تحریر : مسز جمشید خاکوانی موجودہ عسکری قیادت اقتدار کے حوالے سے کسی قسم کی خواہش کی اسیر نہیں۔لیکن یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ عوام اپنے مسائل کے حوالے سے فوج کی طرف دیکھتے ہیں اسی عوامی دبائو کا نتیجہ ہے کہ فوج جس کا کردار اگرچہ سر حدوں کی حفاظت ہے لیکن اسے مجبوراً دیگر معاملات کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے جمہوریت نے پوری قوم کو ایک اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے، حکمران اپنے مفاد سے آگے سوچنے پر بھی تیار نہیں جبکہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے پورے پاکستان میں اپنے ایجنٹ پھیلا رکھے ہیں ،احمد نامی ایک کرائے کے قاتل نے پکڑے جانے کے بعد اعتراف کیا کہ سبین محمود کا قتل اس نے کیا اور یہ کہ را ان کو ہینڈل کرتی ہے ۔بھارت کے رمی چیف نے اپنی فوج میں ایک پابندی لگائی ہے کہ وہ وردی میں تالی نہیں بجا سکتے ۔جبکہ ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لیئے وہ ہماری فوج کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے الطاف حسین کی تقریر کے بعد تو اس بات میں کوئی شبہ ہی نہیں رہا کہ ہماری سیاسی قوتیں بھی استعمال ہو رہی ہیں جن میں ایم کیو ایم سر فہرست ہے۔بھارتی میڈیا کی ایم کیو ایم بارے تشویش ان شہبات کو مزید تقویت دے رہی ہے کہ کیا بھارت ایک بار پھر بنگلہ دیش کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے؟
بھارت ہمیشہ شور مچاتا ہے کہ دہشت گردی پاکستان سے ہو رہی ہے لیکن جب پاکستان میں دہشت گردی کے گڑھ ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو بھارت کی تشویش کیا معنی رکھتی ہے ؟سلمان خان کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی یہ قانون کی حکمرانی کی بہترین مثال ہے لیکن ہم اپنے مجرموں کو سزا دیں تو بھارت مزاحم کیوں ہوتا ہے بے شک دشمن کا کام ہی نقصان پہنچانا ہوتا ہے لیکن ہمیں اپنی سرحدوں کے اندر تو خود کو بچانے کا پورا حق حاصل ہے نا؟آج یہ حال ہے کسی مجرم کو پکڑو تو وہ اپنے ڈنڈہ بردار یا بندوق بردار حمائیتیوں کو سامنے لا کر کھڑا کر دیتا ہے خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں قانون مذاق بنا ہوا ہے ۔مذاق تو یہ بھی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں درجنوں لوگ پولیس کی گولیوں سے مارے گئے مگر اس کی ذمہ داری سے سب کو انکار ہے ۔جن انسانوں کا قتل ہوا ہے کیا ان کو انصاف دینے کے لیئے فرشتے آسمان سے اتریں گے؟ایسے حالات میں سب کی نظریں فوج کی طرف کیوں نہیں اٹھیں گی۔حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں پچیس اہم شخصیات کے گرد شکنجہ کسنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔حساس اداروں نے ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے جس کے مطابق پاکستان مخالف سر گرمیوں میں این جی اوز کی اہم شخصیات کو بھارتی خفیہ ایجنسیز سے فنڈنگ ہو رہی ہے ۔رپورٹ کے مطابق بلوچستان ،سندھ ،پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ”را ” نہ صرف پاکستان میں نفرت پیدا کرنے کے لیئے فنڈنگ کر رہی ہے بلکہ جرائم پیشہ افراد کو بھی پیسہ دے کر ان سے کام لیا جا رہا ہے ۔”را” نے باقائدہ کئی این جی اوز بنا رکھی ہیں جو بظاہر بھارتی نہیں ہیں لیکن درحقیقت ان کو فنڈنگ ” را ” کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ پاکستان میں جان بوجھ کر ایسے معاملات اٹھاتی ہیں جن سے حساس اداروں کے خلا ف نفرت پیدا ہو ۔اور کئی این جی اوز تو اس فنڈنگ کا مذہبی حلقوں میں بھی استعمال کرتی ہیں ۔تینتالیس این جی اوز اور پچیس اہم شخصیات کے خلاف ناقابل تردید ثبوت اکھٹے کیئے جا چکے ہیں ۔لیکن اصل غلطی کہاں ہے اس پر ہم بعد میں بات کریں گے پہلے ایک منحرف بلوچ کا اعتراف نامہ پڑھ لیں وہ صاحب لکھتے ہیں۔
