آئل مردہ جانوروں کی چرجی سے تیار شدہ سبزیاں اور عام استعمال کی اشیائ ایک تو مہنگی پھر اوپر سے اور ظلم دونمبر بھی یعنی بھاری رقم کی ادائیگی بھی دونمبری چیزوں کے لئے بیمار ہو جائیں تو ہسپتال کے ڈاکٹر علاج نہیں کرتے کوئی شکایت کریں تو غلطی سے پیٹ میں قینچی بھول جاتے ہیں ادویات جعلی اور دونمبر پھر ایسی حالت میں عام آدمی ہسپتال کے فرش پر مردہ پایا جاتا ہے بھلا ہو مرحوم عبدالستار ایدھی صاحب کا ان کی ایمبولینس سے لاش تو گھر آ جاتی ہے رسمن ہی سہی چار رشتے دار دو آنسو بہا کر باعزت طریقے سے لاش کو دفنا تو دیتے ہیں نہیں تو ان کا مردوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک سیون کے بم ھماکے اور سانحہ احمد پور شرقیہ میں سب پاکستانیوں نے دیکھ لیا تھا یہ لوگ خود یا ان کے پیارے بیمار ہوں تو اپنے بنائے گئے ہسپتالوں میں علاج کو توہین سمجھتے ہیں جن کے فوری علاج کے لئے باہر کی اڑان بھری جاتی ہے۔
اگر سکول ہیں تو اکثر بغیر عمارتوں کے جہاں نہ استاد ہیں نہ سہولیات غریب کا بچہ حیسے کیسے پڑھ بھی جاتا ہے تو انٹری ٹیسٹ سے اس کا راستہ روک لیا جاتا وہاں کرپشن کے ناسوروں نے بھی اپنا پیٹ اور تجوری بھرنے کے لئے حرام کھانا شروع کر دی ہے مسلسل تعلیم کے شعبہ کے ساتھ تجربات کیے جا رہے ہیں تجربات کی ناکامی کے بعد یہ شعبہ ملکمل طور پر پرائیویٹ مافیاء کے ہاتھ آچکا ہے سرکاری تعلیمی اداروں پر حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے ان کا کاروبار خوب چمک رہا ہے طالب علموں کا مستقبل چمک یا نہ چمک پر ان کو والدین کی جانب سے مال غنیمت ضرور ملنا چاہیے کھانے پینے اور ادویات کا تو سنا تھا جعلی ہوتی ہیں پر علم مافیائ نے تو کمال ہی کر دیا اب یونیورسٹیاں بھی جعلی قائم ہوگئی ہیں۔
اگر ملک کی بیرونی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو بھارت پاکستان خلاف مسلسل شازش میں لگا ہوا ہے کبھی وہ افغانستان کو گلے لگا سے کر جھوٹی ہمدری جتانے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی امریکہ کو گود میں خود جا کر بیٹھ جاتا ہے کہ پاکستان میں سی پیک خلاف شرارت کا حصہ بن جائے امریکہ بھی بھارت کے ابو کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بیان داغ دیتا ہے دوسری طرف امریکہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کر چکے ہیں یہ سب کسی نا کسی طرح پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں پاکستان کے خلاف ہونے والی شازشوں کو بو ہر پاکستانی محسوس کر رہا پر سیاست دان کیوں محسوس نہیں کرتے ہیں۔
بس آپس میں اقتدار کے لئے لڑتے ہی رہیں گے سب کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے آج پاکستان کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے جن کا مقابلہ متحد ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے ذاتی مفاد کی خاطر محاذ آرائی کاخاتمہ کرتے ہوئے ایک قوم بن کر ان تمام تر اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا دشمن کے دانت کھٹے اور آنکھیں پھوڑنی ہوں گی آنے والی نسلوں کو نیا پاکستان نہیں بلکہ قائداعظم کا پاکستان لوٹنا ہو گا۔