علمی، ادبی، سماجی و ثقافتی روایات کی امین تنظیم جگنو انٹر نیشنل لاہور کے زیرِ اہتمام الحمرا ادبی بیٹھک، لاہور میں پروفیسر شاہینہ کشور (کینیڈا )کے شعری “مجموعے محبت آخری دکھ ہے “کی تقریبِ پذیرائی او رپشاور میں اردو مرکز کے قیام پر پروفیسرعبدالحق (پشاور ) کو خوش آمدید و جگنو مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔تقریب دو نشستوں پر مشتمل تھی ۔ دونوں نشستوں کی نظامت کے فرائض ممتاز شاعرہ،ادیبہ،ماہرِ تعلیم، دانشور،چیف ایگزیکٹو جگنو انٹر نیشنل ایم زیڈ کنول ؔ نے ادا کئے ۔ پہلی نشست مشاعرے کی تھی جس کی صدارت ڈاکٹر کنول فیروز (تمغہٗ امتیاز) نے کی۔ مہمانانِ گرامی پروفیسر عبدالحق مراد باغ، آزاد کشمیر) جناب اعجاز اللہ ناز اور غلام محی الدین (پشاور ) تھے۔شعراء کی کثیر تعداد نے اپناخوبصورت کلام پیش کر کے بزم کوگرمایا۔دوسری نشست پذیرائی تھی ۔ جس کی صدارت جناب افتخار بخاری نے فرمائی ۔مہمانانِ ذی احتشام معروف شاعرہ، مصنفہ،و دانشورپروفیسر شاہینہ کشور (کینیڈا ) اورمدیر اردو مرکز (پشاور ) عبدالحق تھے ۔مہمانانِ اعزاز چیئرمین ادب ورثہ جناب جمیل ارشد خطاط اور روبیہ جیلانی تھے۔
تقریب کا آغاز حسبِ روایت تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جس کی سعادت اے ڈی نظامی کو حا صل ہوئی ۔ بعد ازاں شیراز انجم نے نعتِ رسولِ مقبول ﷺ پیش کی۔مقصود چغتائی میڈیا سیکرٹری جگنو انٹر نیشنل نے پروگرام کی رپورٹ پیش کی ۔ وائس چیئر پرسن گلوبل ولیج فورم کینیڈا،اورحرا فاؤنڈیشن، ٹونی ٹی وی امریکہ محترمہ شاہینہ کشور کے شہرہ آفاق شعری مجموعہ “محبت آخری دکھ ہے “پر شعراءء و دانشوروں نے گفتگو کرتے ہوئے ا ن کے شعری مجموعے کو بہترین ادب کا حصہ قرار دیا نیز ان کی فروغِ علم و ادب کے لئے عالمی سطح پر کاوشوں پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ایم زیڈ کنول نے کہا کہ پروفیسر شاہینہ کشورمحبت کی راہوں کے کانٹے اپنی پلکوں سے چنتی ہیں۔محبت کی کشور کشائی نے انہیں ایسا شاہین بنا دیا ہے جو اپنی اڑان کے لئے بال و پر کا بھی محتاج نہیں۔ کیونکہ محبت ان کاآخری دکھ ہے اور یہ ایسا دکھ ہے جس نے انہیں آفاقی قدروں کا ہمنشیں کر دیا ہے۔انسانیت سے محبت اور امن کا خواب ان کا آدرش بن گیا ہے۔وادئ عشق میں پھول کھلانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں لیکن شاہینہ کشور بے اختیار پکار اٹھتی ہیں۔
دل کی کشتی کو کنارے سے لگایا کشور اور پھر اس میں محبت کو بٹھایا ہم نے
ممتاز دانشور عبدالکریم خالد نے کہا شاہینہ کشور نے محبت کو جس آن دیکھا ہے اس کا ان کی زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔وہ خود جن تجربات سے گزر رہی ہیں ان کا آموختہ ان کی شاعری ہے۔وہ نری محسوسات و جذبات کی شاعرہ نہیں بلکہ ان کے یہاں زندگی کی فکری اور فلسفیانہ اساس بھی دریافت کی جا سکتی ہیاور سب سے اہم بات وہ قرینہ ہیجس نے جذبے اور فکر کو باہم آمیخت کر دیا ہے۔ان کی غزل روایتی مضامین سے الگ اپنا ایک دائرہ بناتی ہے جس میں شاعرہ کا زاویہ نگاہ اچھوتے اور منفرد انداز میں شعروں میں متشکل ہوتا ہے۔
بارِ غمِ حیات اٹھانا نہیں پڑا گردن کو اب کی بار جھکانا نہیں پڑا