Pakistan
میں حسن امام ،آج بلوچ قوم کے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ مجھ سے بی ایل ایف میں رہتے ہوئے پانچ سالہ دور میں غلطیاں ہوئیں جس کا میں ذاتی طور پر ضرور جواب دہ ہوںاور احتساب کے عمل سے بھی کبھی بغاوت نہیں کرونگا لیکن اس احتساب سے میں ضرور باغی ہوں جو ڈاکٹر اللہ نذر، اختر ندیم ،اور عرفی محراب کے ذریعے ہو ۔کیونکہ وہ غلطیاں تنظیم کو بائی پاس کر کے نہیں بلکہ ان کے احکامات سے ہوئی ہیں اور انکی بجا آوری مجھ سے تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ۔کافی ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ عمل میں آ کر سمجھ آنا شروع ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے ہی میرے اور بی ایل ایف قیادت کے درمیان بہت مسائل اور اختلافات نے سر اٹھانا شروع کیا ۔مجھ پر الزام ہے کہ میں نے بہت سے جہد کار شہید کروائے اور یہ الزام اس وقت مجھ پر لگا جب میں بی ایل ایف سے الگ ہوا جہاں تک ان الزامات کا تعلق ہے میں بی ایل ایف کی قیادت کو دعوت دونگا وہ ان کے ثبوت قوم کے سامنے پیش کریں میں بلوچ قومی عدالت میں پیش ہونے کے لیئے تیار ہوں ۔لیکن میں اس عدالت میں پیش ہونگا جس عدالت میں ،اختر ندیم ،ڈاکٹر اللہ نظر،چیئرمین خلیل اور بہلک بھی مجرموں کی حیثیت سے پیش ہوں اور مجھے یقین ہے وہ میرے خلاف ایک بھی ایسی شہادت پیش نہیں کر سکیں گے جس میں صرف میری غلطی ہو ۔میں نے اپنے پانچ سالہ بی ایل ایف دورانئے میں صرف وہی کیا جس کے احکامات مجھے ان سے ملے مجھے احساس ہے یہ غلطیوں کے زمرے میں آتی ہیں لیکن مجھ سے بڑے مجرم وہ ہیں جن کے احکامات پر میں نے عمل کیا ۔جب سیکھا اور سمجھ آ گئی تو وہی عمل کرنے سے انکار کیا اور اسی انکار کی وجہ سے مجھے دفنائے جانے کی دھمکی بھی ملی اگر کبھی بلوچ قومی عدالت میں جانا نصیب ہوا تو میرے پاس ان صاحبان کے خلاف ثابت کرنے کو بہت کچھ ہے ۔جن سے ان کے مجرمانہ افعال قوم کے سامنے واضح ہو جائیں گے۔
خواہش ضرور تھی کہ جس عمل سے میری سوچ نے مجھے جوڑا تھا )کو میں کسی سنجیدہ اور حقیقی پلیٹ فارم سے آگے لے جائوں اور اس حوالے سے میں نے کچھ جگہوں پر رابطے کرنے کی کوشش بھی کی مگر وقت کی کمی اور بی ایل ایف کے ارادوں کی وجہ سے وہ نہ ہو سکا جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ۔آخر میں ،میں بلوچ قوم سے اپنی لا شعوری غلطیوں کی معافی چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں وہ مجھے ضرور سنے گی ۔مجھے مجرم اور غدار کے خطاب سے نوازے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ۔نہ ہی مجھے ذاتی طور پر اللہ نظر اوراختر ندیم سے کسی اعزاز و خطاب کی ضرورت ہے بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ جو میں باہر لا سکتا ہوں ۔لیکن میری فطرت میں ایسی تربیت نہیں کہ میں جب تک حصہ تھا احکامات کی بجا آوری کرتا رہا اور جب علیحدہ ہوا تو برائی اور بد کرداری کے الزامات لگاتا پھروں جہاں تک بی ایل ایف میں پانچ سال رہ کر آج ان سے علیحدگی کا تعلق ہے تو ان تمام کے پیچھے ایک نظریہ ایک سوچ کار فرما رہی شمولیت کی وجہ نظریاتی سوچ کا ہونا تھا اور وہ پر کشش منزل جس پر میرے بہت سے دوست قربان ہو گئے اور ہو بھی رہے ہیں ۔جب تک ان کے ہر جائز و نا جائز پر خاموش رہا میں ٹیلگ ہوا کرتا تھا جب اعتراض کیا تو واجب القتل ٹھیرا ویسے اگر آج میں غیر مسلح ہوا ہوں اور بلو چستان سے باہر ہوں تو اس کے پیچھے وہ تمام حقائق و واقعات ہیں جس پر آج بلوچ تحریک انتشار کا شکار ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام چیزوں کو میں نے بی ایل ایف کی نام نہاد قیاست کے سامنے رکھا تھا جس پر اختر ندیم نے مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا میں نے بہت سے دوست دشمن دفنائے ہیں (یہاں ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ مسنگ پرسن کو دفنانے والے کون ہیں جس کا الزام فوج پر تھوپا جاتا ہے)اس کا جواب بھی میں نے اس کی حیثیت کے مطابق دیا جس پر جرگہ بھی لگا وہ تفصیل میں یہاں پیش نہیں کر سکتا ۔بی ایل ایف ان تمام چیزوں سے انکاری ہے انکی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ ان گناہ گار ہاتھوں سے منشیات کی بھری گاڑیاں تیرتیح اور مشکے تک بخیرو عافیت ڈاکٹر صاحب تک پہنچائی ہیں ۔بحر حال جس بی ایل ایف میں منشیات فروش ،چور اور ڈاکو ہوں وہاں میرا رہنا ممکن نہیں تھا اس لیئے میں الگ ہو گیا آزادی آج بھی میرا ایمان ہے اور میں اس پر قائم ہوں لیکن میں اس کے لیئے چوروں ،ڈاکووں کے ساتھ ذہنی طور پر رہنا ضروری نہیں سمجھتا جب تک بی ایل ایف میں تھا قومی کار کے طور پر میرا کردار کیا تھا مجھے کسی صفائی کی ضرورت نہیں اور آج اگر الگ ہوا ہوں تو اس کی وجوہات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں ۔نہ میں تھک گیا ہوں نہ ہی اپنی سوچ سے الگ ہوا ہوں حقیقی اور سنجیدہ جدو جہد کا میں آج بھی حامی ہوں چاہے وہ کسی شکل میں ہو۔
ہاں البتہ بلوچ آزادی کے نام پر سپاہ گری ،چوری ،ڈکیتی ،منشیات فروشی اور برادر کشی کا اس سے زیادہ حصہ دار بنے رہنا میرے لیئے ممکن نہیں اگر یہ جرم ہے تو جرم ہی سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک بلوچ کا اعتراف ہے جو کسی طرح میرے ہاتھ لگا ۔ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے حقائق کو جانے بغیر فوج کو معطون کیا کہ وہ بلوچوں کے قتل اور انہیں غائب کرنے میں ملوث ہے ،بہت سے صحافیوں نے اس پراپیگنڈے کو اپنے آرٹیکلز کا حصہ بنایا ۔اب کافی جرنلسٹ اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے غلط فہمی میں ایسے آرٹیکل لکھے جو ہمارے ملک کے لیئے نقصان دہ تھے لیکن اب ہم ان سب کو سامنے لائیں گے یعنی تلافی کریں گے ان غلطیوں کی جنھوں نے ہمارے ملک کو نقصان پہنچایا ۔قارئین ! یقیناً غلطیوں کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے ۔لیکن ایک غلطی ایسی ہے جس کو کبھی ٹھیک کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی حالانکہ وہی سب سے بڑی اور اصل وجہ ہے ہمارے ملک کی بربادی کی۔
Elections
جس کی نشاندہی ڈاکٹر طاہر القادری نے کی اور جس غلطی کو ٹھیک کرنے کا بیڑا عمران خان نے اٹھایا یعنی فراڈ الیکشن ،دھاندلی سے جیتے گئے الیکشن کے نتائج کبھی فروٹ فل نہیں ہو سکتے ۔جب تک کنویں سے کتا ہی نہ نکلے گا کنواںکیسے پاک ہو سکتا ہے ؟ چونکہ پورا نظام ہی بگڑا ہوا ہے جس عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی ہو وہ سیدھی کیسے ہو سکتی ہے ۔یہ اسی کا خمیازہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں ہمارے اس نظام نے واضح کیا کہ الیکشن جیتنے کے لیئے صرف پیسہ ہونا چاہیئے ۔سو پیسہ کرپشن کا تھا ،چوری ڈاکے یا منشیات فروشی کا یا کسی دشمن کے آلہ کار بن کر کمایا گیا ،اس سے الیکشن خریدے جاتے رہے ۔