،چیئرمین ادبی ورثہ جناب جمیل ارشدخطاط نے کہا کہ” محبت آخری دکھ ہے “صرف محترمہ شاہینہ کشور کی کتاب کا نام نہیں بلکہ عملی زندگی میں ان کی انسا نیت نوازی کی تفسیر ہے ۔ انہوں نے پلاک میں منعقد ہونے والی شاکر شجاع آبادی کے اعزاز میں تقریب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شاہینہ جی نے سٹیج پر ہی فوری طور پر انہیں دس ہزار کا عطیہ دیا بس پھر کیا تھا ان کی اس انسان دوست ترغیب نے ہال میں موجود تمام احباب کے جذبۂ خدمت کو ایسا جگایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک لاکھ سے زیادہ کی چیریٹی اس ایک آواز بلکہ اس جذبۂ محبت کے حوالے سے ہوئی ۔ڈاکٹر افتخار بخاری ،پروفیسر عبدالحق مراد (باغ۔آزاد کشمیر)شگفتہ غزل ہاشمی ،مقصود چغتائی، روبیہ جیلانی اوردیگر مقررین نے بھی شاہینہ کشورکے فن و شخصیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی شاعری کو اس حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا ۔محبتوں کے دکھ میں یہ بھی تو ایک دکھ ہے کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے 72سال بعد بھی ہماری قوم ی زبان ابھی تک سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں کر سکی ۔ محبان اردو کی اس سلسلے میں کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ایسے میں نفاذِ قومی زبان کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کرنے والے نوجوان محب اردو ،صوبائی صدر تحریکِ نفاذِ اردو پاکستان جناب عبدالحق کی نفاذ، اردو کے سلسلے میں بے لوث کوششوں خصوصا” پشاور میں پہلے اردو مرکز کے قیام پر جگنو انٹرنیشنل کی طرف سے ان کی پذیرائی کا اہتمام کیا گیا۔
یہ ایک بہت یادگار تاریخی نوعیت کی تقریب تھی جس میں ایک طرف کینیڈ ا میں مقیم پاکستانی شاعرہ کی پاکستانیت اور ادب نوازی کا اعتراف کیا گیا تو دوسری طرف آئینِ پاکستان کے مطابق ارد کوو قومی زبان کا درجہ دلانے کی جدوجہد میں خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی پذیرائی کی گئی۔اس موقع پر ایک اور پذیرائی بھی کی گئی وہ تھی علمی،ادبی ،سماجی و ثقافتی روایات کی امین تنظیم جگنو انٹرنیشنل کی تمام ٹیم کا امن، دوستی اور ادب کے فروغِ میں عملی کردار۔ خصوصا”چیف ایگزیکٹو ایم زیڈ کنول کی ادبی کاوشوں کا عالمی سطح پر اعتراف کرتے ہوئے حرا فاؤنڈیشن ،کینیڈا کی وائس چیئر پرسن محترمہ شاہینہ کشورنے چیئرپرسن ٹونی جاوید، امریکہ کی طرف سے انہیں تالیوں کی گونج میں ” آسکر ایوارڈ”سے نوازا۔ مزید ۔قبل ازیں مقصود چغتائی نے جگنو انٹر نیشنل کا تعارف کراتے ہوئے ایم زیڈ کنول کی بے لوث خدمات کا خاص طور پر ذکر کیا۔
دیگر مقررین نے بھی چیف ایگزیکٹو تنظیم ایم زیڈ کنولؔ کی علم دوستی،جذبۂ حب الوطنی اور ادب نوازی نیز عالمی سطح کے شاندار پروگرام پیش کرنے پر ان کی ریاضتوں کا اعتراف کیا۔تقریب میں مظہر جعفری ،شیراز انجم، ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ، شہزاد فراموش ، کامران نذیر،کنول بہزاد، اعجاز فیروز اعجاز،عزیز شیخ، فراست بخاری، عالیہ بخاری ہالہ، گلشن عزیز، پروین وفا، فاطمہ قمر،سید کمال شاہ،غلام حسین غازی،عمران سعید، ڈاکٹر شگفتہ نصیر، دانیال بلوچ،سید رضوان ہاشمی اور دیگر شاعروں، ادیبوں،صحافیوں اور طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔آخر میں وطنِ عزیز کی سلامتی ،بچھڑ جانے والے احباب خصوصا” ایم زیڈ کنول کے بہنوئی راؤ تسنیم حسین خاں اور کزن انیسہ پروین زوجہ راؤ جلیل احمد (جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے) کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لئے شیراز انجم نے دعا کا اہتمام کیا۔ مقصود چغتائی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ریفریشمینٹ کے ساتھ یہ خوبصورت اور یادگار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔رپورٹ ہذا کی تیاری کا سہرا ڈاکٹرثروت زہرا سنبل (ڈائریکٹر نیوز) کے سر ہے جنہوں نے بہت محنت لگن اور ریاضت سے یہ رپورٹ مرتب کی۔