جب ایسے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں پھر ان سے خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ۔پہلے ہمارے ہاں صرف دھاندلی ہوتی تھی لیکن اب ایوان جرائم کے گڑھ بن چکے ہیں کیونکہ اب ہمیں بھارت کنٹرول کر رہا ہے ہم پڑوسی ملک کی جمہوریت کی بہت مثالیں دیتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو وہاں بھی مافیاز کا راج ہے جس کو وہ پاکستان کے منہ پر مل کے جان چھڑا لیتے ہیں ۔اچھے اور سچے لوگ بھارت میں بھی ہیں جو اندرونی کہانیوں کو جانتے ہیں اور مذمت بھی کرتے ہیں لیکن یہ بہت کم ہیں بھارت میں بھی غربت جرائم کی اصل وجہ ہے اور پاکستان میں بھی ۔اس بار ہمارے سیاست دان بھارت سے ایجنڈہ لے کر آئے کہ عوام کی بولنے کی سکت ہی چھین لو ۔اگر عمران خان اور قادری کے دھرنے نہ ہوتے تو عالمی منڈی میں ہم بے مول بک چکے تھے ۔یہ تو کہتے ہیں دھرنوں کی وجہ سے نقصان ہوا مگر میں کہتی ہوں دھرنوں کی وجہ سے سچ سامنے آیا ،عوام کو شعور ملا ،انہیں بھی یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ انسانوں کا حق رائے دہی بھی ہوتا ہے ،جس کو استعمال بھی کرنا چاہیئے ۔ورنہ تو لوگ گھر بیٹھے رہتے تھے کہ چلو چھٹی منائو بھاڑ میں جائیں الیکشن ،جو مرضی جیتے ہمیں کیا ۔یہی سوچ ہر بار ہمیں تنزلی کی طرف لے جاتی رہی ۔نہ تو جمہوری عمل حقیقی جمہوریت میں ڈھلا نہ عوام کی حالت بدلی ۔زرداری نے تو بس اندھیر ہی کر دیا لوٹ مار کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کیئے کہ سارے سیاستدانوں کو اس کی بیعت کرنی پڑی لیکن وہ کیا کہتے ہیں سو دن چور کا تو ایک دن سعد کا ۔۔۔۔۔ سعد رفیق کے تو دن الٹا ختم ہو گئے ،لیکن انکا اصرار ہے کہ دھاندلی پرائزڈنگ آفیسرز نے کی ہے انہوں نے نہیں لہذا الزام ان پر ثابت نہیں ہوتا ۔کون انہیں سمجھائے کہ اگر یہ روایت یوں ہی چلتی رہی تو طاقتور ہی ہمیشہ فائدے میں رہے گا کیونکہ الیکشن پروسس کا پورا عملہ ہی ان کے دبائو میں ہوتا ہے تو ظاہر ہے وہ فائدہ بھی انہی کو پہنچاتے ہیں جن سے انہیں خوف ہوتا ہے ۔یہ کام نگران حکومتیں اپنی نگرانی میں کرواتی ہیں جن کو یہ فرض سونپا جاتا ہے الیکشن سے پہلے اوہر سے نیچے تک ہونے والے تبادلے اور بھرتیاں ”پری رگنگ ” کی بنیاد رکھتی ہیں ۔اسامیاں پیدا کی جاتی ہیں اس میں اسکولوں کے اساتذہ تک شامل ہوتے ہیں جو اپنا معاوضہ یا کمیشن پا کر حق نمک ادا کرتے ہیں یہ لوٹ سیل قومی خزانے سے لگتی ہے جس کی کبھی انویسٹی گیشن نہیں ہوئی اس طرح تو نسل در نسل صرف وہی لوگ قابض رہیں گے جو تمام وسائل پر دسترس رکھتے ہوں۔
میں حیران ہوں لوگوں کو یہ چھوٹی سی بات سمجھ کیوں نہیں آرہی جو آج کا بچہ بچہ جانتا ہے ،ایک نو سالہ بچہ اپنے دوست کو کہہ رہا ہو کہ یار میں نے اپنے بابا کو کہا بھی تھا ،بابا آپ بلیغ کو ووٹ نہ دیں لیکن بابا کہتے تھے اماں جان کا حکم ہے یار اگر میں بڑا ہوتا تو عمران خان کو ہی ووٹ دیتا ۔۔۔ میں اتنی حیران ہو رہی تھی کہ اس نسل میں کتنا سیاسی شعور آگیا ہے کیا یہ آگے چل کر دھاندلیاں ہونے دیں گے؟ کبھی نہیں اس ایک غلط عمل نے تمام ادارے تباہ کر دیئے ہیں ۔سنا ہے ایک بہت اہم ترین شخصیت ایک بہت مضبوط سیاسی شخصیت کے پاس گئی کہ آپ یہ کرپشن کے معاملات ٹھیک کریں ،انہوں نے انکے بھائیوں کی فائل ان کے سامنے رکھ دی یہ جنرل کیانی تھے جن کے بھائیوں کی کرپشن انہیں لے ڈوبی ۔عمران خان نے سچ پھرولنے کا جو پروگرام شروع کیا ہے وہ اس میں ضرور سرخرو ہونگے کیونکہ اللہ سچ بولنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